• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
برطانوی وزیرداخلہ پریتی پٹیل ایم پی چند دنوں سے بری طرح برطانوی میڈیا بالخصوص اخبارات میں جگہ بنائے ہوئے ہیں۔ بات The Timesاور Daily Telegraphکی ملتی جلتی رپورٹس سے شروع ہوئی جن میں ان پر الزام لگے کہ وہ اپنے ماتحت ہوم آفس سول سرونٹس سے اچھا برتائو نہیں کرتیں اور ان کے ایسے ہی سلوک کی وجہ ایک نہایت سینئر سول سرونٹ کام کے دبائو کی وجہ سے بیہوش ہوکر گر پڑا اور ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری نے انکے ناروا سلوک کی بنا پر استعفیٰ دے دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کردیا کہ وہ Constructive Dismissalکی بنیاد پر ہوم آفس کے خلاف مقدمہ بھی کررہے ہیں۔ وزیرداخلہ ٹوری پارٹی کے اندر دائیں بازو کی ایک اہم قائد کی حیثیت میں تسلیم کی جاتی ہیں۔ وہ 70ء کی دھائی کے آغاز میں یوگنڈا سے اپنے خاندان کے ہمراہ برطانیہ آئیں۔ جہاں انکے آبائواجداد بہت عرصہ قبل بھارت سے نقل مکانی کرکے جا آباد ہوئے تھے۔ برطانیہ میں انکی تربیت ایک معمولی ہندوستانی گجراتی گھرانہ میں ہوئی۔ مگر عام ایشیائی گھرانوں کی طرح برطانوی سیاست کے حوالہ سے یہ گھرانہ مختلف سوچ کا مرکز بن گیا جہاں والدین لیبر سپورٹر دکھائی دیئے اور نوجوان پریتی پٹیل نے ٹوری پارٹی سے اپنا تعلق قائم کرلیا۔ اس سنجیدہ معاملہ پر والدین اور بیٹی کے درمیان اختلاف رائے کی خبریں کئی برس پہلے کے The Timesمیں شائع ہوئیں۔ وہ اقتداری سیاست کے پہلے مرحلہ پر چند سال قبل سائوتھ ایسٹ کے ایک مشہور قصبہ سے کونسلر منتخب ہوئیں۔ پارٹی کے اندر وہ اپنے آپ کو مستقبل کی مارگریٹ تھیچر ثابت کرنیکی کوشش کررہی ہیں۔ اہم قومی ایشوز وہ اکثر Uncompromisingنقطہ نظر رکھنے والی خاتون ممبر پارلیمنٹ اور منسٹر تسلیم کی جانے کی وجہ سے وہ اس موقع کی تلاش میں رہتی ہیں کہ وہ ہر مشکل صورت میں اپنے لئے بہتر نتائج حاصل کرلیں۔ وہ موجودہ پورٹفولیو پر پہنچنے سے قبل کئی جونیئر وزارتوں میں بھی کام کرچکی ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ ’’بیک ڈور ڈپلومیسی‘‘ کے شبہ میں سابقہ حکومت میں ان سے استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔ ای یو سے باہر آجانے کے معاملہ پر انکے دلیرانہ موقف کی بنا پر انہیں ایک بار پھر ایک نہایت اہم وزارت مل چکی ہے۔ گزشتہ دو ہفتہ کے دوران ابھرتی کئی تفصیلی سٹوریز میں جہاں انکی کام کرنے کی ڈائرکٹ اپروچ کا انکے ساتھیوں نے ذکر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ اپنے محکمہ سے اس طرح زیادہ اچھے نتائج حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ وہاں وزارت داخلہ اور اوورسیز ایڈ کی منسٹری سے منسلک کئی موجودہ اور سابقہ افسران نے انکے جارحانہ طرز خطابت پر سوالات اٹھائے ہیں۔ یقیناً یہ غیرواضع صورتحال وزیرداخلہ کیلئے اچھی نہیں ہے۔ وزیرداخلہ کے خلاف کیبنٹ آفس یہ انکوائری بھی کررہاہے کہ انہوں نے ہوم آفس آفیشلز کے متعلق اخبارات کو بریف کیا ہے۔ میڈیا اور وزارت داخلہ میں اخباری بیانات کے حوالہ سے جنگ بندی کا عالم ہے۔ وزیراعظم بورس جانسن وزیرداخلہ کی مکمل حمایت میں انکے ساتھ کھڑے ہیں۔ 8مارچ کے The Sunday Timesنے بھی پریتی پٹیل کو کابینہ کا Dennis Wise(جو چھوٹے قد کے جارح اور ناراض فٹبالر تھے) قرار دیا ہے۔ اور ایک کارٹون میں انہیں سینئر ترین جانسن ایڈوائزرر اور ماحولیات منسٹر مائیکل گوو انہیں اوپر اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ آرٹیکل بھی مس پٹیل کے بارے میں ایک درمیانی سی لائن لئے ہوئے ہے۔ یقیناً جب بھی اس طرح کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑجائے تو طاقتور وزراء کیلئے بھی زندگی آسان نہیں رہتی۔ حال ہی میں مس پٹیل کے 150حامیوں نے بھی The Telegraphکو ایک خط لکھا جس میں ہائوس لارڈز کے چند ارکان، کئی ممبران پارلیمنٹ اور دیگر اہم لوگ شامل تھے۔ ڈینس وائز کوئی نامی گرامی فٹبالر نہ تھا مگر اہم موقعوں پر وہ گول سکور بھی کرتا، گول بچاتا بھی تھا اور فائول کرکے اپنے مخالفین کو گرا دیتا تاکہ وہ گول نہ کرسکیں۔ اس آرٹیکل میں ٹم شپمین جہاں مس پٹیل کی مشکلات کا ذکر کرتا ہے وہاں بورس ٹیم میں ا ن کی موجودگی کو کنزرویٹو پراجیکٹ کیلئے ضروری بھی سمجھتا ہے۔ برٹش سول سروس، برٹش میڈیا اور ایک طاقتور وزیرداخلہ کے درمیان جنگ کیلئے مزید پہلا وار کون کرتا ہے؟ ہمیں شاید زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑیگا۔ کیونکہ کوئی ایک فریق بھی نہیں چاہتا کہ اسے اپنی اختیار کردہ پوزیشن سے پیچھے ہٹنا پڑجائے۔ سول سروس کوڈ کی خلاف ورزی ثابت ہونا یا نہ ہونا اپنی جگہ، کیبنٹ انکوائری کا کچھ بنے یا نہ بنے، سیاسی دبائو کے اثرات اپنے رنگ دکھائیں یا نہ۔ جب اہم لوگ میڈیا راڈار پر آجائیں تو ڈرپ، ڈرپ مخالفانہ میڈیا تبصرے روکے نہیں جاسکتے اور بالاخر حکومتوں کیلئے ایسے نقصانات سے جان خلاصی کرانے کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں رہ جاتا۔ تمام تجربے یہی ثابت کررہے ہیں کہ مس پٹیل ایک سخت جان اور عقلمند کھلاڑی ہیں اور وہ اپنے مستقبل کے بڑے خواب کی تکمیل کیلئے ناک آئوٹ ہونے سے بچے رہنے کیلئے پرعزم ہیں۔
تازہ ترین