• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یقیناً پرہیز علاج سے بہتر ہے مگر پرہیز کی بہرحال ایک حد ہے اور ایک طریقہ بھی لیکن ہمارے ہاں سیاست کا بہت حد تک دار و مدار بے چاری صحت پر ہے یا بے دست و پا تعلیم پر۔ یہ دونوں شعبے جس قدر سیاست کو جنم دیتے ہیں یا سیاست ان کو جنم دیتی ہے، اس حساب سے تو انہیں حقوق ملے ہیں نہ انہوں نے ادائیگی فرض میں جان ماری ہے!

گزشتہ دو عشروں کی سیاسی صحت اور صحت عامہ پر غور کریں تو مرکز میں مشرف دور میں اور پنجاب میں پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ میں صحت کو کچھ استقامت ملی تاہم ماضی میں 1985کی غیرجماعتی اسمبلی کے وزیر محمد خان جونیجو کے پانچ نکاتی پروگرام میں جو بنیادی ہیلتھ یونٹ بنے وہ ایک قابلِ تحسین کام تھا جو آج بھی اپنی جگہ بہتر توجہ کا محتاج ہے۔ بعد ازاں شہباز شریف نے پرویز الٰہی کے کئی پروجیکٹس کو تسلسل اور تقویت بخشی تاہم شہباز شریف کو ڈینگی اور ینگ ڈاکٹرز نے بڑا چیلنج دیا۔ ان چیلنجوں کے باوجود شہباز شریف اور ان کی ٹیم کی کارکردگی قابلِ ستائش تھی۔ ڈینگی میں کے پی تک کی مدد کی گئی۔ تھر کی خشک سالی اور صحت کے مسائل نے سندھ حکومت، سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے ناک میں دم کیے رکھا۔ کے پی اور بلوچستان تو آج تک اپنی فارمیسی کونسلوں کو موثر اور مفخر نہیں کر سکے حالانکہ 18ویں ترمیم کے بعد ان صوبوں کو اپنی پی ایم ڈی سی متشکل کر لیناچاہئے تھیں۔ کاش ہم نے 18ویں ترمیم کی افادیت کو پوری طرح سمجھا ہوتا، پورے زمانے میں ضلعی حکومتیں ہنگامی بنیادوں اور ترقیاتی منصوبہ بندی کیلئے محترم و مکرم اور متحرک ہوتی ہیں اور ہم ہیں کہ غیرسیاسی کانٹا چبھنے پر وفاق اور سیاسی چھین پر مقتدر کی طرف منہ اٹھا کر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں اگر سی ایم ایچ نہ ہو تو شاید پورے آزاد کشمیر کا کوئی پُرسانِ حال ہی نہ ہو، کشمیر حکومت بےچاری کی گاڑیوں کی سہولت کے حصول سے جان چھوٹے تو کچھ اور کرنے کے قابل ہو۔ مجھے تو لگتا ہے کورونا مخالف مہم میں پورے ملک کو سی ایم ایچ کی ضرورت پڑے گی اور چین سے استدعا کر کے چینی ماہرین کو بھی مدد کیلئے ہنگامی طور پر تیار رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔ پھر کہیں جا کر ہم حفاظت، حفاظتی تدابیر اور کونسلنگ کے قابل ہوں گے!

وفاقی ہیلتھ سروسز کی تمام تر انتظامی عاقبت نااندیشیوں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی نااہلیوں، فارمیسی کونسل آف پاکستان کی کم فہمیوں اور عدالتی حکم کے باوجود پی ایم ڈی سی پر تالوں کے باوجود میرا حسنِ ظن وفاقی مشیرِ صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے حوالے سے بدستور قائم ہے کہ وہ کورونا وبا کے حوالے سے غیرسیاسی ہونے کے باوجود فیلڈ میں نکلیں گے اور ذہین وفاقی وزیر شفقت محمود اور صوبائی وزرائے تعلیم، تعلیمی ادارے بند کرکے گھر نہیں بیٹھیں گے بلکہ میڈیکل کالجز اور میڈیکل یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات اور اساتذہ کی رضاکارانہ اینٹی کورونا ٹیمیں بنا کر میدان میں نکلیں گے۔ بہرحال یہ شفقت محمود کو اس ہنگامی صورتحال میں وزیر صحت ہی کیوں نہیں بنا دیا جاتا؟ وفاقی وزارتِ تعلیم کا کیا ہے، اسلام آباد سے شروع اسلام آباد میں ختم، دو چار ادارے اِدھر اُدھر۔

ماضی میں مریم نواز شریف کے آئیڈیا پر جب وزیر نیشنل ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ نے ہیلتھ کارڈ کی ’’گُڈی اُڑائی‘‘ تھی ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ کام انشورنس کمپنیوں کا ہے حکومتوں کا نہیں، حکومتوں کے لئے تو ہر شناختی کارڈ ہی ہیلتھ کارڈ ہونا چاہئے۔ اسی سیاسی کارڈ کو یہ حکومت بھی سیاسی پتے کی طرح کھیل رہی ہے جبکہ صحت کے ریگولیٹر، کوآرڈینیشن اور کوآپریشن کے سب وفاقی و صوبائی ادارے مفلوج پڑے ہیں۔ ان اداروں کو انجوائے کرنے والے تو ہزاروں دستیاب ہیں مگر ان کا والی وارث چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا اور عوام کا معاملہ یہ ہے کہ ’’ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی، درد بےچارہ پریشاں ہے کہ کہاں سے اٹھے‘‘۔

جب تک حکومتیں اور سیاستیں خالص جمہوری تحویل میں نہیں ہوں گی تب تک صحت کا بھی حفاظتی تحویل میں ہونا ممکن نہیں۔ یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے کہ آفتوں اور وبائی امراض کے وطنِ عزیز پر اس طرح بادل نہیں منڈلا رہے جس طرح دیگر ممالک پر ہیں، ربِ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھیں لیکن کوئی شریف آدمی مجھے بتا سکتا ہے کہ نیشنل ہیلتھ سروسز یا اس کی وزارت کے زیر سایہ ویکسینیشن کی تیاری یا اس کی کوآرڈنیشن سے کہیں کوئی اینٹی بیکٹیریل یا اینٹی وائرل ڈیزیزز پر کہاں کہاں ریسرچ پروڈکٹ رواں دواں ہیں؟ رنج و غم تو یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی مدد کے باوجود ہنوز پولیو وائرس کوچہ و بازار میں حملے کے درپے ہے۔ موجود ویکسین ہر در تک نہیں پہنچی پھر بھی ہم مایوس نہیں۔ ہم جانتے ہیں یہ قوم چیلنجز میں خوب کھیل جاتی ہے، جس کی ایک مثال ہے کہ اپر سندھ میں گمبٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ (ضلع خیرپور) میں جگر ٹرانسپلانٹ کو کامیاب و کامران بنا چکے ، اسی طرح کراچی میں سرکاری سطح پر کینسر کے جدید اور مفت علاج کے ادارے بنا چکے۔ سندھ حکومت نے حال ہی میں کورونا ویکسین کی تیاری پر انعام کا اعلان کیا ہے۔ گو ہمارے ہاں اس ویکسین کی تیاری کا ابھی امکان کم ہے مگر معلوم ہوا اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے ارادے تو ہیں۔وزیراعظم بھی اب اس چیلنج سے نبردآزما ہونے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ خیر کرے گا مگر انسانی حقوق اور عوامی فلاح کیلئے حکومت کو رفاہی ہونا پڑے گا، تبدیلی پھر ہی ممکن ہے اور خدارا! اس کے لئے بھی کوئی ’’نیبی علاج‘‘ نہ سوچ لیجئے گا۔ حکومت گر سیاست، جمہوریت اور صحت کو اپنی وسعت القلبی کی حفاظتی تحویل میں لے تو ’’وبائی امراض‘‘ سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین