• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک ایسے موقع پر جب پوری دنیا کو کورونا کی وبا کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے تھا اس وقت امریکی صدر نے ایک بدترین مثال قائم کرتے ہوئے عالمی ادارۂ صحت کی امداد بند کرنے کا اعلان کردیا جس سے نہ صرف اس ادارے کی عالمگیر سطح پر وبائوں سے لڑنے کی استعداد کم ہوگی بلکہ دنیا کے غریب ممالک کورونا کی وبا سے بری طرح متاثر بھی ہوں گے۔

اس سے پہلے معروف امریکی دانشور نوم چومسکی صدر ٹرمپ کو امریکی جمہوریت کیلئے شدید خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ نومبر 2020ءکا الیکشن ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں اور عالمی ادارۂ صحت کے خلاف کارروائی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

وہ ہر قیمت پر بڑی بڑی کارپوریشنوں، انشورنس کمپنیوں، دوا ساز کمپنیوں اور پرائیویٹ جیلوں کی کارپوریشنوں کے خلاف کوئی رائے عامہ ہموار نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہی کارپوریشنیں ان کے الیکشن جیتنے کی ضمانت ہیں، اسی وجہ سے وہ امریکی اکانومی کو ہر قیمت پر جلد از جلد کھولنا چاہتے ہیں حالانکہ امریکی سماج اس وقت کورونا وائرس کی شدید لپیٹ میں ہے۔ حالیہ وبا نے امریکہ میں صحت کی سہولتوں کی کمی کو لوگوں کے سامنے مکمل طور پر طشت ازبام کر دیا ہے۔

ڈیمو کریٹک پارٹی کا خیال ہے کہ حالیہ دو ٹریلن ڈالر کی امداد جو کہ وائرس کے متاثرین کے لیے منظور کی گئی ہے، کا زیادہ حصہ انہی کارپوریشنوں کو جائے گا تاکہ صدر ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کی راہ ہموار ہو سکے۔

امریکی سپریم کورٹ نے اپنے 2010ءکے ایک متنازع فیصلے میں جو پانچ چار سے منظور سے ہوا تھا، میں ان کارپوریشنوں کو الیکشن کے موقع پر پیسہ خرچ کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے، یوں یہ کارپوریشنیں دونوں پارٹیوں کی مہم میں بےانتہا پیسہ خرچ کرتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ آئندہ ہونے والی قانون سازی جو دراصل امریکی عوام کے تحفظ کیلئےہونی چاہئے، کو اپنے مفادات کیلئے کراتی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق صرف دواساز کمپنیاں ہر سال تین بلین ڈالر اور انشورنس کمپنیاں دو بلین ڈالر انتخابی مہم پر خرچ کرتی ہیں۔ امریکہ جو دنیا کا امیر ترین ملک ہے، وہ صحت پر جی ڈی پی کا 17فیصد خرچ کرتا ہے جو فرانس، جرمنی اور کینیڈا کے مقابلے میں دگنا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی تقریباً ساٹھ ملین لوگوں کے پاس یا تو صحت کی انشورنس نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس یہ انشورنس موجود بھی ہے تو وہ بالکل ناکافی ہے۔

کینیڈا جو صحت پر امریکہ کے مقابلے میں آدھے سے بھی کم بجٹ خرچ کرتا ہے، وہاں ریاست خود شہریوں کو سو فیصد صحت کی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ امریکہ کے تحقیقاتی ادارے لینسن کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر امریکی حکومت عوام کو صحت کی سہولتیں خود فراہم کرے تو نہ صرف یہ کہ ہر سال 68ہزار لوگوں کو اموات سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ صحت پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی 13فیصد کمی واقع ہوگی۔

اس تحقیق کے مطابق امریکی ریاست دوائیوں کی قیمتیں مقرر کرنے میں کوئی مداخلت نہیں کرتی اسی وجہ سے دوا ساز کمپنیاں امریکہ میں منافع کمانے والی سب سے بڑی کمپنیاں ہیں۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایچ آئی وی کی ایک دوا جو آسٹریلیا میں اس وقت آٹھ ڈالر میں فروخت ہو رہی ہے، امریکہ میں اس کی قیمت دوہزار ڈالر ہے، اسی طرح آج جب اسپین کے اسپتال میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی پیدائش پر 2333ڈالر کا خرچ آتا ہے جبکہ امریکہ میں یہ خرچ 14ہزار 9سو ڈالر ہے۔

حال ہی میں Reutersنے ایک رائے شماری کرائی جس میں تین چوتھائی لوگوں نے یہ رائے دی کہ صحت کی سہولتوں کی ذمہ داری امریکی ریاست کو اٹھانا چاہیے۔اگر ڈونلڈ ٹرمپ 2020ءکا الیکشن جیت گئے تو امریکہ میں جمہوری اداروں کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

آج امریکہ کی اشرافیہ جس میں تیل، اسلحہ، دواساز، انشورنس اور پرائیویٹ جیل خانہ جات کی کمپنیاں شامل ہیں، نے امریکی سماج پر غلبے کی تاریخی مثال قائم کرتے ہوئے امریکی عوام کو اس طرح اپنے تسلط میں لے لیا ہے کہ آج امریکہ کا کوئی شہری آزاد رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔

وہ تمام امیدوار جو نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے کوسوں دور تھے، ایک ہی رات میں ساتھ کھڑے نظر آئے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تمام امیدوار خاص مفادات کے تحفظ کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اور یوں انہوں نے مل کر اگلے الیکشنوں میں برنی سینڈر کو شکست سے دوچار کر دیا۔

ابھی جبکہ ساٹھ فیصد ریاستوں میں الیکشن ہونا باقی تھا، برنی سینڈرز نے اس اشرافیہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے لیکن اس کے باوجود برنی سینڈرز کی انتخابی مہم اتنی ہمہ گیر تھی کہ بائیڈن کو بھی برنی سینڈرز کی حمایت کے بغیر ٹرمپ کو ہرانا ناممکن دکھائی دیتا تھا یوں برنی سینڈرز نے ٹرمپ کو ہر قیمت پر شکست دینے کے لیے بائیڈن کی مکمل حمایت کا اعلان کردیا اور اس حمایت کے بدلے اپنے کچھ مطالبات بھی منوا لیے جس میں خاص طور پر مزدوروں کی فی گھنٹہ اجرت 15ڈالر، طالبعلموں کے تمام قرضوں کی معافی کے علاوہ یونیورسٹیوں کی ٹیوشن فیس کا خاتمہ بھی شامل ہے۔

تازہ ترین