• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دس سال پہلے جب امریکہ افغانستان کی تباہی بربادی کو بیچ میں چھوڑ کر سعودی عرب کے برابر تیل پیدا کرنے والے ملک عراق پر قبضہ کرنے کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ تلف کرنے کے انتہائی گمراہ کن جھوٹ کے بہانے عراق پر حملہ آور ہونے چلا تھا تو ایک تجزیاتی مضمون ”حماقت کی جانب سفر“ کے زیر عنوان چھپا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ”اس حملے سے سب کو نقصان ہوں گے اور فائدہ صرف اور صرف اسرائیل کو ہوگا جس کی ایٹمی اجارہ داری مزید محفوظ اور موثر ہوجائے گی“ ثابت ہوتا ہے کہ اس حملے کا ایک مقصد یہی ہوگا۔ آج ایک اور تجزیئے میں بتایا گیا کہ مغربی طاقتوں اور امریکہ کے شام کے معاملات میں مداخلت سنی مسلمانوں کے جذبہ بغاوت کو خوفناک شدت پسندی پر مجبور کرکے عالمی سطح پر دہشت گردی کے ایک نئے اور بہت زیادہ تباہ کن عفریت کو جنم دینے کی ذمہ دار بنے گی۔
عالمی سطح پر تجزیہ نگاروں کے واویلے کے دوران عراق پر امریکی حملے کو دس سال کی تباہی اور بربادی کے بعد جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اس حملے پر شدید مالیاتی بحران سے گزرنے والے مغرب اور امریکہ کے ایک کھرب ڈالرز سے زیادہ فضول خرچ ہوئے ہیں۔
جس کی تباہی اور جس کی ہلاکتیں پہلی دونوں عالمی جنگوں سے زیادہ ہیں۔ امریکی ری پبلکن پارٹی کے عمر رسیدہ لیڈر جان مکین ہزیانی حالت میں جب اس نوعیت کے نعرے لگاتے ہیں کہ ”ایران پر ایٹمی حملہ کر دیا جائے۔ ایران کو تباہ برباد کر دیا جائے۔ ایران کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے تاکہ اسرائیل کے حکمران سکھ کی نیند سو سکیں تو 279قبل مسیح کے بادشاہ RYRRNUSیاد آجاتے ہیں جنہوں نے ایک ظالمانہ خونی جنگ جیتنے کے بعد کہا تھا کہ ”ایسی ہی ایک اور جنگ اور فتح کے ساتھ ہمارا اس دنیا سے نام و نشان مٹ جائے گا اور ان کی پیش گوئی بالکل صحیح ثابت ہوئی تھی۔ امریکی اخبارات میں لکھا جا رہا ہے کہ امریکہ کے قدامت پرستوں کی ایک بڑی تعداد اس خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ امریکہ نے افغانستان اور عراق کو فتح کر لیا ہے۔ ایسے احمق امریکی بھی موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عراقی صدر صدام کے قبضہ میں ایٹمی ہتھیاروں کے انبار تھے اور اگر وہ پھانسی نہ پاتے تو یہ ایٹمی اسلحہ دنیا کو تباہ کر چکا ہوتا۔ یہی وہ قدامت پرست اور گمراہ امریکی ہیں جن کی وجہ سے جارج بش، ڈک چینی اور ٹونی بلیئر جیسے دور جدید کے ہلاکو اور ہٹلر اپنے جنگی جرائم کے باوجود ہیگ کی عالمی عدالت انصاف کی زد میں آنے سے بچ گئے ہیں مگر ان کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کی زبردست جنگی طاقت افغانستان اور عراق سے بری طرح ہار گئی اور مغربی طاقتیں ویت نام کے بعد ایک اور جنگی جرم کے احساس میں مبتلا ہوگئیں۔ اس احساس جرم میں مبتلا مغربی قدامت پرست آخری تجزیئے میں نام نہاد اسلامی دہشت گردوں سے کہیں زیادہ ظالم اور سفاک دہشت گردوں کی صورت اختیار کرسکتے ہیں اور نظام شمسی کے واحد انسانی گہوارے کو غائب کرنے کے ذمہ دار بن سکتے ہیں اور اگر ایسا کریں گے تو دنیا کے آخری دہشت گرد کہلائیں گے مگر کہنے والا کون ہوگا؟ کوئی بچے گا تو کہے گا نا؟ امریکہ کی سرزمین نے کم از کم پانچ ہزار فوجیوں کے تابوت وصول کئے ہیں، پچاس ہزار امریکی فوجی زخمی ہو کر اپاہج اور معذور ہو چکے ہیں، اتنے ہی امریکی فوجی ذہنی اور دماغی توازن کھو چکے ہیں۔ اس جنگ میں مارے جانے والے عراقیوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں کی جاسکتی مگر وہ کسی بھی حالت میں دس لاکھ سے کم نہیں ہوگی۔ سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا ہے کہ سیکولر عراق مذہبی فرقہ بندیوں اور علاقائی منافرتوں کی زد میں آگیا ہے اور اس سے بھی زیادہ نقصان (کولیٹرل ڈیمج) خود امریکہ کا ہوا ہے کہ وہاں کا نوجون اور جوان طبقے کا اپنے حکمرانوں پر سے اعتماد اور اعتبار اٹھ چکا ہے اور یہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور کی تباہی اور بربادی کی سب سے بڑی وجہ بن سکتی ہے جس کے نتائج سوشلزم یا سٹالن ازم کی تباہی اور بربادی سے کہیں زیادہ شدید اور دنیا بھر پر اثر انداز ہونے والی ہوگی۔ موجودہ جنگ کو ہم تیسری عالمی جنگ بھی قرار دے سکتے ہیں
تازہ ترین