وہ شخص تلوار کا دھنی بھی تھا اور بلا کا خطیب بھی، اس کا تعلق ایران سے تھا، لیکن فارسی اور عربی زبان پر اس کو عبور حاصل تھا۔ وہ جیسے ایک ماہر اور قابل جرنیل کی طرح اپنی سپاہ کو میدان جنگ میں استعمال کرنے کا ہنر جانتا تھا۔ اس طرح وہ گفتگو اور خطابت کے فن سے بھی آگاہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ لوگ صرف تلوار کے وار سے ہی گھائل نہیں ہوتے بلکہ گفتار کی دھار سے بھی چاروں شانے چت ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ فارس سے لیکر صحرائے عرب تک اپنے جاں نثاروں اور جانبازوں کی قیادت کرتے ہوئے بڑے بڑے سرداروں، گورنروں اور حاکموں کے سروں کی فصل کاٹتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا اور دوسری طرف وہ لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لئے اور انہیں ہمنوا بنانے کے لئے خطابت کے جوہر بھی دکھا رہا تھا۔ وہ جب خطاب کرتا تھا تو جیسے وقت کی نبضیں تھم جاتی تھیں۔ وہ لوگوں کے دلوں کو اپنی مٹھی میں کر لیتا تھا۔ اس طرح وہ جوش خطابت کے سہارے اپنے سامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا اور پھر انہیں جان کی بازی لگانے کے لئے آمادہ کر لیتا تھا۔ اس کا نام ابو مسلم خراسانی تھا۔ آج کل کے ایران اور افغانستان کو ”خراسان“ کہتے تھے اس لئے اسے ”خراسانی“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ابو مسلم خراسانی کا ایک ہی نعرہ تھا ”انتقام“ اموی خاندان سے انتقام وہ خاندان جس نے زبردستی حکومت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ حکومت کرنا اولاد رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حق ہے۔ حکومت کرنے کا کسی ظالم و جابر خاندان کو حق نہیں ہے۔ یہ اسلامی خلافت ہے، اسے اولاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی بہتر انداز میں چلاسکتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوام کی اکثریت اس کے اردگرد اکھٹا ہونے لگی اور اسے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہوگئی۔ عباسی خاندان کے لوگ جو اموی دور میں دبک کر بیٹھے تھے اور خاموشی اختیار کرلی تھی وہ بھی ابو مسلم خراسانی کی حمایت میں آگے بڑھ کر سامنے آگئے اور پھر وہی ہوا جو تاریخ میں ہوتا آیا ہے، نوے سال کی حکمرانی کے بعد اموی خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ کچھ شہزادے اور شہزادیاں جان بچا کر بھاگ گئے، ایک اموی شہزادہ عبدالرحمن تو یورپ تک بھاگا اور سپین میں آکر ”سیاسی پناہ“ لی لیکن قدرت نے اسے حکمران بنادیا۔ اس نے بالآخر یہاں حکومت قائم کی اسے امیر عبدالرحمن ”الداخل“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور پھر مسلمان سات سو سال تک سپین کے علاقے ”اندلس“ میں حکمران رہے جو اموی دمشق میں رہ گئے تھے انہیں چن چن کر مارا گیا۔ امویوں اور ان کے حامیوں کو گرفتار کیا گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت مشرقی پاکستان میں نوے ہزار جنگی قیدیوں کا تذکرہ ہم اکثر پڑھتے اور سنتے آئے ہیں جن کو بالآخر ہندوستان نے رہا کردیاتھا لیکن ابو مسلم خراسانی نے نوے ہزار امویوں اور ان کے حامیوں کو گرفتار کرکے انہیں ڈنڈے مروا مروا کر ان کی ہڈیاں توڑیں، تلواروں کے کچوکوں سے ان کے جسموں کو چھلنی کیا اور پھر انہیں زمین پر لٹا کر ایک وسیع میدان میں ان کے اوپر دستر خوان بچھایا گیا۔ ابو مسلم خراسانی، اس کے جرنیلوں اور عباسیوں نے اس چیختے کراہتے زخموں سے چُور ہجوم کے اوپر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ چیخوں کے شور سے کھایا جانے والا کھانا کس قدر لطف اندوز ہوگا اس کا وہی لوگ قیامت کے دن بتائیں گے جنہوں نے اسے کھایا تھا۔ مجھے تو سوچ کر بھی اذیت ناک احساس ہوتا ہے کہ کوئی زندہ انسان کو تڑپتے ہوئے دیکھ کر مسرور ہوسکتا ہے۔ اس شعلہ بیان ”خراسانی“ نے امویوں کو قتل ہی نہیں کیا بلکہ ان کے سابقہ حکمرانوں کی قبروں کو کھدوا کر ان کی نعشیں باہر نکال کر ان کو سولی پر لٹکایا اور پھر انہیں ریزہ ریزہ کرکے پھنکوا دیا۔ وہ مہم جو علویوں یعنی اولاد سیدنا علی مرتضٰی کی حکومت کی راہ ہموار کرنے کے لئے چلائی گئی تھی اس کو ”عباسیوں“ یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد نے اپنے حق میں ہموار کرلیا۔ علویوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور عباسی حکمران بن بیٹھے، ان کا پہلا حکمران اس قدر ظالم اور جابر تھا کہ اس کا لقب ہی ”سفاح“ یعنی سفاک انسان پڑ گیا۔ ابو عباس السفاح نے تو شعلہ بیان خطیب ابو مسلم خراسانی سے اچھے تعلقات رکھے، اس کے ایک سو بتیس ہجری سے ایک سو چھتیس ہجری کے چار سالہ اقتدار میں ”خراسانی“ حکومت کے اہم عہدے پر فائز رہا لیکن جیسے ہی ابو عباس کا بھائی ابو جعفر منصور دوسرا عباسی حکمران بنا تو اس نے اس شعلہ بیان پر نظر رکھنا شروع کی اور پھر اپنی حکومت کے دو سال بعد اسے بے دردی سے قتل کرادیا۔اس طرح ایک شعلہ بیان خطیب اور ماہر جرنیل جس نے حکومت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دیا گیا۔ خطابت اور وہ بھی جوش خطابت ایک خداداد صلاحیت اور فن ہے لیکن پُرجوش خطابت اور شعلہ بیانی وقتی طور پر تو اثر انداز ہو سکتی ہے اس کے دیرپا اثرات نہیں ہوتے، انبیاء کرام علہیم الصلوة والسلام بھی خطیب تھے لیکن دھیمے لہجے اور پُروقار انداز کے خطیب، جہاں ضرورت پڑتی ان کا لہجہ بلند اور آواز میں جوش پیدا ہوتا لیکن عموماً سادہ اور آسان انداز میں ان کا خطاب ہوتا تھا۔ کیونکہ ان کی خطابت میں بنیادی عنصر جوش اور جلال نہیں بلکہ ”صدق مقال“ ہوتا ہے۔ زبان سے نکلنے والی سچی بات جیسے ہی میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے الفاظ مقدسہ ادا ہوتے تھے فوراً دل پر اثر کرتے تھے اور ہر ہر لمحہ ان کے اثرات بڑھتے رہے اور آج بھی جو پڑھتا ہے سر دھنتا ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے بھی اللہ تعالی سے یہی دعا مانگی تھی کہ میرے لئے گفتگو اور خطابت کرنا آسان بنادے، تاکہ لوگ میری گفتگو سمجھ سکیں ، سیرت طیبہ کے تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام نے یہی روایت بیان کی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم اتنے آرام سے اور اتنا ٹھہر ٹھہر کر خطاب فرماتے تھے کہ ان کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے الفاظ گنے جاسکتے تھے۔ جب روز محشر کے عذاب سے ڈرانا اور تنبیہ کرنا مقصود ہوتا تو زبان مبارک سے لہجے کا جلال نمایاں ہو جاتا۔ جب گناہ کی زندگی ترک کرنے کا حکم دیتے تو لوگوں کو اللہ تعالی کی خشیت کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے آواز بلند فرماتے۔ اس وقت گردن مبارک کی رگیں نمایاں ہو جاتیں ورنہ عام طور پر پُرسکون اور پُروقار انداز میں خطاب ہوتا اور وہ بھی مختصر، بعض دفعہ ایک ایک فقرے کو دہراتے جاتے تاکہ سامعین اچھی طرح سن لیں اور سمجھ لیں۔ سامعین کی عقلوں کے مطابق ہی گفتگو کرنا حکمت ہے۔ (کلمو الناس علٰی قدر عقو لھہم) تاریخ مسلمانان ہند میں بڑے بڑے نامور خطیب گزرے ہیں۔ تحریک آزادی کے دوران جس نامور خطیب کا چرچا پورے ہندوستان میں تھا اور جس شعلہ بیان کو سننے کے لئے لوگ ساری ساری رات ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھے رہتے تھے وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری تھے ان کی جذبہ حریت سے لبریز تقریروں نے پورے ہند میں جذبوں کو آتش فشاں بنادیا تھالیکن جیسے ہی انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے فلسفہ و فکر اور دو قومی نظریئے کے خلاف زبان کو دل آزار ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تو لوگوں نے انہیں ووٹ دینے سے انکار کردیا۔ انگریزی بولنے والے اور رک رک کر تقریر کرنے والے ٹھہر ٹھہر کر آسان انداز میں بات سمجھانے والے محمد علی جناح کو دل کے قریب پایا اور انہوں نے شعلہ بیانی کی بجائے جذبہ ایقانی کو ترجیح دے کر پاکستان حاصل کرلیا۔ اقبال نے کہا تھا
لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب، مگر لذت شوق سے بے نصیب
بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا