• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1920کی دہائی میں نئی غذائیں وسیع پیمانے پر دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ وہ پکوان جو محنت سے گھروں اور ریستورانوں میں تیار ہوتے تھے، نیم تیار شدہ اجزا، ڈبّوں اور بوتلوں میں پیک پاؤڈروں، مائع جات اور تیار شد ہ غذائوں کی وجہ سے جلد سے جلد تیار ہونے لگے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد1948 سے 1950تک تباہ شدہ جرمن اوراس کے دیگر اتحادی مُلکوں کی امریکی امداد سے مارشل پلان کے ذریعے بحالی کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس کے تحت زراعت سے منسلک کاروباروں کو وسعت دی گئی۔ مرغ بانی کی صنعت تیزی سے پھیلی اور پولٹری کےذریعے سستی خوراک مقبول ہوئی۔ چکن کو مختلف طریقوں سے پیش کیا جانے لگا۔ ’’سبز انقلاب‘‘ کے ذریعے زرعی اجناس کی جلد اور کثیر تعداد میں فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ 1930 میں شروع ہونے والا یہ انقلاب 1960تک بہترین نتائج دینے لگا۔ اس میں زیادہ پیداوار دینے والا نو تخلیق شدہ، جدّت آمیز اناج، بالخصوص چھوٹے قد کی گندم اور چاول، کیمیکل فرٹیلائزرز، زرعی کیمیائی مادّوں اور محدود آب پاشی کے ذریعے اُگائے جانے لگے۔ زراعت میں مشینوں کا استعمال وسیع پیمانے پر ہونے لگا اور کھپت بھی بڑھنے لگی۔ ابھی زمانے نےکیمیائی مادّوں کے صحت پرہونے والے منفی اثرات دیکھنا تھے۔ ریفریجریٹر کی وجہ سے کثیر خوراک کو نہ صرف محفوظ کرکے زیادہ مدّت تک قابلِ استعمال بنایاگیا بلکہ ریفریجریٹڈ کنٹینروں کے ذریعے ان کی رسد و فراہمی دُور دُور تک ہونے لگی۔ 

اس طرح خوراک دیرتک قابلِ استعمال رہتی اور لوگوں کو ہر علاقے اور معاشرے کی متنّوع غذائوں سے بھی آشنائی حاصل ہونے لگی۔ آج پاکستان کے کسی بڑے شہر میں ایک قوتِ خرید رکھنے والے گاہک کو فرانسیسی، اطالوی، برطانوی، چینی، جاپانی، تھائی، امریکی، عربی اور افریقی غذائیں اور پکوان باآسانی میسّر ہیں۔ پاکستان میں کھانوں کا تنّوع لامحدود ہے، اس پر مستزاد بین الاقوامی پکوانوں کی دست یابی۔ یہ تصور قیامِ وطن کے وقت مشکل تھا۔ البتہ ماہرین کے مطابق چند چیزوں کو فریج میں رکھنا مناسب نہیں۔ فریج میں رکھنے سے ڈبل روٹی جلد خشک ہوجاتی ہے، جَڑی بوٹیاں جلد مُرجھا جاتی ہیں، آلوؤں کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہے اور انھیں پیاز کے نزدیک فریج میں رکھنے سے پیاز آلوؤں کی نمی جذب کرکے جلد خراب اور بدبودار ہوجاتےہیں، ٹماٹر نرم پڑجاتے ہیں، کیچپ کا سرکہ بقیہ اجزا سے علیحدہ ہونے لگتا ہے، کافی کے ذرّات جَمنے لگتے ہیں، شہد بھی جمنے لگتا ہے، لہسن ذائقہ کھو کر جلد خراب ہونے لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان اشیا کو تازہ ہَوا والی یا ٹھنڈی جگہ پر مختصر مدت کے لیے محفوظ کرنا بہتر رہتا ہے۔

