1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم سے بھارت اور پاکستان وجودمیں آئے، تو اس تاریخی دورمیں دونوں طرف سے ہجرت ہوئی، پنجاب کے مختلف علاقوں میں لسانی فسادات بھی ہوئے، جس کے نتیجہ میں جانی و مالی نقصان ہونے کے ساتھ ساتھ کئی ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے۔ ایسے ہی حالات کی چشم دید گواہ ایک سکھ لڑکی ’’امرت کور‘‘ بھی تھی، جو پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی، تقسیم کے بعد وہاں سے ہجرت کرکے بھارت چلی گئی۔
یہی لڑکی، جس نے ہجرت کے وقت سخت غیر انسانی حالات دیکھے تھے، اپنے اندر کی آواز اور فریاد پر ایک نظم’’اَج آکھاں وارث نوں‘‘ لکھی۔ یہ نظم ایک ایسا نوحہ ہے، جس نے اپنے اندر اُس وقت انسانوں پر برپا ہونے والی قیامت کو خود میں مقید کرلیا۔ اس نظم کی خالق اور گوجرانوالہ کی رہائشی امرت کور کا ادبی نام’’امرتا پریتم‘‘ تھا، جس نے پنجابی شعر و ادب میں غیر معمولی مقام حاصل کیا۔
امرتا پریتم نے بھارتی شاعرہ اور ادیبہ ہونے کے ناطے اپنے ملک کے علاوہ پاکستان اور دنیا بھر میں شہرت پائی۔ ان کی سو سے زائد کتابیں شائع ہوئیں، جن میں شعری مجموعے، ناول، افسانے اور دیگر کتب شامل ہیں۔ ان کی نظم’’اَج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ اور ناول’’پنجر‘‘ نے انہیں غیر معمولی شہرت عطا کی۔ انہوں نے خود نوشت ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ میں اپنی زندگی اور خیالات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کی تخلیقات، پنجابی، اردو اور انگریزی زبانوں میں شائع ہوئیں، جس سے ان کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا۔ انہیں اپنے ملک کی طرف سے تمام بڑے ایوارڈز بھی دیے گئے اور یہ کئی اہم سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہیں۔
لاہور میں پرانی انارکلی کے ایک تاجر سے ان کی شادی ہوئی، جو کامیاب نہ ہوسکی، پھر زندگی کے باقی دن دو رشتوں کے ساتھ نبھاہ میں گزارے۔ ایک تو ان کا شوہر’’امروز‘‘ تھا، جو مصور بھی تھا، مصور کو اس ادیبہ سے بہت محبت تھی، دوسرا محبوب اور معروف شاعر ساحر لدھیانوی تھا، جن سے ان کو عشق ہوا۔ ان کی پوری زندگی پر ہجرت کا سفر اوریہ دونوں محبتیں گہرے رنگوں کی پرچھائیوں میں رنگی ہوئی ملتی ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر حوالہ اسی تکون سے ہو کر نکلتا ہے۔ دو معروف بھارتی ادیبوں اور ان کے ہم مذہبوں نے بھی ان کی تخلیقات کی شہرت میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ ان میں پہلے معروف ادیب اور صحافی خوشونت سنگھ ہیں، جنہوں نے ان کے معروف ناول’’پنجر‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیا، جس سے انہیں عالمی شہرت ملی، دوسرے مشہور فلم ساز اور شاعر گلزار تھے، جنہوں نے ان کی تخلیقات کو اپنی آواز دی، اس صدا کاری سے بھی ان کے کلام کو چار چاند لگ گئے، انہیں مزید شہرت اور کامیابی ملی۔
امرتا پریتم نے اپنی حساس طبیعت کی وجہ سے کمسنی میں لکھنا شروع کر دیا تھا اور سب سے پہلے شاعری پر طبع آزمائی کی، اس وقت ان کی عمر 16 سال تھی۔ ان کی تخلیقات کا عرصہ چھ دہائیوں پر محیط ہے، جس میں ان کی کتابیں شائع ہوئیں۔ مختلف زبانوں میں ان کی خود نوشت اور سوانح عمری شائع ہوئی۔ ان کے متعدد شعری مجموعوں کے علاوہ کئی افسانوں کے مجموعے بھی شائع ہوئے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کے کل10 ناول اشاعت پذیر ہوئے، جن میں سب سے زیادہ شہرت’’پنجر‘‘ کو ملی۔ جو پنجابی زبان میں لکھے جانے کے علاوہ کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
ان کے ناول’’پنجر‘‘ کی کہانی ایک ایسی ہندو لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو تقسیم کے وقت اپنوں سے بچھڑ گئی اور ایک مسلمان گھرانے کا حصہ بن گئی، پھر جب اس نے وہاں سے فرار ہونے کے بعد اپنوں میں واپس آنے کی ایک کامیاب کوشش کی، لیکن اسے مایوسی ہوئی، جب اس کے اپنوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، پھر زندگی نے اس کو ایک ایسا موقع بھی دیا، جب وہ واپس اپنوں میں لوٹ سکتی تھی، لیکن پھر وہ واپس نہ گئی اور باقی کی زندگی اپنے ہونے والے مسلمان شوہر کے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کیا، جس کے بارے میں حالات نے طے کیا تھا، وہی سب سے زیادہ مخلص تھا، جس نے اس سے سچی محبت کی تھی۔ اس رومانوی کہانی میں دونوں ممالک کے مکینوں کا دکھ درد محسوس کیا جاسکتا ہے، اسی لیے یہ کہانی آج بھی دل میں اُداسی بھر دیتی ہے۔ اس ناول پر ہندوستان میں’’پنجر‘‘ کے نام سے ہی فلم بنی جبکہ پاکستان میں ڈراما’’گھگی‘‘ بنا، جس کی ڈرامائی تشکیل آمنہ مفتی نے دی اور اسے ایک نجی چینل سے نشر کیا گیا۔
2003 کو ہندوستان میں بننے والی فلم’’پنجر‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی اور باکس آفس پر کامیاب بھی ہوئی۔ اس فلم کی بنیادی کہانی امرتا پرتیم کے ناول پر ہی مبنی تھی، البتہ اسکرین پلے اور اضافی مکالمے’’چندر پرکاش ڈیوڈی‘‘ نے لکھے۔ فلم کی موسیقی اور شاعری میں بڑا حصہ گلزار نے ڈالا، جبکہ امرتا پریتم کی شاعری کے علاوہ معروف پاکستانی شاعرہ زہرہ نگاہ کی بھی شاعری کو فلم کا حصہ بنایا گیا۔ فلم کا انتساب چند خواتین کے نام کیا گیا، جس میں چند پاکستانی خواتین کے نام بھی شامل ہیں۔
فلم کے اداکاروں منوج باچپائی اور ارمیلا ماتونڈکر سمیت دیگر فنکاروں نے متاثرکن اداکاری کی، لیکن سب سے دلکش چیز اس فلم کا سائونڈ ٹریک تھا، جو امرتاپرتیم کی نظم’’اَج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ پر مبنی تھا، اس کو ہندوستان کے معروف کلاسیکی گائیک جوڑی ’’ولادی برادرز‘‘ نے گایا، یہ گیت اس قدر دل کو چھو لینے والا ہے کہ کہانی کے طلسم اور درد کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ پاکستان میں بھی فلم سازوں کو چاہیے، وہ تاریخی ادوار کواسی طرح شاندار انداز سے عکس بند کریں تاکہ نئی نسل اپنی تاریخ سے جذباتی طور پر منسلک ہوسکے۔