• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج جو کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں ہم نے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ امن و امان کی حالت ناگفتہ بہ ہے انسان کس بیدردی سے ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں، مار رہے ہیں، لوٹ رہے ہیں، ایسا سندھ میں ہو رہا ہے، بلوچستان میں ہو رہا ہے، خیبر پختونخواہ میں ہو رہا ہے، پنجاب بھی اس گرادب میں ہے۔ ایسا کسی علاقے میں زیادہ کسی میں کم ہے۔ نفرتوں کی سیاست نے جس کا بیج کئی عشروں پہلے بویا گیا تھا اب اس کی جڑیں مضبوط ہو گئی ہیں اس آگ پر اندر باہر سے تیل چھڑکا جا رہا ہے پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں اپنے بھی کر رہے ہیں اور پرائے بھی، ہر طرف خوف کا عالم ہے اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر انتخابات سے تبدیلی نہیں آئی تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ عوام سیاسی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں تبدیلی آئے تو کیسے؟
ذرا غور کیجئے کہ اس طرح لوگ کیوں سوچنے لگے ہیں۔ کتنے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبر ایسے تھے جنہوں نے جعلی ڈگریاں پیش کر کے الیکشن لڑا ان کی تعداد سیکڑوں میں ہے کیا کسی دوسرے ملک میں ایسا ہونا ممکن ہے؟ یہ قوم کے ساتھ کتنا بڑا فراڈ ہے، دھوکہ دہی ہے، کیا سیاسی لیڈرایسا بھی کر سکتے ہیں؟ کر سکتے ہیں جب ہی تو انہوں نے یہ کیا، کرپشن کی کیسی کیسی کہانیاں روز سامنے آتی ہیں، یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ لوگ کیوں مایوس ہیں؟ کیوں خوفزدہ ہیں؟ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ عدل نہیں ہے، انصاف نہیں ہے، قانون کی عملداری نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عوام کا اعتماد جمہوریت پر متزلزل ہو رہا ہے۔ وہ فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں اسے مسیحا سمجھ رہے ہیں۔ پانچ سال میں ہر چیز قابو سے باہر ہوگئی ہے، جمہوریت ایک بہت اچھا نظام ہے لیکن جب وہ کرپٹ ہوجائے تو اس کا وہی نتیجہ ہوگا جو ہو رہا ہے۔
ایک قانون پاس کردیا گیا تمام اصول و ضوابط کو توڑ کر کہ الیکشن میں حصہ لینے والے کے لئے بانفس نفیس اپنے نامزدگی کے کاغذات داخل کرنے کے لئے پیش ہونا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ الیکشن کمیشن نے یہ شرط عائد کر دی تھی کہ امیدوار کو خود آنا ہوگا اب ایسا کرنے کی وجہ کچھ بھی بتائی جائے۔ اس میں بدنیتی کا دخل ہے۔ یہ قانون آئین کی شق 62 اور 63 کو غیر موثربنانے کیلئے بنایا گیا اور اس کی INTENTION بتا رہی ہے کہ قانون بدنیتی پرمبنی ہے اور بدنیتی پر مبنی قانون عدالت عظمیٰ معطل کر سکتی ہے۔
میں نے 2 ستمبر 2005 کے اپنے کالم میں جس کا عنوان تھا ”تاریخ کا سبق“ واضح طور پر لکھا تھا کہ آئین میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ انتخابات میں جو لوگ منتخب ہو کر آئیں وہ اچھے لوگ ہوں لیکن کسی حکومت نے آئین کی دو اہم ترین شقوں 62 اور 63 کو نافذ نہیں ہونے دیا اگر ان کا نفاذ عمل میں آجاتا تو ناپسندیدہ لوگ اور امیدوار منظر سے ہٹ جاتے۔
آرٹیکل 62 کی شق (ہ) میں ہے کہ ایسا امیدوار جو اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیزکبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔ قومی اسمبلی کا ممبر نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی بھی امیدوار جو الیکشن کمیشن میں خود پیش نہیں ہوگا تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ وہ آرٹیکل 62 کی شق پر پورا اترتا ہے پھر اسی آرٹیکل میں یہ ہے کہ وہ سمجھدار ہو، پارسا ہو، فاسق نہ ہو اورایماندار اور امین ہو“
جو امیدوار قرض لیکر ہڑپ کر گیا ہو اس نے اپنے اثر و رسوخ سے قرض معاف کرا لیا ہو وہ قومی اسمبلی کا ممبر نہیں ہو سکتا، گزشتہ دور میں ایسے ایسے لوگ بھی ممبر تھے جو سورہ اخلاص نہیں پڑھ سکتے تھے انہیں یہ تک نہیں پتہ تھا کہ قرآن میں کتنے سیپارے ہیں۔ اس لئے ہر امیدوار کو الیکشن کمشنر کے سامنے خود پیش ہونا چاہیئے تاکہ معلوم ہو کہ وہ صادق و امین ہے کہ نہیں۔ یہ بل جلدی میں پاس کیا گیا ہے تاکہ آئین کے مقصد کو سبوتاژ کیا جائے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ کا فخر الدین جی ابراہیم کی پشت پر ہونے کی تعبیر اور تشریح یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی پشت پر پاکستان کے 18 کروڑ عوام ہیں وہ تمام لوگ ہیں جو الیکشن منصفانہ اور شفاف چاہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن خود مختار ہے، آزاد ہے، اس کے راستے میں کوئی روڑے نہیں اٹکا سکتا۔ اگر کسی بھی طرف سے الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لینے کی کوشش کی گئی تو اس کے منفی اثرات ہوں گے اور پھرعوام پہلے احتساب اور بعد میں الیکشن کا مطالبہ شروع کر دیں گے جو ساری صورت حال کو ایک نیا رخ دے دے گا۔
آج عوام میں بیداری اور شعور پہلے سے بہت زیادہ ہے اور یہ آزاد میڈیا کا کرشمہ ہے جس نے سیاستدانوں کا ہر پہلو کھول کر رکھ دیا ہے۔ وہ عدلیہ، الیکشن کمیشن کے ساتھ ہیں، اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک فلاحی ریاست بنے تو اہم رول عوام کو ادا کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرضہ معاف کرانے والوں کی لسٹ میڈیا کو دے تاکہ عوام فیصلہ کر سکیں کہ انہیں ووٹ کس کو دینا ہے۔ عبوری وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ پر بھی یہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ آئین کے مطابق الیکشن کرائیں اور الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کریں ابھی دو ایک دن پہلے ایک نشست میں مشہور شاعرہ عنبرین حسیب عنبر نے ایک تازہ غزل سنائی جس کا یہ شعر میری یادداشت میں محفوظ رہ گیا کہ
کیا قیامت گزر گئی ہے یہاں
لوگ اب کیوں دعا نہیں کرتے
ملک کے حالات کس طرح انسانی شعور کو متاثر کر رہے ہیں اس کا اظہار کس طرح ہو رہا ہے بیدار ذہن مایوسی کی حدوں کو پار ک رہا ہے اور حیرت زدہ ہے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نجات کیلئے دعا بھی نہیں کر رہے۔ کیا وہ لوگ سو گئے ہیں جن کو حصار بنانا تھا ملک بنانا تھا؟
تازہ ترین