ایک کہاوت ہے کہ فرانسیسی چند منٹوں میں کھانا تیار کرکے اِسے گھنٹوں میں کھاتے ہیں، جب کہ پاکستانی گھنٹوں میں کھانا تیار کر کے اسے منٹوں میں کھاجاتے ہیں۔ فرانسیسی کھانے کی تزئین وآرائش اورحُسنِ زیبائش کو کسی بھی قوم سے زیادہ سراہتے ہیں۔ برطانیہ میں چند ریستوران ایک انوکھی پیش کش لےکرسامنے آئے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں نام ’’ہاؤس بائٹس‘‘ ریستوران کا ہے۔ یہ ریستوران پکوانوں کو گھر پہنچانے (ہوم ڈلیوری) کےساتھ ساتھ اضافی ادائی پر، وہ سَنے ہوئے برتن بھی متعلقہ گھروں تک پہنچاتے ہیں، جن میں کھانا پکا ہو۔ اس پیش کش کا مقصد گھر آئے مہمانوں کو غلط فہمی میں رکھنا ہوتا ہے۔ جب مطلوبہ پکوان متعلقہ برتنوں میں مہمانوں کے سامنے رکھے جاتے ہیں تو میزبان یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ پکوان خاص ان مہمانوں کے لیے بہت اہتمام سے گھر ہی پر تیار کیے گئے ہیں۔ جدید دور میں مشروبات، کھانوں اورپکوانوں کے حقائق میں سرفہرست بات معروف امریکی ارب پتی، رئیس وارن بفٹ سے متعلق ہے۔ 

وارن بفٹ عمدہ پکوانوں کاذوق وشوق رکھتاہے، پروہ بسیارخوری کے صحت پر ہونے والے مضراثرات سے بھی واقف ہے۔ چناں چہ اُس نے اپنا وزن حد میں رکھنے کا عجیب حل نکالا۔ جب وہ جوان تھا تو اپنے بچّوں کو اُس دَور کے مطابق خطیررقم یعنی دس ہزار ڈالر کا پوسٹ ڈیٹڈ چیک دے دیا کرتا۔ بچّوں کو حق حاصل تھا کہ اگربفٹ وارن کا وزن ایک مقررہ تاریخ کو طے شدہ وزن سےزیادہ نکلے تو وہ اُس چیک کو بُھنوالیں۔ وہ اپنی رقم میں کمی کے بجائے وزن میں کمی گواراکرلیتا تھا۔ مگراُس کے بچّوں کو کبھی بھی وہ چیک کیش کروانے کا موقع نہیں ملا۔ اُسے اپنی خوراک کو اِس چیلنج کے ذریعے حدود میں رکھنے کی ایسی عادت ہوئی کہ بعد ازاں وہ مدّت تک اپنے وزن کو قابو میں رکھ پایا۔ 

دنیا میں کھانے کی اشیا میں سب سے زیادہ چوری ’’پنیر‘‘ کی ہوتی ہے۔ دنیا میں بنائے جانے والے کُل پنیر میں سے چار فی صد پنیر چوری ہوجاتا ہے۔ سب سے زیادہ پنیر پیزا کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے۔ پیزا کے ریستورانوں کے سب سے بڑے سلسلے ’’پیزاہٹ‘‘، ’’پاپاجونز‘‘، ’’ڈومینوز‘‘ اور ’’لِٹل سیزرز‘‘ ہیں۔ حیران کُن طور پر یہ تمام ریستوران، پنیر ایک ہی شخص سے خریدتے ہیں۔ اُس شخص کا نام جیمز لیپرنیو ہے اور اس کے فروخت کردہ سالانہ پنیر کا وزن ایک ارب پاؤنڈ یا پینتالیس کروڑ کلوگرام ہے۔ پاکستان میں کسی ریستوراں، کھوکھے یا ریڑھی والے کے کباب، چنے یا حلیم وغیرہ مشہور و مقبول ہوجائیں تو الزام لگا دیاجاتا ہے کہ متعلقہ شخص گاہکوں کو اپناباقاعدہ گاہک بنانے کے لیے اس پکوان، مشروب، خوراک یا پان وغیرہ میں کوئی نشہ آور شے ملاتا ہے۔ بعض اوقات یہ الزام درست بھی ثابت ہوتا ہے۔ حیران کُن بات تو یہ ہے کہ ماضی میں بڑے ملٹی نیشنل برانڈز بھی لوگوں کو اپنا عادی گاہک بنانے کے لیے باقاعدہ طور پر نشہ آور اجزا اپنی خوراک ومشروبات میں شامل کرتے رہے ہیں۔ 

