• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
18فروری 1946ء کو رائل انڈین نیوی کے جہازیوں نے بغاوت کی تھی!
پاکستان کی نئی نسل، دائیں بازو کے عظیم نظریہ سازوں کے پھیلائے پروپیگنڈے کے مطابق یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کا قیام صرف ان عظیم مسلم لیگی رہنماؤں کی کوششوں سے عمل میں آیا تھا، جن کی اولاد آج پاکستان کی ہر سیاسی جماعت میں پھیلی ہوئی ہے اور ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں برصغیر میں بسنے والی ہر قوم کے محنت کشوں نے حصہ لیا تھا۔ مسلمان ہوں یا ہندو، سکھ ہوں یا عیسائی، اس جدوجہد میں سب شریک تھے۔ ہاں لیڈر سب قوموں کے اس وقت بھی محلوں میں رہتے تھے! خیر یہ ایک علیحدہ اور لمبی بحث ہے۔ لوگوں کے خواب ٹوٹیں گے، اس بات کو یہیں چھوڑ کر جہازیوں کی بغاوت کا ذکر کرتے ہیں!
جہازیوں کی یہ بغاوت بمبئی سے شروع ہوئی۔ رائل انڈین نیوی کے جہازیوں نے ہڑتال نما بغاوت کرتے ہوئے ایک جہاز ”ایچ ایم آئی ایس تلوار“ پر قبضہ کر لیا۔ بمبئی سے یہ بغاوت کراچی اور کلکتہ تک پھیل گئی۔ باغیوں کا 78جہازوں، 20 بحری اڈوں پر قبضہ ہو گیا ۔ اس بغاوت میں 20ہزار جہازیوں نے حصہ لیا۔ ہڑتالی کمیٹی کے سربراہ ایک مسلمان ایم ایس خان اور وائس پریزیڈنٹ ایک سکھ پیٹی افسر مدن سنگھ تھا ہڑتالی کمیٹی کا تیسرا رکن ہندو تھا۔ یہ بغاوت اور ہڑتال پھر کپڑا بننے والی ملوں اور عام زندگی میں بھی پھیل گئی۔ برطانوی راج لرز اٹھا اور پھر انگریز بہادر نے اس بغاوت کو بزور طاقت کچل دیا۔ بے شمار لوگ مارے گئی اور صرف ایک سال بعد انگریزوں نے برصغیر کا بٹوارہ کر دیا!
جہازیوں کی اس بغاوت میں مارے جانے والے وطن کے سپوتوں کے نام ساحر لدھیانوی مرحوم نے ایک نظم لکھی تھی، جس کے دو شعروں کو پاکستان بننے کے بعد ہر سیاسی جماعت نے اپنے جلسوں میں بہت رگیدا۔ یہ شعر کچھ یوں تھے #
اے رہبر ملک و قوم ذرا
آنکھیں تو اٹھا، نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے، کون مرا
مجھے جہازیوں کی یہ بغاوت اور اس پر ساحر لدھیانوی کے یہ شعر لال مست کی موت پر یاد آئے!
یہ لال مست کون تھا؟
لال مست پشاور پولیس کے بم ڈسپوزل یونٹ کا ایک سپاہی تھا، جو پہلے دیہاڑی پر ملازم تھا، بعد میں اچھی کارکردگی دکھانے پر پولیس کے اعلیٰ افسروں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے اسے مستقل کر دیا۔ لال مست چند روز قبل ایک بم کو ناکارہ بنا رہا تھا کہ بم پھٹ گیا اور ساتھ ہی مست لال بھی!
شاید مست لال نہ مرتا اگر پشاور پولیس کے پاس پٹرول ہوتا؟
برطانوی حکومت نے خیبرپختونخواہ کی حکومت کو کچھ عرصہ پہلے بم ناکارہ بنانے کے لئے جدید ترین سامان سے لیس ایک گاڑی دی تھی جس میں ایک خودکار روبوٹ بھی موجود ہے۔ یہ روبوٹ انسانوں کے بجائے بم کو ناکارہ بنانے کا کام کرتا ہے۔ اگر بم ناکارہ بنانے کے عمل میں پھٹ جائے تو مشینی روبوٹ تو شاید تباہ ہو جائے مگر انسان کی جان تو بچ جاتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پٹرول کے لئے پیسے دستیاب نہ ہونے کے باعث، یہ جدید ترین گاڑی روبوٹ سمیت کئی ماہ سے ایک تھانے میں کھڑی ہے اور بموں کو ناکارہ بنانے کا کام مست لال جیسے دیہاڑی دار کر رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔
یہ وہ ملک ہے جس میں کرپشن کا کوئی سکینڈل بھی کروڑوں، اربوں سے کم کا نہیں ہوتا۔ سکوٹر سوار رہنما پانچ سال حکومت کے بعد ارب پتی بن چکے ہیں مگر بم ڈسپوزل سکواڈ کی گاڑی کے لئے پٹرول دستیاب نہیں۔ ”’شرم تم کو مگر نہیں آتی!!“
پھر ایک اور سوال!!
