• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چالیس سالہ حکومتوں نے پنجاب کے دیہی علاقوں کو سہولیات سے محروم رکھا، نہ وہاں تعلیمی سہولتیں بڑھ سکیں اور نہ ہی دیہی علاقوں کو صحت کی سہولتیں دی جا سکیں۔

چالیس سال تک حکمرانی کرنے والوں نے پسماندہ علاقوں میں صنعتیں بھی قائم نہ کیں۔ چھوٹے اور غریب علاقوں میں چھوٹی صنعتوں کو بھی فروغ نہ دیا جا سکا، کھیت سے منڈی تک سڑکیں بھی نہ بن سکیں۔ سہولتوں کے اس فقدان نے دیہی آبادیوں کا رخ شہروں کی طرف موڑ دیا، لوگ بڑی تیزی سے دیہاتوں سے شہروں کی طرف منتقل ہونے لگے۔

چھ سال پہلے روزانہ ستائیس سو افراد مستقل بنیادوں پر لاہور منتقل ہوتے تھے، آج یہ تعداد چار ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اسی طرح پنجاب کے جنوبی حصے میں ملتان کی آبادی تیزی سے پھیلنے لگی۔ شمالی پنجاب میں راولپنڈی میں رش بڑھ گیا۔ وسطی، جنوبی اور شمالی پنجاب کے ان تین بڑے شہروں کے علاوہ باقی شہروں میں بھی آبادی برق رفتاری سے بڑھی۔ فیصل آباد کی بڑھتی ہوئی آبادی ہماری زرخیز زمینوں کو کھا گئی۔

سیالکوٹ اتنا پھیلا کہ ایک طرف وہ سمبڑیال سے جا ملا تو دوسری طرف ڈسکہ کے ساتھ جڑ گیا۔ گوجرانوالہ نے بھی زرعی زمینوں کو آبادیوں میں بدل دیا۔ لاہور اتنا بڑھا کہ اب قصور اور شیخوپورہ کو ایل ڈی اے کی حدود میں شامل کر لیا گیا۔ ساہیوال اور بہاولپور بھی بڑھے۔

گجرات اور جہلم میں رش ہو گیا، منڈی بہائو الدین، سرگودھا اور جھنگ بھی پہلے جیسے نہیں رہے، ان شہروں میں ٹریفک نہیں رکا کرتی تھی، اب وہاں ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔

پنجاب میں شہروں کی آبادی بڑھنے سے ایک طرف یہ آبادیاں زرخیز زرعی زمین نگل گئیں تو دوسری طرف ان شہروں پر بوجھ بڑھ گیا۔

مثلاً پنجاب کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں عام طور پر ایک دو اسپتال اور دو کالجز سرکاری سطح پر ہوتے تھے۔ بعض شہروں میں یہ تعداد تین چار کالجز اور تین چار اسپتالوں تک تھی۔ شہروں کی آبادی بڑھنے سے سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں پر بوجھ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔

بوجھ بڑھنے سے تعلیمی ادارے کارکردگی دکھانے سے قاصر نظر آنے لگے، اسی طرح اسپتالوں میں علاج معالجہ مشکل ہوتا چلا گیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پنجاب کے شہروں میں سرکاری تعلیمی ادارے بے حیثیت سے ہو کے رہ گئے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں ایک ایک بیڈ کیلئے دس دس مریض ہیں، اسپتالوں میں روزانہ لڑائیاں ہوتی ہیں۔

پنجاب کے شہروں میں سرکاری اسپتال مچھلی منڈی بن کر رہ گئے ہیں، چالیس سال تک حکومت کرنے والوں کی ناقص منصوبہ بندیوں سے پنجاب میں سرکاری تعلیمی ادارے اجڑ گئے، ان کی جگہ مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے لے لی، اسی طرح سرکاری اسپتالوں کے علاوہ بے شمار پرائیویٹ اسپتال بن گئے نتیجتاً پنجاب میں صحت اور تعلیم مہنگی ہو گئی، لوگوں کے لئے زندگی کا سفر مشکل ہو گیا، لوگوں کے لئے یہ لمحات انتہائی تکلیف دہ ہیں کہ وہ بچوں کو کھانا کھلائیں یا پھر ان کی تعلیمی فیسیں دیں یا انہیں صحت کی مہنگی سہولتیں مہیا کریں۔

والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو بہتر سے بہتر تعلیمی سہولتیں حاصل ہوں، اسی طرح صحت کی اعلیٰ سہولتیں دستیاب ہوں مگر پنجاب کے بڑے شہروں میں عجیب و غریب صورتحال ہے۔ ان شہروں میں مہنگے ترین تعلیمی ادارے تعلیم بیچ رہے ہیں، کاروباری افراد نے تعلیم کو تجارت بنا کے رکھ دیا ہے۔

پڑھانے والے بھی پیسے کی چمک کا شکار ہیں اسی لئے اب کسی پروفیسر کا نام مشہور نہیں ہوتا ورنہ یہاں تو پروفیسر جیلانی کامران، پروفیسر کرار حسین، پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پروفیسر اشفاق علی خان، مشکور حسین یاد اور ڈاکٹر نذیر سمیت کئی اساتذہ کے نام مشہور تھے۔ دولت کی چمک نے اساتذہ سے شہرت بھی چھین لی ہے۔ صحت اور تعلیم اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔

یہ بھی دیکھئے : مظہر برلاس کا گزشتہ کالم’ پنجاب بڑا اناج گھر کیوں نہ بن سکا؟


شہروں کی تیز رفتاری سے بڑھتی آبادیوں نے زرعی زمین کا خاتمہ تو کیا ہی ہے، ساتھ ہی زمینوں کی قیمتوں کو بھی آسمان پر پہنچا دیا ہے۔

جو خاندان دو سو سال سے لاہور یا ملتان میں رہ رہے ہیں وہ اپنی اگلی نسلوں کے لئے دو مرلے جگہ خریدنے سے قاصر ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باہر سے آنے والوں کی وجہ سے شہروں کے گرد زمینیں مہنگی ہو گئیں اور اب وہ وہاں کے رہائشیوں کی پہنچ سے بھی دور ہو گئی ہیں۔

اس سے معاشرے میں توازن نہیں رہا۔ عدم توازن کا شکار ہونے والے معاشرے سے بہتری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ بقول ناہید ورک ؎

میں جس میں دیکھ کے خود کو سنوار لوں ناہیدؔ

ابھی ملا ہی کہاں ہے وہ آئینہ مجھ کو

تازہ ترین