کوکاکولا اپنے مشروبات میں ’’کوکین‘‘ کی آمیزش کرتا تھا۔ یہ معاملہ 1903تک جاری رہا۔ سیون اَپ کے بنیادی فارمولے میں لیتھیئم سیٹریٹ (Lithium Citrate) نامی کیمیکل شامل ہوتا تھا، جو موڈ کو خو ش گوار اور متوازن رکھتا۔ یہ کیمیائی مادہ بیسویں صدی کے اوائل تک مشروب میں شامل کیاجاتا رہا۔ان کےعلاوہ معروف مشروب فانٹا کی بھی ایک کہانی ہے۔ دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران 1941 میں جرمن اتحادی جاپان نے امریکی فوجی اڈّے، پرل ہاربر پر اچانک حملہ کردیا۔ اس کے بعد امریکا بھی جنگ میں کود پڑا۔ امریکا کی کمپنی کوکاکولا نےاپنےمشروب کی ترکیب کا خفیہ جُز جرمنی کو بھیجنا بند کردیا۔ نتیجتاًاس کی جرمن شاخ کامنتظم اعلیٰ میکس کیتھ پریشانی اور تذبذب میں مبتلا ہوگیا۔ اس کا حل اُس نے یوں نکالا کہ اس نے بقیہ میسر اجزا کی مدد سے ایک نیا مشروب تیار کرلیا، جسے دنیا فانٹا کے نام سے جانتی ہے۔ مارس(Mars)ایک معروف چاکلیٹ ہے، جسے مارس خاندان نے 1930میں متعارف کروایا۔ انھوں نے اپنے ایک مشہور برانڈ کا نام اپنے خاندانی گھوڑے کے نام پر رکھا۔ 

گھوڑے کا نام سنیکرز(Snickers)تھا اور چاکلیٹ کا بھی یہی نام ہے۔ رچرڈ مونٹاریز امریکا میں چیٹوز (Cheetos) بنانے والی فرم میں بھنگی یعنی صفائی والا تھا۔ ایک مرتبہ اُس نے اپنے غریب خانے میں چند دوستوں کو بلایا۔ وہ اُنھیں خوش کرنا چاہتا تھا، اُس نے چیٹوز پرمسالا چھڑک کر اُنھیں تیار کیا۔ چیٹوز، چپس سے مختلف لمبے پُھولے ٹکڑوں پرمشتمل ہلکا پھلکا اسنیک ہوتا ہے، جسے لوگ ٹھونگتے رہتے ہیں۔ دوستوں کو مسالا ملےچیٹوزاتنے پسند آئے کہ رچرڈ نےاس ترکیب کو کمپنی کے صدر کے سامنے رکھا۔ نتیجتاً مسالے والے چیٹوزتیارکیے گئے اور یہ یکایک بین الاقوامی سطح پر مقبول ہوگئے۔ ان کے مسالوں کا انسان پر وہی اثر ہوتا ہے، جو ہلکی پُھلکی نشہ آور شے کا ہوتا ہیعنی انسان اُن کا عادی ہوجاتا ہے۔ کمپنی کے صدر نے رچرڈ کو اہم شعبے کا سربراہ بنا دیا اور ایک معمولی صفائی والا اپنے ایک خیال سے کام یابی کی بلندی تک پہنچ گیا۔

