• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صاحبو … ملک کے اندر غدر برپا ہے۔ لیڈر گلے پھاڑ پھاڑ کر بیان دے رہے ہیں ۔ اخبار والے لکھ لکھ کر ہلکان ہو رہے ہیں اور عوام حیران و پریشان ہورہے دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف منظر سے مکمل غائب ہیں!
سنا ہے پہلے وہ سعودی عرب تھے ان دنوں لندن میں ہیں؟
سوال یہ ہے کہ اس ”نازک“ موقع پر میاں نواز شریف وہاں کیا کر رہے ہیں؟
O…کیا ”شریفین“ کے ذریعے کوئی سودا طے پا رہا ہے؟
O…کیا امریکہ سے بھی بڑے پاکستانی آقا برطانیہ کو نیک چلنی کی ضمانتیں فراہم کی جارہی ہیں؟
O… یا پھر وہ پاکستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر لندن کی سردی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؟
اندر کی بات ، اب اللہ ہی جانے!
جو کچھ ملک کے اندر ہو رہاہے اسے دیکھ کر انہی کالموں میں لکھا گیا ایک شعر بعد از تحریف یاد آرہا ہے۔
ہشیار جانی، یہ ”دور“ ہے ٹھگوں کا
ذرا نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا
حکمران جاتے جاتے سرکاری فنڈ، عہدے، ترقیاں، مراعات… ہر چیزبانٹ رہے ہیں اورسمیٹ بھی رہے ہیں، اس کام میں اسمبلیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ سپیکر فہمیدہ مرزا جیسی ”نیک نام“ خاتون (جس نے اپنے خاوند کی شوگر ملز کے صرف 50کروڑ کے قرضے معاف کرائے تھے) بھی اپنی ”خدمات“ کے عوض تاحیات مراعات لے اُڑیں۔ جن میں ایک پرائیوٹ سیکرٹری، ٹیلیفون آپریٹر، ویٹر، ڈرائیور، نائب قاصد، 1600 سی سی کار، اس کا ڈرائیور، کار کا پٹرول اور ایک لاکھ روپے اخراجات کی مد میں ساری زندگی ملتے رہیں گے۔ علاوہ ازیں انہیں تاحیات مفت طبی علاج کی سہولت بھی حاصل ہوگی!
ایک بڑے باپ کی بیٹی اور ایک کروڑ پتی خاوند کی بیوی اگر یہ سب کچھ نہ لیتی تو کیاغریب ہوجاتی! مگر کسی نے درست ہی کہاہے کہ پیٹ توبھرجاتا ہے نیت نہیں بھرتی!
تاحیات مراعات، کبھی صرف گورنرجنرل اوربعد میں صدر پاکستان کے لئے مخصوص ہوا کرتی تھیں کہ اس آئینی عہدے کیساتھ ایک تقدس اوروقار وابستہ تھا! بعد میں ہمارے کروڑ پتی ”غریب“ وزیراعظموں نے خود کو ان تاحیات مراعات کا حق دارقرار دے دیا۔ اب فہمیدہ مرزا نے سابق سپیکروں کوبھی اسی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔
اگر سپیکر ایسا کرسکتی ہیں تو سندھ اسمبلی کے ارکان نے بھی جاتے جاتے خود کو بھی تاحیات مراعات کا حق دار قرار دے دیا ۔ ان میں سرکاری عمارات میں رعایتی نرخوں پر قیام، وی آئی پی لاؤنجز کا استعمال اور پاسپورٹ و اسلحہ
لائسنس کی کم تر فیس شامل ہیں۔ پھر ارکان پارلیمینٹ اور ارکان سندھ اسمبلی نے ازخود اپنی تنخواہوں میں گراں قدر اضافہ کردیاکہ آنے والو ں کا کیااعتبار؟ اپنا معاملہ خود ہی نبیڑو!
جس بدقسمت ملک میں سترستر اسی اسی سالہ بوڑھے چند سوٹکے پنشن لینے کے لئے بنکوں کے سامنے قطاریں بنا کر گھنٹوں ذلیل ہوتے ہیں، اسی ملک میں اگر تحقیق کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ درجنوں نہیں سینکڑوں نہیں، ہزاروں سابق صدر اور سابق وزیراعظم، سابق گورنر، سابق وزرائے اعلیٰ، سابق سپیکر، سابق بیوروکریٹ ، سابق جج اور سابق جرنیل… ہزاروں نہیں لاکھوں روپے ماہانہ کی تاحیات مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ اپنے اپنے کاموں کو یاد کرکے رو رہے ہیں اور موت سے ڈررہے ہیں!!
یہ وہ سماج ہے جس کے بارے میں فیض احمدفیض# نے اپنی شہرہ آفاق نظم ”کتے“ لکھی تھی۔ مخاطب ان کا کتے تھے مگر خطاب وہ غریبوں سے کر رہے تھے کہ شرم کرو، اٹھو اور لڑو!
رکئے … ذرا نظم سن لیجئے!
یہ گلیوں کے آوارہ کتے!
کہ بخشا گیا جن کو ذوق گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو ایک دوسرے سے لڑا دو
ذرا اک روٹی کا ٹکڑا دکھادو
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تودنیا کو اپنا بنالیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبالیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم کو ہلا دے!
یارو… کیسا معاشرہ، کہاں کا سماج، کہاں کی تبدیلی، کہاں کا انقلاب … اک ذلت ہے کہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی۔ ایک جبر ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور دم ہے کہ گھٹتا چلا جاتا ہے!
یارو … جس ملک میں ایک پارٹی کم ازکم تنخواہ 15ہزار (بتدریج) اوردوسری اٹھارہ ہزار کرنے کا وعدہ کر رہی ہے وہاں گزشتہ پانچ سال کے دوران پٹرول 58روپے لٹر سے 103 روپے ہوچکاہے۔آٹا 23 روپے کلو سے 40روپے کلو تک پہنچ جائے، چینی 25روپے سے 52روپے ہو جائے اور دال چنا 48روپے سے بڑھ کر 110روپے ہوجائے اور محنت کش کی کم ازکم تنخواہ وہی ہے جو پانچ سال قبل تھی تو یہ کیسا سماج ہے؟ کیساملک ہے؟ کیسا معاشرہ…؟
کیا یہ ملک اور معاشرہ صرف تاحیات مراعات پانے والوں کاہے؟
ذرا رکیئے! پنجاب کی سیاست کے ”ڈبل شاہ“ زرداری اینڈ کمپنی کو گالی دینے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے! پانچ سال انہوں نے گالیاں دینے اور اپنے لئے نئے ٹھکانے بنانے میں گزار دیئے! اوپروالوں کو گالیاں اپنے کرتوتوں کی بنا پر پڑتی ہیں مگر ”پتھر تو وہ مارے جو خود بیگناہ ہو“ کیا قیمتوں کو کنٹرول کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری نہیں؟
پھرانہیں غریب یاد کیوں نہیں رہتے … اپنے ٹھکانوں کی ہی فکر کیوں ہوتی ہے؟؟
آپ پوچھیں گے ٹھکانوں کا ذکرکیا؟ آیئے آپ کو بتاتے ہیں!!
امریکہ سا طاقتور ملک تو کوئی نہیں… اس کے صدر کا گھر اور دفترایک ایسی عمارت ”وائٹ ہاؤس“ میں ہے جو 1800 میں بنائی گئی تھی۔ برطانوی وزیراعظم کا گھر اور دفتر ”10ڈاؤننگ سٹریٹ“ 1732 میں بنایا گیا۔ لاہورمیں بھی انگریز وزیراعلیٰ کے لئے ایک دفتر سول سیکرٹریٹ میں موجود تھا! سب سے پہلے ”بڑے بھائی“ نے اسے 90۔مال روڈ پرمنتقل کیا۔ گجرات کا چودھری آیا تو اسے جی او آر میں 7کلب روڈ پر اٹھا لے گیا… میاں شہباز شریف اسے پہلے ماڈل ٹاؤن پھر ڈیفنس اور پھررائے ونڈ لے گئے۔ سنا ہے… آج کل ان کا ٹھکانہ لاہور کے ظفر علی روڈ کے آس پاس ہے!!
اتنے سارے دفتروں میں پنجاب حکومت اور اس کا وزیراعلیٰ کہیں گم ہوگیا …عوام غربت کے باعث چلاتے رہ گئے اور وہ زرداری کو گالیاں دیتے رہے۔ لوگ مہنگائی کو روتے رہے اوروہ زرداری کو… لوگ روٹی مانگتے رہے ، خودکشیاں کرتے رہے وہ میگاپراجیکٹ بناتے رہے …صورتحال کچھ اپنے ہرنام سنگھ جیسی ہوگئی۔
ہرنام سنگھ آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس گیا اور کہنے لگا،
”ڈاکٹرصاحب… میری نظر کمزور ہو گئی ہے مجھے عینک لگا دیں!“
ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور کہا
”سردارجی! آپ کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہیں!“
ہرنام سنگھ نے اصرار کیا کہ نہیں میری نظر کمزور ہے! اس پرڈاکٹر نے ہرنام سنگھ کا بازو پکڑا اور اپنے کلینک سے باہر لے گیا۔ رات کا وقت تھا۔ چاند نکلا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے چاند کی طرف انگلی اٹھائی اور ہرنام سنگھ سے پوچھا!
”وہ کیاہے؟“
ہرنام سنگھ نے کہا ”چاند“
ڈاکٹر نے جواب دیا ”اتنی دور تک تو تجھے صاف نظرآ رہاہے… اب کیا ا ٓسمان پر فرشتوں کو دیکھنا چاہتا ہے!!“
تازہ ترین