ان دہشت گردوں کے ہاتھوں صرف سپاہی اور چھوٹے افسر ہی کیوں مارے جاتے ہیں؟
گزشتہ اڑھائی ماہ کے دوران صرف کراچی میں 34 پولیس کے سپاہی اور 4رینجرز اہلکار مارے گئے۔ آخر دفتر میں بیٹھے اعلیٰ افسران کیوں گولی کے سامنے نہیں آتے؟
باتیں بہت سی ہیں مگر میں آپ کو صرف ایک مثال یاد کراؤں گا؟
3مارچ 2009 کی صبح آٹھ بج کر 40منٹ پر لاہور کے لبرٹی چوک میں سری لنکا کی ٹیم پر د ہشت گردوں نے حملہ کیا جس میں ایک ٹریفک وارڈن سمیت پولیس کے 5اہلکار مارے گئے۔ اس واقعے نے پاکستان پر کرکٹ کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیئے! اس واقعے کی عدالتی تحقیقات ہائی کورٹ کے جسٹس شبررضوی پر مشتمل ٹربیونل نے کی۔ اس واقعے میں انہوں نے ایک درجن سے زائد پولیس افسروں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ بظاہر یہ حملہ
سکیورٹی انتظامات میں کمزوریوں کی وجہ سے ہوا جس کے ذمہ دار کانسٹیبل نہیں پولیس افسر تھے! پنجاب حکومت نے کسی ایک شخص کے خلاف بھی کارروائی نہیں کی!!اس وقت کا آئی جی، بہترین عہدے بھگتانے کے بعد ریٹائر ہو گیا۔اس وقت کا CCPO بعد میں آئی جی بن کر ریٹائر ہوا۔اس کا نائب DIG آج CCPO لاہورہے!واقعے کے ذمہ دارباقی SPاور ASP بھی ترقیاں پا کر ضلعے بھگتا رہے ہیں اور کانسٹیبل آج بھی مر رہے ہیں۔آخر کیوں؟کیاسزا اور جزا صرف ماتحتوں اور ادنیٰ عہدوں پر کام کرنے والوں کے لئے ہے؟کیا اربوں کروڑوں کے بجٹ، عیاشیاں، مراعات، گاڑیاں اور کروڑوں روپے کا پٹرول ان افسروں کا ہی حق ہے!کیا ایک دفعہ جو پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے بیوروکریسی یا پولیس میں افسر بن جائے وہ غلطیوں اور خطاؤں سے مبرا ہوجاتا ہے؟ کیا انہیں ان کے حصے کی سزائیں نہیں ملنی چاہئیں!سچ یہ ہے کہ بیوروکریسی اورپولیس کے یہ اعلیٰ افسر ملک میں کرپشن کے تالے کی کنجی ہیں۔ یہ اگر سیاسی رہنماؤں کا ساتھ نہ دیں توایک پیسہ بھی نہیں لوٹا جاسکتا۔ مگر سیاسی رہنما ان افسروں کاعہدہ اوراختیار استعمال کرکے لوٹ مار اور مار دھاڑ کرتے ہیں۔ طوائفوں کے مجرے کے بعد جو کمائی ہوتی ہے اس کے حصے کرنے کو ”بخرہ“ کرناکہتے ہیں۔ اس سیاسی طوائف الملوکی میں سب کو ان کا حصہ بخرہ ملتا ہے… رہنماؤں کو بھی اور افسروں کو بھی !! لال مست مرتے رہتے ہیں اور کوئی نہیں پوچھتاکہ،یہ کس کا لہو ہے، کون مراخیبرپختونخوا میں صفوت غیور سمیت کچھ افسر بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ ان کی قربانیاں عظیم ہیں،مگر بات اس معاشرے میں پائے جانے والے عمومی رویئے اور بے حسی کی ہے جہاں افسرآج تک خو د کو نوآبادیاتی نظام کاحصہ سمجھتا ہے اور ماتحت کو جان دینے والاایک حقیرشخص! ایئرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھ کر فورس کمانڈ کرنے والے میدان میں اگر گولی کھائیں تو جانیں!!
تازہ ترین