چپس کےمذکورہ حوالے سےاس کی تیاری کا واقعہ بھی سامنےآتاہے۔نیویارک کےعلاقے ساراگاگو سپرنگز کے ایک ریستوران میں ایک گاہک نے آلو کے قتلوں کا آرڈر دیا۔ جب آرڈر، گاہک کے سامنے رکھا گیا تو اس نے غصّے میں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ آلو کے قتلے بہت موٹے کٹے ہوئے ہیں۔ خفگی اور جھنجلاہٹ میں وہاں کے باورچی نے آلوؤں کو بہت باریک کاٹ کرتَل دیا اور تلَے قتلوں پر خُوب نمک چھڑکا۔ جب وہ خستہ اور کرارے قتلے گاہک کے سامنے رکھے گئے تو باورچی کی توقع کے برعکس گاہک کو خُوب پسند آئے۔ یوں چپس وجود میں آئے، جنھیں بعد ازاں مختلف مراحل سے گزارکراورپیکٹس میں پیک کرکے بھی تقسیم کیاجانےلگا۔ پیکٹ میں تو چیونگم بھی فروخت ہوتی ہے۔ چیونگم کی دریافت کا واقعہ ایک مُلک کےصدر سے مشروط ہے۔ انتونیو لوپیز میکسیکو کے صدر تھے، اُنھیں مُلک بدر کردیا گیا۔ اپنے مُلک سے بےدخلی نے اُنھیں بہت پریشان کیا اوروہ میکسیکو واپسی کے منصوبے بنانے لگے۔ 

واپس آنے کے لیے انھیں انتظامی اخراجات کی ضرورت تھی۔ چناں چہ انھوں نے چیکلے(Chicle) کی تجارت شروع کردی۔ چیکلے وسطی امریکا کے ایک درخت سے حاصل ہونے والا ربڑیلا رَس ہوتا ہے۔ اسے ربڑ کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹامس ایڈم اور اس کےبیٹے، ہوریشیو کو اس رَس سے چبانے والی ذائقہ دار شے بنانے کا خیال آیا۔ یوں چیونگم وجود میں آئی۔ یہ علیحدہ معاملہ ہے کہ بعد ازاں انتونیو لوپیز نہ صرف میکسیکو لوٹا بلکہ غیر مسلسل طور پر بارہ مرتبہ میکسیکو کا صدر رہا۔ میکسیکو میں ایک پورے دَور کو اُس کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ بیاسی برس کی عُمر میں 1876 میں فوت ہوا۔ اُدھر وہ میکسیکو میں فوت ہوا، اِدھر اگلے برس علامہ اقبال ہندوستان میں پیداہوئے اور ایک پورے دَور کو اپنے نام کرگئے۔

میکسیکو سے بات ایک اور مُلک کی جانب جا نکلتی ہے، وہ مُلک ہے شمالی کوریا۔ کم جونگ اَن کے دَور ہی میں بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں نے ایک چشم کُشا مشاہدہ کیا۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ گِدھ، جو روایتی طور پر شمالی کوریا میں خاص دورانیے کے لیے اُترتے تھے اور وہاں ذبح کیے گئے جان وَروں کی آلائشیں وغیرہ کھاتے تھے، گزشتہ چند برسوں میں وہاں کم تعداد میں اُتر رہےہیں۔ وہ شمالی کوریا سے پرواز کرتے ہوئے جنوبی کوریا کا رُخ کرجاتے۔ جب مزید تحقیق کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ شمالی کوریا غذائی قلّت کا شکار تھا اور وہ آلائشیں وغیرہ جو ماضی میں وہاں ضائع کردی جاتی تھیں اب انسانی استعمال میں آرہی تھیں۔ گِدھوں کو کھانے کے لیے بہت کم میسر رہتا، لہذا وہ وہاں ٹھہرنے کے بجائے آگے بڑھ جاتے۔ 

