’’پاکستان میں پولیو کے کیسوں کا دوبارہ ابھرنا، غیر فعال ٹیم ورک اور سیاسی عدم اتفاق کا نتیجہ ہے‘‘۔ پولیو کی روک تھام کے عالمی ادارے کے آزاد مانیٹرنگ بورڈ کے یہ الفاظ نہ صرف موجودہ دور میں وطن عزیز میں پولیو کے پھیلاؤ کو روکنے میں نمایاں ہونے والی ناکامی کی بنیادی وجوہات کو واضح کرتے ہیں بلکہ شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو کہ قومی زندگی کے ہر شعبے میں ہماری موجودہ صورتحال کے اصل اسباب کی بڑی حد تک درست عکاسی بھی کرتے ہیں۔ گلوبل پولیو ایریڈیکیشن اینی شیٹیو (جی پی ای آئی) کے آزاد مانیٹرنگ بورڈ (آئی ایم بی) کی اس مفصل اور مبسوط رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’خوفزدہ ماحول، ناکافی مشاورت، عدم تعاون، اندرونی رسہ کشی، تعلقات میں بگاڑ، ناکافی اقدامات اور ایک ٹیم بن کر کام نہ کرنا، پولیو پروگرام کی ناکامی کی وجہ ہے جبکہ ویکسین کی فراہمی بھی سیاسی مسئلہ بن چکی ہے‘‘۔ ریکارڈ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق 2017میں چار سال کی کامیاب کوششوں کے باعث ملک بھر سے پولیو تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ 2014سے 2016تک پورے ملک میں بالترتیب پولیو کے 306، 54اور 20کیس سامنے آئے جبکہ 2017میں ان کی تعداد صرف 8رہ گئی تھی۔ عالمی ادارے کے آزاد مانیٹرنگ بورڈ کے مطابق پاکستان میں اس خوفناک مرض کے ازسرنو پھیلاؤ کا آغاز 2018کی تیسری سہ ماہی سے ہوا اور 2019ء کی دوسری اور تیسری سہ ماہی میں پولیو کا شکار ہونے والوں کی مجموعی تعداد 68تک جا پہنچی۔ اسی سال اکتوبر میں منظر عام پر آنے والے اعداد و شمار کی رو سے صرف خیبر پختونخوا میں پولیو کے 57بڑے کیس سامنے آئے۔ یہ صورتحال وفاق اور صوبوں سب کے کار پردازوں کے لیے سنجیدہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر ہمارے لیے پولیو کی روک تھام جیسے قومی مسئلے میں بھی سب کو ساتھ لے کر چلنا اور اتفاقِ رائے سے کام کرنا ممکن نہیں تو ملک کے روشن مستقبل کا خواب بھلا کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