• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1973ءمیں جب ذوالفقار علی بھٹو نے سویلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کا عہدہ چھوڑ کر آئینی وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو گجرات کے بوڑھے سیاست دان فضل الٰہی چوہدری کو صدارت کے منصب سے نوازا 1973 کے نئے آئین کے مطابق صدر کا عہدہ علامتی سربراہ مملکت کا تھا۔ صدر اتنا بے اختیار تھا کہ وزیراعظم اس کے دستخطوں کی تصدیق کرتا۔ پھر بھٹو صاحب کی انا سے بھرپور شخصیت، جس تقریب میں صدر اور وزیراعظم دونوں نے شرکت کرنا ہوتی، بھٹو صاحب تقریب میں، اس وقت پہنچے جب، صدر فضل الٰہی چوہدری پہنچ چکے ہوتے مقصد یہ ہوتا کہ انہیں اٹھ کر صدر کا استقبال نہ کرنا پڑے!
فضل الٰہی چوہدری کی بے اختیار صدارت کے حوالے سے انہی دنوں یہ واقعہ مشہور ہوا کہ روزانہ ایوان صدر کی دیواروں پر یہ نعرے لکھے پائے جاتے کہ ”فضل الٰہی چوہدری کو رہا کرو“ حکومت بہت پریشان تھی نعرے مٹائے جاتے مگر اگلی صبح پھر لکھے پائے جاتے۔ آخر ایک روز کڑا پہرہ لگایا گیا تو ایک شخص پکڑا گیا جو منہ پر کپڑا ڈالے، ہاتھ میں رنگ کی بالٹی اور برش پکڑے یہ نعرے لکھ رہا تھا.... ’منہ سے کپڑا ہٹایا گیا تو پتہ چلا وہ خود صدر فضل الٰہی چوہدری تھے۔
ہمیں تو اسلام آباد کی یاترا کو برسوں بیت گئے۔ مگر وہاں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی دیواروں پر کچھ ایسے نعرے لکھے پائے جا رہے ہیں۔
”فخرو بھائی کو رہا کرو“
”فخرو بھائی کو با اختیار کرو“
کہتے ہیں کہ حکومتی اہلکار روز ان نعروں کو مٹاتے ہیں مگر اگلی صبح کو یہ پھر سے لکھے جاتے ہیں۔ ابھی تک نعرے لکھنے والا یہ ملزم پکڑا نہیں جا سکتا۔ اس لئے محض یہ قیاس کیا جا سکتا ہے فخرو بھائی یہ نعرے خود ہی لکھ رہے ہیں!
84 سالہ فخر الدین جی ابراہیم عرف فخرو بھائی پاکستانی معاشرے میں دیانت کی علامت سمجھے جاتے ہیں! مگر مصیبت یہ ہے کہ دیانت اور رموز مملکت ”مختلف چیزیں ہیں۔ ساری عمر دیانت سے گزارنے کے بعد بڑھاپے میں الیکشن کمشنر بن کر فخرو بھائی نے وہی کام کیا ہے جو ان کی عمر کا ایک بوڑھا 20 سالہ دوشیزہ سے شادی کر کے کرتا ہے۔ اس عمر میں نہ بیوی قابو میں آتی ہے نہ محلے داروں کی زبانیں رکتی ہیں اور پھر آدمی وہی کام کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو ایک سردار جی نے کیا تھا!
سردار جی نے اپنی بیوی کو کسی شخص کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر گولی مار دی۔ مقدمہ چلا۔ عدالت میں سردار جی سے سوال پوچھا گیا۔
”آپ نے اپنی بیوی کو کیوں گولی ماری! اپنی بیوی کے آشنا کو کیوں قتل نہ کیا؟
سردار جی نے جواب دیا
”ہر ہفتے ایک آدمی کو قتل کرنے سے بہتر تھا کہ بیوی کو گولی مار کر قصہ ہی ختم کر دیتا!“
تو یارو.... ماجرا کچھ یوں ہے 84 سالہ بابا جی فخر الدین جی ابراہیم کی نئی نویلی دلہن ”الیکشن کمیشن آف پاکستان“ سے شادی تو ہو چکی بلکہ آصف زرداری اور نواز شریف کے اتفاق رائے نے زبردستی کرا دی شادی کے بعد دونوں معزز ”وچولڑے“ غیر جانبدار بن کر ایک طرف بیٹھ گئے ہیں۔ 84 سالہ فخرو بھائی کچھ کر نہیں پا رہے۔ الیکشن کمیشن کی دولہن رسے تڑا رہی ہے اور بدمعاش میڈیا والے سیٹیاں بجا رہے ہیں.... اللہ ہی خیر کرے اس بڑھاپے میں فخرو بھائی کہیں رسوا ہی نہ ہو جائیں!!
یارو.... کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف نے گزشتہ پانچ سال میں ”مک مکا“ کی جو سیاست کی ہے، اس نے بڑی حد تک یہ بات ثابت بھی کی ہے! چند روز قبل ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینر نے کسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک لاجواب شعر پڑھا
آگ لگے ساری بستی میں
عبداللہ رہے اپنی مستی میں
جناب میاں آصف نواز شریف زرداری (دونوں اصل میں ایک ہیں تو نام ایک کیوں نہیں) نے پانچ سال مستی میں گزار دیئے۔ ادارے تباہ ہو گئے، جمہوریت برباد ہو گئی، غربت بڑھتی رہی، غریب خود کشیاں کرتے رہے۔ لوگ چیختے رہے، حکمران دورے کرتے رہے، عوام کی آہ و بکا رہی اور حکمران جلسوں سے خطاب کرتے رہے.... ان دونوں کی مستی نے اپنے سرداروں کی مستی کو بھی مات کر دیا۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ یہ یک جان دو قالب، عوام دشمنی میں فخر الدین جی ابراہیم کو بھی ویسے مار دیں گے جیسے سردار ہرنام سنگھ کے ہاتھوں مچھر مر گیا تھا!! سردار ہرنام سنگھ اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ مچھر بہت تنگ کر رہے تھے وہ ایک کو بھگاتا، چار اور کاٹنے آ جاتے۔ اپنے اردگرد والے مچھر تو اسے نظر نہیں آ رہے تھے، اچانک اسے مچھروں کا ایک گروہ اپنے بھائی کے سر پر منڈلاتا نظر آیا۔ ہرنام سنگھ نے پاس پڑا ڈنڈا اٹھایا اور پوری قوت سے بھائی کے سر پر دے مارا ایک دو مچھر مرے، ساتھ ہی بھائی بھی مر گیا۔ لوگ جمع ہو گئے۔ ایک شخص بولا۔ ”ہرنام سنگھ.... یہ تو نے کیا کیا؟“ ہرنام سنگھ بولا ”دشمنی میں یہ سب کچھ چلتا ہے.... دو دشمن کے مرے، ایک اپنا مر گیا تو کیا ہوا؟“ خدا کرے.... جوہم نے لکھا ہے، وہ جھوٹ ثابت ہو، ”میاں آصف نواز شریف زرداری“ کو اب بھی عقل آ جائے اور 84 سالہ فخرو بھائی کا بڑھاپا، آبرو اور عاقبت خراب ہونے سے بچا لیں۔ چوروں، ڈاکوﺅں اور لٹیروں (یہ کہنا الیکشن کمیشن کا ہے) کو اسمبلیوں سے دور رکھنے کے لئے فخرو بھائی کو وہ اختیارات دے دیں، جو وہ مانگتے ہیں۔ امید تو نہیں کہ یہ ”یک جان دو قالب“ عوام کے لئے کچھ بہتر کریں گے، مگر خوش فہم رہے بغیر چارہ بھی نہیں!! دعا ہے.... اللہ تعالیٰ کی فخرو بھائی کی نئی ”سیاسی ازدواجی زندگی“ میں خوشیاں بھر دے!! پس تحریر: میاں شہباز شریف نے لاہور میں میٹرو بس منصوبے کا آغاز کیا تو ان کے ایک عزیز دوست نے دلچسپ تبصرہ کیا تھا جو ہمیں گزشتہ روز لاہور میں ہونے والا احتجاج کو دیکھ کر یاد آیا اس ستم ظریف کا لفظ بہ لفظ تبصرہ بہ تبصرہ کچھ یوں تھا (یہ تبصرہ پنجابی میں تھا، ہم اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں) ”یار.... میں نے اس کو (شہباز شریف) بہت سمجھایا ہے کہ لاہور کے بیچوں بیچ یہ جنگلے مت لگاﺅ۔ جس دن پہلا جلوس نکلا اور پچاس آدمیوں نے مل کر دھکا دیا نہ جنگلا رہے گا نہ بس نظر آئے گی“ اس کالی زبان والے کا تبصرہ کل سچ ثابت ہو گیا.... احتجاجی جلوس نے کل میٹرو بس کا ایک سٹیشن توڑا۔ بسیں بھی توڑیں اور بس سروس بھی رک گئی.... اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو بہتر منصوبہ بندی اور عوام کو سمجھ داری کی توفیق دے مگر ابھی بہت جلوس نکلنا باقی ہیں.... اسی لئے سنا ہے لاہوریوں نے اپنی دعاﺅں کو ہی تبدیل کر لیا ہے.... پہلے لاہور والے کہتے تھے
”یا اللہ کُل دا بھلا، کُل دی خیر“
سنا ہے کل سے وہ یہ کہہ رہے ہیں
یا للہ .... پل دا بھلا، پل دی خیر“
تازہ ترین