دنیا میں بھوکے لوگوں اور قحط زدگان کا تذکرہ اور ان سے اظہارِہم دردی عام ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت دنیا کی قریباً سات ارب آبادی میں خوراک کی زیادتی کے شکار موٹے افراد کی تعداد قلتِ خوراک کے شکار لوگوں سے زیادہ ہے۔ اصل مسئلہ غذا کی منصفانہ اور متناسب تقسیم کا ہے۔ ایک اور توجّہ طلب حقیقت یہ بھی ہے کہ ایک دُبلا شخص ایک وقت میں فربہ شخص سے زیادہ کھانا کھا سکتا ہے۔ بہ ظاہر یہ بات غلط نظر آتی ہے، جب کہ درست امر یہ ہے کہ موٹے لوگوں کے جسم میں معدے اور دیگر اعضا میں چربی زیادہ ہوتی ہےاور دبلے لوگوں میں کم۔ ان کے معدوں میں زیادہ غذا کھا کر پھیلنے کی زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً زیادہ کھانا کھانے کے مقابلے دبلے لوگ جیت لیتے ہیں۔

عموماًموٹے لوگ دبلا ہونے کے خواہش مند ہوتے ہیں، مگر طبّی تحقیق نے ایک ہوش رُبا انکشاف کیا ہے کہ زیادہ کھانا ایک نفسیاتی بیماری کی نشان دہی بھی کرتا ہے، وہ موٹے لوگ جو آپریشن کروا کر دُبلے ہو جاتے ہیں اور ان کے معدوں کے حصّے بند کرکے آنتوں کا بائی پاس کردیا جاتا ہے تاکہ ان میں کم خوراک جائے، دیگر نشوں اور نفسیاتی علّتوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ کثرتِ تمباکو نوشی اور شراب نوشی کے علاوہ دکانوں سے چوری اور مجنونانہ طور پر مصوّری کرنے کے بھی شکار پائے گئے ہیں۔ 

کھانے کے حوالے سے ایک اور پہلو پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ تقسیم سے پہلے پاک وہند میں ایک سے کھانے ملتے تھے، مگر آہستہ آہستہ پاکستان اور بھارت کے کھانوں میں خفیف فرق آگیا۔ پاکستان میں خالصتاً سبزی خوروں کی تعداد بہت کم ہے(سوائے یہاں آباد ہندوؤں کی چند شاخوں کے)۔ اس کے برعکس بھارت میں قریباً ایک تہائی سبزی خور ہیں۔ سو، وہاں کھانوں میں ذائقہ پیدا کرنے اور انھیں چٹ پٹا بنانے کے لیے ان میں مختلف قسم کےمسالےاستعمال کیےجاتے ہیں۔ یہ اثرات بعد ازاں گوشت کے مختلف پکوانوں میں بھی نظر آنے لگے۔ تو آج بھارت کے بیش تر کھانے پاکستانی کھانوں کی بہ نسبت زیادہ مسالے دار اور چٹ پٹے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کےپی کے، بلوچستان، کشمیر اورگلگت بلتستان میں کم مسالوں کا رجحان ہے۔ سندھ اور پنجاب میں نسبتاً زیادہ مسالے استعمال ہوتے ہیں۔ 

بلکہ کئی کشمیری کھانوں میں وسط ایشیائی اثرات اتنے نمایاں ہیں کہ ان کے لیے مسالوں کو تَلا نہیں جاتا، اُبالا جاتا ہے۔ اس سے ان میں خاص ذائقہ اور مہک آجاتے ہیں۔ بھارت کے جنوبی حصّے میں ناریل (کھوپرے) سے بہت سے پکوان تیار کیے جاتے ہیں، البتہ شمالی ہند کے کھانوں میں پیاز، دھنیا اور ثابت دھنیا وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے ایک سے پکوانوں میں ایک واضح فرق ہے، بھارت میں پکوان وہی ہوتا ہے مگر اس میں کڑی پتّا، زیرہ،رائی دانہ اور ہینگ اضافی ہوتے ہیں۔ وہاں کے گوشت خور متموّل گھرانوں میں بھی دال اورسبزی کو بنیادی ڈِش کے طور پر رکھا جاتا ہے، جب کہ پاکستان کی دعوتوں اور خوش حال گھرانوں میں انھیں ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان کے پہاڑی علاقوں اوربلوچستان وغیرہ میں گوشت زیادہ استعمال ہوتا ہے، جب کہ دیگر کم اجزا ڈالے جاتے ہیں مثلاً دُنبے کے گوشت کو اس کی چربی میں پکنے دیا جاتا ہے۔

