پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما نعیم الحق کی وفات پر ملک کے دیگر حصوں کی طرح ملتان میں بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھرپور اظہار رنج وغم کیا اور تین روزہ سوگ کے دوران نعیم الحق کو خراج تحسین عقیدت پیش کرنے کے لیے مختلف اجلاس منعقد کئے اور ان کی پارٹی خدمات کو سراہا ،نعیم الحق کے بارے میں ملتان کے تمام سینیئرو جونیئر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ انہوں نے عمران خان کے دوست ہونے کا حق ادا کیا، کسی عہدے اور لالچ کے بغیر تحریک انصاف میں رہ کر پارٹی کو مضبوط بنانے اور اقتدار تک پہنچانے میں ان کی جدوجہد ناقابل فراموش ہے، یہ بھی کہاگیا کہ نعیم الحق پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا اور نہ ہی انہوں نے پارٹی میں گروپ بندی کو جنم لینے دیا۔
وہ ایک سچے اور کھرے سیاسی کارکن کی طرح عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے اور کسی ایک موقع پر بھی انہوں میں کوئی ایسا تاثر نہیں دیا کہ وہ کسی بات پر پارٹی چیئرمین سے اختلاف رکھتے ہیں یا انہوں نے یہ اظہار کیا ہو کہ انہیں پارٹی کے امور میں نظرانداز کیا جارہا ہے ہے اگر عمران خان کے بااعتماد ساتھیوں کو ان کے اردگرد ڈھونڈا جائے تو اس وقت کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا،جو نعیم الحق کی طرح عمران خان کے اعتماد پر پورا اترتا ہو، سب کی اپنی اپنی مجبوریاں اور مفادات ہیں ،اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ نعیم الحق کی وفات سے وزیراعظم عمران خان واقعتاًسیاسی طور پر تنہا رہ گئے ہیں اور خود وزیراعظم نے بھی اس کا اظہار کیا ہے کہ نعیم الحق کی وفات ان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے ۔
اگر جنوبی پنجاب کا ذکر کیا جائے تو ملتان سمیت کسی بھی بڑے شہر میں مسلم لیگ نون یا پیپلزپارٹی کہیں نظر نہیں آتی، بلاول بھٹو جب جنوبی پنجاب آئیں گے تو اس وقت بھی اندازہ ہو جائے گا کہ سوائے مظفرگڑھ کے جہاں پیپلز پارٹی کے پاس تین قومی اسمبلی کی نشستیں ہیں اور کہیں عوامی حمایت موجود نہیں، حتی کہ ملتان جہاں سید یوسف رضا گیلانی موجود ہیں پیپلزپارٹی کے حوالے سے غیر متحرک شہر نظر آتا ہے یوسف رضا گیلانی بھی سوائے خوشی غمی کی تقریبات میں شرکت کی، کوئی اور سیاسی سرگرمی کرتے دکھائی نہیں دیتے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پارٹی کی مقامی قیادت غیر فعال ہو چکی ہے چند پرانے کارکنوں اور رہنماؤں کے سوا عوام کے اندر اس کی جڑیں مفقود نظر آتی ہیں۔
حالت یہ ہوچکی ہے کہ ایک دن سابق وفاقی وزیر ملک مختیار احمداعوان کو پیپلزپارٹی کی آواز بلند کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑا ،انہوں نے پریس کانفرنس کی اور پارٹی کی موجودگی کا احساس دلایا، یہ وہی ملک مختیار احمد اعوان ہیں جو بھٹو کے ساتھی رہے اور بعد ازاں انہیں مقامی سطح پر نظر انداز کیا جاتا رہا ، اب بھی وہ پیپلز پارٹی کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں۔حق دار تو مخدوم جاوید ہاشمی بھی اپنی ثابت قدمی پرخراج تحسین کے ہیں ،کیونکہ وہ ملتان میں بیٹھ کر مسلم لیگ نون کی آواز کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، نیب کے لاہور میں شریف خاندان کی کمپنیوں کے دفاتر پر چھاپوں کے خلاف ہوئے وہ ایک بار پھر میدان میںآئے اور انہوں نے کہا کہ حکومت صرف شریف خاندان کو ٹارگٹ کر رہی ہے کیونکہ جب بھی مسلم لیگ نون اس کی نااہلی، بدانتظامی، معاشی بدحالی کی ذمہ داری کا تذکرہ کرتی ہیں، تو حکومت کی طرف سے اس کی آواز کو دبانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں نیب کرپشن کا کیس بھی شریف خاندان پر ثابت نہیں کرسکی، لیکن حکومتی ایماء پر اس کی کارروائیاں جاری ہیں، مریم نواز کو لندن نہ جانے دینے کا معاملہ بھی اسی انتقامی سوچ کا نتیجہ ہے۔
لیکن یہ نظام اب زیادہ دیر چلنے والا نہیں کیونکہ حکومت نے سارا ملک تباہ کر دیاہے ، عوام پر ایک ایک دن بھاری گزر رہا ہے۔بھاری تو جنوبی پنجاب کی عوام پر حکومت کے صوبے اور سیکرٹریٹ کے حوالے سے فیصلہ نہ کرنے کا معاملہ بھی گزر رہا ہے حالات اس نہج پر آگئے ہیں کہ سرائیکی تنظیموں کی طرف سے احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ،پچھلے دنوں اس سلسلے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ملتان میں رہائش گاہ کے باہر بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مظاہرین نے احتجاجی بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر حکومت کی وعدہ خلافی اور شاہ محمود قریشی کی اس سلسلہ میں خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
حال ہی میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ ملتان کے اراکین اسمبلی کی لاہور میں ہونے والی ملاقات میں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا اور وزیر اعلی کو یہ باور کرایا گیا کہ اس معاملے میں تاخیرکی وجہ سے ملتان اور جنوبی پنجاب میں پارٹی کے ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور لوگ اب پوچھتے ہیں کہ صوبہ بنانے اور سیکریٹریٹ کے قیام کے وعدے کیا ہوئے؟اس پر وزیر اعلی عثمان بزدار نے وہی ایک روایتی بیان دیا کہ یہ وعدے ضرور پورے ہوں گے اور علیحدہ سیکریٹریٹ اور صوبہ ضروربنایا جائے گا، مگر یاد رہے کہ یہ وعدے پچھلے 18 ماہ سے کئے جارہے ہیں اور ٹال مٹول کا یہ سلسلہ اب اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ عوام اسے ایک سنگین مذاق سمجھنے لگےہیں، حقیقت یہ ہے کہ اس سمت میں پیش رفت تک نہیں کی جا رہی، یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان نے کرنا ہے مگر عرصہ ہوا انہوں نے کبھی اس کا ذکر تک نہیں کیا، مختلف چینلوں پر ان کی وہ پرانی تقریریں دکھائی جاتی ہیں جن میں انہوں نے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا ،مگرحالات کے تیور بتاتے ہیں وہ اس وعدے پر بھی یوٹرن لیا جاچکا ہے اور سوائے طفل تسلیوں سے وقت گزارنے کے اس معاملے میں کوئی عملی قدم اٹھانا حکومت کےترجیحات میں شامل نہیں ہے، سب سے زیادہ مشکل پی ٹی آئی کے مقامی ارکان کو پیش آئے گی اور ان کے گھروں کے باہر بھی احتجاجی مظاہرے کیے جانے کا منصوبہ بن چکا ہے۔