• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے مہلک اثرات سے عام لوگوں کو تحفظ دینے اور اس وبا کے باعث افراد، صنعتوں، کاروبار، زراعت سمیت معیشت کے تمام شعبوں پر مرتب ہونے والے اثرات سے نمٹنے کیلئے میڈیا کانفرنس میں جس پیکیج کا اعلان کیا اسے بیشتر شعبوں کے نمائندگان کی جانب سے بروقت اور درست سمت میں اٹھایا جانا والا قدم کہا جا رہا ہے۔ پیکیج میں اعلان کردہ سہولتوں کے حجم پر بعض حلقے تحفظات ضرور رکھتے ہیں مگر یہ اعتراف سب ہی کرتے ہیں کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے منظر نامے میں جبکہ اچھی خاصی عالمی معیشتیں لڑکھڑاتی نظر آرہی ہیں، ہمیں وطن عزیز میں جو اقدامات بھی کرنا ہیں ان کا مقصد وبائی مرض کے پھیلائو کو روکنا بھی ہے اور یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں اس غریب ملک کی خطِ غربت سے نیچے یا اس سے کچھ اوپر زندگی بسر کرنے والی آبادی تک روٹی، پانی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی رسائی کا راستہ اس طرح بند نہ ہو جائے جس سے کچھ اور المیوں کے خدشات نمایاں ہوں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امدادی نوعیت کے اقدامات میں انتظامی کنٹرول اتنا موثر ضرور ہونا چاہئے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور کئی دوسری امدادی اسکیموں میں کی گئی بےقاعدگیوں کا اعادہ نہ ہو سکے۔ وزیراعظم عمران خان کے اعلان کردہ معاشی پیکیج میں واضح طور پر یومیہ آمدنی والے محنت کشوں اور غربت کی چکی میں پسنے والے دیگر افراد کے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے سوال اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو اولین ترجیح حاصل ہے مگر معیشت کی ان ضرورتوں کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے جو لوگوں کو روزگار فراہم کرنے اور ملکی مالی معاملات کو سنبھالنے کی لازمی ضرورت ہیں۔ وزیراعظم نے میڈیا سے گفتگو میں مانیٹری پالیسی کی شرح سود میں مزید کمی کا جو اشارہ دیا وہ بعد ازاں اسٹیٹ بینک کے اس اعلان کی صورت میں سامنے آگیا جس کے تحت پالیسی ریٹ 11فیصد کر دیا گیا ہے۔ ممتاز ماہرین معیشت اور کاروباری برادری کے رہنمائوں کے ابتدائی تاثر کے مطابق شرح سود میں یہ کمی اگرچہ ایک ہفتے بعد ہی ہوئی ہے مگر توقع سے کم ہے اور اس میں مزید کمی کی جانی چاہئے تاہم اس سے صنعتوں، خاص طور پر برآمدی مینو فیکچررز کو ریلیف ملے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شرح سود میں کمی کے اس فیصلے سے افراطِ زر کے اعداد و شمار مزید نیچے آئیں گے اور کاروباری جمود توڑ کر معاشی سرگرمی کی فضا بنانے میں مدد ملے گی۔ روپے کی قوتِ خرید میں اضافے اور مہنگائی میں کمی کا فائدہ یقینی طور پر مالی اعتبار سے کمزور طبقوں تک پہنچتا ہے۔ لاک ڈائون اور کرفیو کے عالم میں صنعتی و کاروباری زندگی مفلوج ہونے اور روزگار نہ ملنے کے باعث یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کیلئے جو سنگین مسائل جنم لیتے ہیں ان کا تذکرہ وزیراعظم عمران خان کئی مواقع پر کر چکے ہیں۔ چنانچہ منگل کے روز 1200؍ارب روپے کے جس معاشی پیکیج کا اعلان کیا گیا اس میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اور مزدوروں کے لیے دو سو ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بیروزگار ہونے والوں کے لیے صوبوں کی مشاورت سے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ ایک کروڑ 20لاکھ خاندانوں کو چار ماہ تک صرف تین ہزار روپے دینے کے فیصلے کے پس منظر میں کتنی ہی مشکلات موجود ہوں وزیراعظم بھی جانتے ہیں کہ تین ہزار روپے مہینہ یا ایک سو روپے یومیہ کی رقم ہر قسم کی آمدنی سے محروم خاندان کی غذائی ضروریات کیلئے کسی طرح بھی کافی نہیں۔ چونکہ معاشی پیکیج کے کئی پہلوئوں کی تفصیل واضح نہیں اس لیے اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اس باب میں صوبائی حکومتوں، مخیر افراد اور فی سبیل اللہ کام کرنے والی تنظیموں سے معاونت لی جائے گی۔ لنگر خانوں کی تعداد بڑھانے کی منصوبہ بندی بھی کی جا رہی ہے جہاں سے لوگوں کو خوراک کے حصول میں مدد مل سکتی ہے۔ اس مقصد کیلئے 6ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ کم آمدنی والے افراد کے بجلی اور گیس کے بلوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کی قسطیں کی جا رہی ہیں مگر یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ جو لوگ لاک ڈائون یا کرفیو کے دوران بیروزگاری کے باعث باہر سے پہنچائی گئی خوراک کے محتاج ہوں گے وہ ان بلوں کی قسطیں کیسے ادا کرسکیں گے۔ 24مارچ کو اعلان کردہ پیکیج میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15روپے فی لیٹر کمی کا فیصلہ ایسا ہے کہ ہر شعبے پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ کھانے پینے کی چیزوں پر ڈیوٹی ختم یا کم کرنے کے فیصلے کی تعریف کی جانی چاہئے مگر اہم بات یہ ہے کہ یہ فوائد لازمی طور پر پسے ہوئے طبقات تک پہنچنے چاہئیں۔ صنعتوں کو فوری ری فنڈ کیلئے 100ارب روپے کا بندوبست اور برآمدی صنعت کیلئے ادائیگیاں موخر کیے جانے سے انڈسٹری کو دبائو سے نکلنے میں مدد ملے گی مگر ایس ایم ایز اور زرعی شعبے کیلئے 100ارب روپے کی رقم بہت کم محسوس ہوتی ہے۔ سنا جا رہا ہے کہ زراعت اور ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کو بھی منگل کے روز اعلان کردہ پیکیج کے بجٹ میں ضم کر دیا جائے گا۔ یہ چھوٹی صنعتوں اور زراعت دونوں سے ناانصافی ہوگی۔ حکومتی پیکیج کے فوائد بڑے صنعتکاروں تک ضرور پہنچنا چاہئیں مگر یہ فوائد جب چھوٹی صنعتوں اور زراعت تک پہنچیں گے تو اس کے بھی دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک جانب وفاقی و صوبائی حکومتیں ملکر زراعت سمیت تمام شعبوں کی ترقی کے موثر اقدامات پر توجہ دیں۔ دوسری جانب کورونا سے بچائو کی مہم کے دوران سماجی تنہائی کی ضرورت و اہمیت سے شہروں اور دیہات کے لوگوں کو مسلسل آگاہ کرتی رہیں۔ جہاں سماجی تنہائی اختیار کرنے کا تعلق ہے، لوگوں کو ضروری چیزوں کی خریداری کا موقع دینے کیلئے دکانوں کے لاک ڈائون میں نرمی کی بھی ضرورت ہے تاکہ لوگ قطار میں فاصلہ رکھتے ہوئے کھڑے رہ کر ضروری اشیا خرید سکیں۔

تازہ ترین