اسی نوعیت کے بھارتی گوشت کےپکوانوں میں کئی طرح کی آمیزش کی جاتی ہے۔ جس طرح پاکستان کی بمبئی بریانی یا دلّی نہاری ممبئی اور دلّی کی بریانی اورممبئی کی نہاری سے مختلف ہوتی ہیں (کہ وقت کے ساتھ ان کے ذائقوں اور اجزائے ترکیبی میں فرق آگیا ہے) اسی طرح کولکتا میں مِلنے والی پشاوری کڑاہی کافقط نام ہی ’’پشاوری‘‘ ہے، ذائقہ اوراجزا مختلف ہوچُکے ہیں۔ غیر جانب دار تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ بھارت کے کھانوں میں زیادہ تنّوع ہے اور ان کی زیادہ اقسام میسّر ہیں۔ وہاں کی ہر ریاست/صوبے میں منفرد مقامی پکوان آج بھی مِل جاتے ہیں، جب کہ پاکستان کے ہر علاقے میں دوسرے علاقے کے پکوان ملتے ہیں، جو کہ کم ورائٹی میں دست ِ یاب ہیں۔ دلّی کے چاندنی چوک کے پاس ٹنڈے کے کباب مشہور ہیں تو لاہور چھاؤنی میں ہیجڑے کے کباب۔ پاک و ہند میں انسانی جسمانی کمی کی بنیاد پر کھانوں کے نام بھی عجب معاملہ رکھتے ہیں۔

جدید دَورمیں بریانی کی پاک و ہند میں مقبولیت کے دو واقعات ہیں۔2014 میں مہندرسنگھ دھونی بھارتی کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا۔ ایک کرکٹ میچ کے لیے اس کی ٹیم حیدرآباد کے پنج ستارہ گرینڈہوٹل میں قیام پذیر تھی۔ بھارتی ٹیم اور بی سی سی آئی کے حکّام کے لیے ہوٹل کے 180 کمرے بُک تھے۔ ایک دن ایک کھلاڑی پوری کرکٹ ٹیم کے لیے گھر کی بنی حیدرآبادی بریانی لے کر آیا۔ ہوٹل نے باہر سے کھانا لانے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ دھونی اور حکّام نے ہوٹل انتظامیہ کو آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر ہوٹل نے اپنی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے انکار کردیا۔ 

اس پر احتجاجاً ٹیم اور حکّام نے اپنی ساری بکنگ منسوخ کردی اور ہوٹل گرینڈ چھوڑ کر ہوٹل تاج کرشنا منتقل ہوگئے۔ یوں بریانی کی خاطر ٹھہرنے کا پروگرام بدلنا پڑگیا۔ بھارتی ریاست کرناٹک میں بریانی کے باعث ایک شادی ٹوٹ گئی۔ یہ 2014 ہی کا واقعہ ہے۔ ایک شادی کے کھانے میں چکن بریانی پیش کی گئی۔ اس بریانی کا ذائقہ اورمعیار دلہے والوں کو پسند نہ آیا۔ انھوں نے کم درجے کی بریانی پیش کرنے کو دلہن والوں کی جانب سے اپنی توہین جانا اور اس پر احتجاج کیا۔ معاملہ احتجاج سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک چلا گیا، نتیجتاً دلہن نے رخصتی سے انکار کرتے ہوئے شادی توڑنے کا اعلان کردیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین