جس تنگ نظری کے خلاف ہم مسلسل لکھتے اور شور مچاتے رہے ہیں اُس میں اضافہ ہوتے دیکھ کر لگتا ہے ہم بھینس کے آگے بین بجا رہے ہیں۔ بادامی باغ لاہور میں مسیحی آبادی کو آگ لگانے کے بعد جلانے اور لوٹنے والوں نے اپنے رسول کے ساتھ محبت کا تو اظہار کردیا ۔ لیکن غصے میں انسانوں سے نفرت کا جو مظاہرہ کیا ہے اُس سے اِس بات میں اب کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ ہمیں واقعی زندہ انسانوں سے کتنی نفرت ہے۔ جانوروں میں ہمیں کتا، سور، بلی وغیرہ برے لگتے ہیں اور ہم میں سے بہت سے ان جانوروں کو پالنا اور گھر میں رکھنا منحوس قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ جانور کھانا حرام ہیں۔ جبکہ مرغی، بکری گائے کو پیار سے رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے انڈے گوشت وغیرہ حلال ہیں۔ اب میں اِس نقطے پر پہنچا ہوں کہ اگر انسانوں کو انسان کے لئے حلال کردیا جائے۔ جیسے مچھلی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ انسان بھی انسان کو کھا سکتا ہو تو پھر شاید وہ دوسرے انسانوں کے گھر نہ جلائے۔ ہمیں مفتیان دین کو درخواست کرنی چاہئے کہ وہ انسانوں کو انسانوں کے لئے حلال قرار دینے کا فتویٰ دیں تاکہ انسان انسان کے ہاتھوں حرام موت تو نہ مرے۔ یا مارنے والا یہ تو نہیں کہے گا کہ اُس نے حرام چیز کو مارا ہے۔ بلکہ وہ خوشی سے بتا سکے گا کہ اُس کے مارے ہوئے انسان میں سے کتنا گوشت نکلا ہے۔ اور اس میں سے کون کون سے حصے اس نے اپنے بچوں کو کھلائے ہیں اور کتنا حصہ اُس نے اُن یتیموں اور مسکینوں کے لئے رکھا ہے جن کے گوشت پر بھی اُس کی نگاہیں ہیں۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے سب دیکھتے ہوئے بھی اور سوچتے ہوئے بھی۔ لیکن اِس بار بادامی باغ کے سانحے کے بعد عجیب تبدیلی جو سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملی ہے کہ درجنوں لوگوں کے تبصرے اِس گھناؤنے فعل کے حق میں بھی ہیں۔ کئی لوگوں نے انٹرنیٹ پر اپنی رائے زنی کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اچھا ہوا۔ اب مغرب والوں کو بھی معلوم ہوجائے گا کہ توہین رسالت کے مرتکب کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہم واقعی مہذب دور سے نکل چکے ہیں اور پیچھے بربریت کے دور کی طرف تیزی سے بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ ساون مسیح نے تو پتہ نہیں کیا کیا ہے۔ زیادہ تر آگ لگانے والوں کو یقیناً اِس کا علم بھی نہیں ہوگا۔ پولیس کو بیان دیتے ہوئے اُس نے کہا ہے کہ اُسے کچھ علم نہیں کہ اُس نے کیا کیا ہے۔ کیونکہ جس وقت کا بیان برائے توہین رسالت اُس سے منسوب کیا گیا ہے اُس وقت وہ انتہائی نشے کی حالت میں تھا۔ لیکن جذبہ ایمان اور جوش عشق رسول ﷺ میں صبر کا دامن تھامنا مشکل کام ہے۔ مسیحی آبادی کو مسمار کرنے کے عمل میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔ اگر کوئی پندرہ بیس لوگوں کا گینگ ہوتا تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ کوئی مٹھی بھر شرپسند تھے لیکن اتنی بڑی تعداد میں بلوہ کرنا تو ذہنی کیفیت کا اظہار ہے اور اُس نفرت کا اظہار ہے جو ہم دوسرے مذاہب اور فرقوں کے لئے اپنے اندر رکھتے ہیں۔ پھر میڈیا پر کئی طرح کے علمائے دین اِس حرکت کی مذمت کے لئے آئے ہیں اور اس سارے فعل کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں یقیناً سارا فعل غیر اسلامی ہوگا کا اکٹھے ہو کر ایک غیر مسلم آبادی کو نیست و نابود کرنا اس مذہبی تنگ نظری کا اظہار ہے جو اس مذہبی تعلیم نے ان ماننے والوں کے دلوں میں پال پوس کر برسوں کی محنت کے بعد بٹھائی ہے۔ یہ اسلام کا بول بالا کرنے کا فنکارانہ ڈھنگ ہے۔ اگر ہم اِس نفرت کے اسباب غیر ہموار معیشت میں تلاش کریں گے تو معاشی محرومی کے شکار لوگوں کا اظہار نفرت تو امراء کے گھروں کو آگ لگانے کی صورت میں ہونا چاہئے۔ اس لئے یقیناً یہ مذہبی منافرت ہے۔ یہ اُسی دہشت گردی کا شاخسانہ ہے جو ملک کے دیگر علاقوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے یہی جو آگ لگانے اور مال غنیمت لوٹنے نکلے تھے۔ انہی میں خود کش بھی ہیں اور انسانیت کش بھی۔ خودکش حملے ہوتے ہیں۔ کوئٹہ اور کراچی میں شیعہ آبادی پر بم مارے جاتے ہیں۔ احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے کئے جاتے ہیں۔ مسیحیوں کی آبادیاں اور عبادت گاہیں تباہ کی جاتی ہیں۔ ہندوؤں کی زندگی تنگ کی جا رہی ہے۔ کسی کو بھی توہین رسالت کے جرم میں چارج کر لیا جاتا ہے ۔ اور ذمہ داری اسلام دشمن عناصر پر ڈال دیتے ہیں۔ خود یعنی ریاست کے ٹھیکیدار ہر ذمہ داری سے مبرا ہی رہتے ہیں۔ اسی لئے ایسے واقعات کے ختم نہ ہونے کے امکانات موجود رہتے ہیں۔ قانون اور اس کا سختی سے نفاذ اور عملدرآمد مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کیونکہ اقلیتوں کے خلاف ابھی تک اس قسم کے جتنے واقعات ہوتے ہیں ان میں بالآخر کسی گروہ کی کوئی سازش منظر عام پرآئی ہے۔ ساون مسیح کو گرفتار کیاگیا اور بلوائیوں کے ڈر سے فوراً اس پر توہین رسالت کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ پھر ریاست تو اپنے طریقہ کار کے ساتھ کہیں موجود نہیں ہے۔ اگر ریاست اپنے وجود کی دعویدار ہے تو پھر وہ بھی اُسی ذہنیت کی ہوگی جس کے یہ حملہ آور اور بلوائی ہیں۔ وگرنہ کسی کو چارج کرنے سے پیشتر تحقیق و تفتیش ضروری ہے۔ کل مسیحی برادری کا پریشر آئے گا تو مقدمے کی پیش رفت روک دی جائے گی۔ اگر اِس واقعہ پر غور کریں کہ جس طرح سے لوگوں کو پہلے گھروں میں سے نکالا گیا اور گھروں کو خالی کرانے کا کام چند گھنٹے جاری بھی رہا۔ پھر آگ لگائی گئی۔ اتنی دیر تک کوئی انتظامیہ حرکت میں نہیں آئی۔ یہ بات کھلم کھلا ظاہر کرتی ہے کہ اِس پورے شو کے پیچھے شہر کے چوٹی کے منتظمین ملوث ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کیونکہ پنجاب حکومت پر یہ الزام ہے کہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب حکومت نے اس تاثر کو مٹانے کے لئے اِس خوفناک ڈرامے کو ہونے دیا۔ اور مسیحی برادری کو اس کا سارا عتاب جھیلنا پڑا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ خود کش حملے سے زیادہ گھناؤنا جرم ہے کیونکہ ایسا کرنے سے سوسائٹی میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے پاگل پن کو تقویت مل رہی ہے۔ اُس سوچ کو ایسے ہمدرد ملتے ہیں جس میں خودکش تیار ہوتے ہیں۔ بعض کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ انتخابات ملتوی کرانے کی سازش کا حصہ ہے لیکن یہ سب کچھ گزشتہ دس بارہ برسوں سے مسلسل ہورہا ہے۔ اس لئے اِسے Mindset کا اظہار سمجھ کر ڈیل کرنا پڑے گا۔ ملک سے باہر بیٹھ کر یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ملک میں ایک بڑے اور پاپولر آپریشن کی ضرورت ہے۔ یہ ذہنوں کو تبدیل کرنے کا آپریشن ہونا چاہئے۔ وگرنہ گزشتہ دو دیہائیوں سے خصوصی طور پر جس طرح ذہنی پسماندگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم خود ہی اپنی آگ میں جل کر راکھ ہوجائیں گے۔ میڈیا کو سیکولر کرنا ضروری ہے۔ میڈیا پر ہر قسم کے مذہبی عناصر کی پروموشن اور اہمیت کو فی الفور بند کرنا پڑے گا کیونکہ یہ سارے کے سارے علماء براہ راست یا بالواسطہ اِس تنگ نظر مائنڈ سیٹ (Mindset) کی پرورش کا سبب ہیں۔ ہم نے مذہب کو جو کچھ سمجھ لیا ہے اِس Concept کو درست کرنے کیلئے پہلے تو اِس یلغار کو ایک دم فل سٹاپ لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں جس انداز سے مذہب کو سمجھا گیا ہے وہ دنیا کے دیگر تمام اسلامی ممالک سے مختلف اور انوکھا ہے۔ اِس میں تنگ نظری بھی ہے اور استعماریت بھی۔ اسی لئے پاکستان کا مسلمان زیادہ قدامت پسند Militant بھی ہے۔ اس لئے مذہبی جذبے کو جذباتیت سے نکال کر Tonedown کرنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ جو سلسلہ چل نکلا ہے اس میں ہم خود ہی ایک دوسرے کو فتح کرنے نکل پڑے ہیں اور جذبہ یہ ہے کہ ختم کرکے ہی دم لیں گے۔ اِس تنگ نظری کے جن کو کون بوتل میں ڈالے گا۔ ذہنوں کی جراحی کون کرے گا۔ مجھے نہیں پتہ۔ آپ کو سمجھ آجائے تو مجھے ضرور بتائیے۔