• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی رفیق احمد بالاکوٹی

’’کورونا وائرس‘‘ ایک مہلک اور جان لیوا وبا بن کر پوری دنیا کو متاثر کر رہا ہے۔ سیکڑوں انسانی جانوں کے زیاں کے ساتھ متاثرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چُکی ہے۔ امریکا، یورپی ممالک کی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ایران اور پاکستان میں بھی اس وبائی مرض کے خطرات وخدشات بڑی شدّت سے محسوس کیے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے احتیاطی تدابیر اور حفاظتی احکامات بھی مختلف شکلوں میں سامنے آرہے ہیں۔ عوامی آگاہی کے لیے ریاستی ادارے، اطباء اور متعدّد علمائے کرام بڑی تن دہی سے سرگرمِ عمل ہیں۔تاہم، یہ بیماری کس قدر خطرناک ہے اور اس کے خطرات سے عوام النّاس کس قدر دوچار ہوئے ہیں؟ اس کا صحیح اندازہ تو فی الحال نہیں لگایا جا سکتا کہ اس کی تباہ کاریاں مسلسل جاری ہیں اور منظر نامہ اس قدر ڈراؤنا ہے کہ معاشرے کو ذہنی ونفسیاتی موت مارے جارہا ہے۔ اس وبا کی بابت پھیلنے والی اطلاعات نے چہار سو سراسیمگی پھیلا رکھی ہے۔ غیرضروری اجتماعات کے ساتھ ساتھ ضروری میل جول بلکہ مساجد میں عبادات تک کو محدود کر دیا گیا ہے۔

اِس صُورتِ حال میں یہ جاننا ضروری ہے کہ عالمی آفات، وبائی امراض سے بچنے اور ان کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔چوں کہ بعض افراد کی جانب سے اِس طرح کی آرا سامنے آرہی ہیں، جن میں شرعی احکام وآداب کو پوری طرح پیش نہیں کیا گیا، تو اس سے غلط فہمیاں جنم لینے کا خدشہ ہے،،لہٰذا اہلِ علم کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے شریعتِ اسلامیہ کے مکمل احکامات نقل فرمائیں۔اہلِ علم جانتے ہیں کہ عالمی آفات، وبائی امراض، مختلف مصائب اور خطرات سے متعلق شرعی احکام اور نبویؐ تعلیمات وہدایات چار اقسام کی ہیں:

(1)مستقبل کے حالات اور احوال کے بارے میں توکّل(اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا کرنا) ایمانی کمال کی علامت اور جنّت میں بلاحساب پہلے پہل داخلے کی بشارت ہے۔اگر اللہ تعالیٰ پر توکّل اور بھروسے کے باوجود کوئی بلا ، وبا یا مصیبت لاحق ہوجائے، تو اُس پر صبر کیا جائے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی معیّت اور عظیم اجر کا وعدہ ہے۔کُتبِ احادیث میں’’باب التوکل والصبر‘‘ کے زیرِ عنوان اس موضوع پر متعدّد روایات موجود ہیں۔

(2) تقدیرِ الٰہی پر بندۂ مومن کی راسخ الاعتقادی وہ مفید عقیدہ ہے، جو بڑی سے بڑی مصیبت کو خدائی فیصلہ قرار دے کر ذہنی طور پر قبول کرنے، سہہ جانے اور بے جا اشک ہائے حسرت ویاس بہانے سے محفوظ رکھتا ہے۔ کیوں کہ جو اللہ تعالیٰ کی چاہت ہے، وہ پوری ہوکر رہے گی اور جس اَمر سے اللہ تعالیٰ کی چاہت متعلق نہ ہو، وہ کائنات کے سارے اسباب کی یک جائی اور اکٹھ کے باوجود بھی ظہور پذیر یا اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ احادیث کی کتابوں میں’’باب القدر‘‘ کے تحت اس مضمون کی تفصیلی احادیث موجود ہیں۔

(3) اگر واقعی کسی کو کوئی بیماری لاحق ہوجائے، تو مریض کی ڈھارس بندھائی جاتی ہے، حوصلہ بڑھایا جاتا ہے اور اُسے مایوسی سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مریض کو کہا جاتا ہے کہ’’ اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے،تم جلد تن درست ہو جاؤ گے، وغیرہ۔‘‘ یہاں تک کہ اگر وہ مرضِ وفات میں ہو، تب بھی اُس سے اُمید افزا باتیں کرنے کا حکم ہے۔کُتبِ احادیث میں’’باب عیادۃ المریض‘‘ کے ضمن میں اس طرح کی بہت سی احادیثِ مبارکہؐ کا ذکر کیا گیا ہے۔

(4) اگر کسی قوم یا علاقے میں کوئی وبائی مرض پُھوٹ پڑے، تو ایسے علاقے کے باسیوں کے لیے الگ احکام ہیں اور دوسرے علاقوں سے وہاں آنے والوں کے لیے الگ احکام ہیں۔ باہر سے آنے والوں کے لیے تو حکم ہے کہ وہ ازراہِ احتیاط ایسے علاقےکا رُخ نہ کریں، کیوں کہ اگر کوئی اتفاقاً ہی سہی، تقدیرِ الٰہی کی بنیاد پر وبائی مرض کا شکار ہوجائے، تو ایسے موقعے پر ضعیف الاعتقاد مسلمان وبائی مرض کے مؤثرِ حقیقی ہونے کا خیال نہ کر بیٹھیں۔ حالاں کہ تمام اشیاء اور ان کی ہر نوع کی تاثیرات اللہ کے حکم، ارادے اور مشیت کے تابع ہیں۔ مسلمان کی نظروفکر کہیں مؤثر حقیقی، یعنی باری تعالیٰ کی بجائے ظاہری سبب کی طرف جاسکتی ہے، اس لیے شریعت نے وبائی امراض کے زیرِ اثر قوموں اور علاقوں کے اختلاط سے منع فرمایا ہے۔جہاں تک وبا زدہ علاقے کے مقامی لوگوں کے لیے ہدایات کا تعلق ہے، تو ان کی تفصیل یہ ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی بھی بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان کو نہیں لگ سکتی’’لاعدوٰی ولاطیرۃ ‘‘ جیسی احادیث میں اس کا بیان ملتا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود جذام میں مبتلا شخص کو اپنے ساتھ بٹھایا اور اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔مگر اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی موجود ہے کہ مجذوم سے ایسے بھاگو ،جیسے شیر سے بچنے کے لیے بھاگتے ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی متعدی وبائی بیماری کا حقیقی اثر نہ سہی، مگر ظاہری سبب کے درجے میں اثر انداز ہونے کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ایسی وبائی بیماریوں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی شریعت کے منافی نہیں، بلکہ شریعت کے مزاج کے عین مطابق ہے۔

پس کسی وبائی مرض، اس کے منفی اثرات اور اس سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر نارمل انداز میں بیان کرنا، بتانا اور ان پر عمل کرنا تعلیماتِ نبویؐ کا حصّہ ہیں۔ ایسا ضرور ہونا چاہیے، جو اہلِ علم اس آگاہی مہم اور احتیاطی تدابیر کے اظہار وبیان میں مناسب کردار ادا کررہے ہیں،ان کا کردار بھی قابلِ قدر ہے اور یہ ایک اعتبار سے اسلام کی تبلیغ ہے، مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے حضرات وبائی مرض کے ڈراؤنے پہلو کو مزید ڈراؤنا بنانے کی بجائے نبویؐ تعلیمات کی پیروی کریں اور نبویؐ تعلیمات میں سے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ قضاء وقدر، تسلّی اور دلاسے کے شرعی پہلو کو بھی ضرور بیان فرمائیں۔نیز، سرکاری حکّام اور ریاستی اداروں کے لیے شرعی حکم اور دینی نصیحت یہ ہے کہ وہ بھی اپنی آگاہی مہم اور احتیاطی تدابیر شریعتِ اسلامیہ کے ذکر کردہ احکام وآداب کے تابع رکھیں۔ اس ضمن میں یہ بھی یاد رکھیے کہ یہ مواقع اللہ تعالیٰ سے رجوع اور اس کے سامنے گڑگڑانے کے ہوتے ہیں، لہٰذا زیادہ سے زیادہ توبہ استغفار کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو ہر قسم کی وباؤں اور مصیبتوں سے نجات دے اور محفوظ رکھے۔( آمین)

(مشرف تخصص فی الفقہ الاسلامی،جامعہ علوم اسلامیہ علّامہ بنوری ٹاؤن،کراچی)

تازہ ترین