• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذرا سوچیے… پاکستان میں اقتدار پر شب خون سب سے پہلے کس نے مارا تھا؟
جرنیلوں نے؟
نہیں پاکستان کی بیورو کریسی نے!
پاکستانی جرنیل تو دس سال پیچھے بیٹھے پاکستانی سیاست دانوں اور بیورو کریسی کا ”مجرا“ دیکھتے رہے، جب سیاست اور بیورو کریسی تھک گئی تو جرنیلوں نے خود گھنگھرو باندھ لئے!
بات بہت پرانی ہے۔ تفصیلات میں گئے بغیر مختصراً عرض کروں گا۔
اقتدار پر پہلا پنجہ ملک غلام محمد نے مارا، ملک غلام محمد لاہور میں پیدا ہوئے، علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ بھارت میں آج موٹر گاڑیاں بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ”مہندرا اینڈ مہندرا“ کے بانیوں میں سے ایک تھے، بعد میں ملک غلام محمد نے انڈین ریلوے اکاؤنٹس سروس میں شمولیت اختیار کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں ملک غلام محمد نے نواب آف بہاولپور کی نمائندگی کی اور اسی دوران لیاقت علی خاں سے ان کے تعلقات استوار ہو گئے۔ 1946 میں وہ متحدہ ہندوستان کی منسٹری آف فنانس میں شامل ہو گئے۔ لیاقت علی خاں اس حکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خاں نے ملک غلام محمد کو وزیر خزانہ بنا دیا۔ لیاقت علی خاں کی شہادت کے فوراً بعد ایک خالصتاً بیورو کریٹ پاکستان کا گورنر جنرل بن بیٹھا اور 1951 سے 1955 تک فالج زدہ ہونے کے باوجود ڈکٹیٹروں کی طرح حکومت کرتا رہا۔
دوسرے بیورو کریٹ چوہدری محمد علی تھے۔ یہ بھی پنجابی تھے۔ جالندھر میں پیدا ہوئے۔ برٹش ر اج کے دوران جتنے مسلمان سول سرونٹ تھے، چوہدری محمد علی سب سے سینئر تھے! پاکستان بنتے ہی انہیں سیکرٹری جنرل کا اعلیٰ ترین عہدہ دیا گیا۔ 1951ء میں انہیں وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ اگست 1955 میں یہ بیورو کریٹ پاکستان کا وزیراعظم بن گیا اور دو سال تک برقرار رہا۔
کہنے کو تو سکندر مرزا بھی بیورو کریٹ تھا! ”میر جعفر از بنگال کا پوتا! سکندر مرزا نے 1926ء میں فوجی نوکری چھوڑ کر انگریزوں کی پولیٹیکل سروس کو جوائن کر لیا تھا۔ ”برٹش انڈین“ مخلوط حکومت کے دوران 1946 جوائنٹ سیکرٹری دفاع بنایا گیا۔ 1947ء میں لیاقت علی خاں نے اسے سیکرٹری دفاع بنا دیا اور وہ 6 مئی 1954 تک اس عہدے پر فائز رہا۔ 1954 میں اسے گورنر مشرقی پاکستان بنا دیا گیا اسی سال اسے واپس بلا کر وفاقی حکومت کا وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔ ملک غلام محمد اپنی معذوری کے باعث گورنر جنرل کے عہدے سے فارغ ہوا تو جاتے جاتے یہ عہدہ سکندر مرزا کے سپرد کر دیا گیا۔ 1956 میں جب پاکستان ری پبلک بنا تو سکندر مرزا گورنر جنرل سے صدر بن گیا بالاخر جب ایوب خاں نے مارشل لا لگایا تو اپنے محسن اور مربی سکندر مرزا کو ٹھڈہ مار کر باہر کر دیا!
ایوب خاں کے بعد تین اور جرنیلوں نے مارشل لا لگایا اور آج تک عوام و خواص دونوں سے گالیاں کھا رہے ہیں مگر تاریخ کی کتابوں میں سازشوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے والے یہ بیورو کریٹ، معصوم اور محترم سمجھے جاتے ہیں!!
یہی صورتحال آج بھی ہے! سیاست دان اپنی حرکتوں اور کرتوتوں سے بدنام ہوتے ہیں، گالیاں کھاتے اور مقدمے بھگتتے ہیں۔ عدالتیں، میڈیا، عوام ہر کوئی ان کے پیچھے لٹھ لے کر پڑا ہوتا ہے، مگر کوئی اس بات کا جائزہ نہیں لیتا کہ جرم کی شراکت داری میں بیورو کریسی 51 فیصد کی حصہ دار ہوتی ہے۔ اس لئے کہ سیاست دانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اوپر مستقل نام خدا کا اور زمین پر بیور و کریسی کا ہوتا
ہے۔ حکومت کے اصل امانت دار تو افسر لوگ ہوتے ہیں۔ سیاست دانوں کی حیثیت تو کرائے دار سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اختیار اصل میں افسر شاہی کا ہوتا ہے، سیاست دان تو افسروں کو حصہ دار بنا کر ان سے لوٹ مار کرواتا ہے! سیاست دانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کے قصے اپنی جگہ درست… مگر بیورو کریسی کے کل پرزوں کی کرپشن کی داستانیں اپنی جگہ ہوش ربا ہیں۔ مثلاً ایک دوست بتا رہے تھے کہ آج کل بیورو کریسی کے افسروں کو پڑھانے والے ادارے کا ایک افسر 150سے زائد پلاٹوں کا مالک ہے! o …کبھی کسی نے سوچا کہ اگر بیورو کریسی ساتھ نہ دیتی تو NICL (نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ) میں اربوں روپے کا سکینڈل نہ ہوتا۔ o …بیورو کریسی مزاحمت کرتی تو EPHIDRINEکیس میں موسیٰ گیلانی اینڈ کمپنی اربوں کیسے کما لیتی؟ o …کبھی کوئی اس بات کی تحقیق کرے گا کہ FIA میں اے ایس بھرتی ہو کر، غریبوں کی اولاد ڈپٹی ڈائریکٹر بننے تک ارب پتی کیسے ہوگئی؟ o …کبھی کسی نے سوچا کہ یہ بیورو کریٹ اپنی سرکاری تنخواہ میں بچوں کو امریکہ برطانیہ میں کیسے پڑھا رہے ہوتے ہیں؟ یہ اتنی لمبی داستان ہے کہ کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں آج تمہید سہی، تفصیل پھر کبھی۔ مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک کو اجاڑنے میں عدلیہ، میڈیا، فوج، بیورو کریسی… سب نے اپنا اپنا کردار ادا کیا مگر اس تباہی میں 51 فیصد کی حصے دار صرف اور صرف بیورو کریسی ہے! بیورو کریسی ملک کے خزانے کی چوکیدار ہوتی ہے، مگر یہ خود ڈکیتوں کو خزانے تک پہنچنے کا رستہ بناتی ہے، ان کے ساتھ مل کر لوٹ مار کرتی ہے اور جب سب کچھ لٹ چکتا ہے۔ ڈاکو جا چکتے ہیں، تو چور چور کا شور مچا کر مظلوم اور معصوم بن جاتی ہے۔ بالکل ہرنام سنگھ کی بیوی کی طرح!! ہرنام سنگھ نئی شرٹ خرید کر لایا اور بیوی سے کہنے لگا کہ، قمیص کا کپڑا بہت نازک ہے، اسے ہمیشہ الٹی کر کے استری کرنا۔ صبح ہرنام سنگھ نے بیوی سے کہا کہ میں نے نئی قمیص پہن کر دفتر جانا ہے، استری کر لاؤ لیکن یاد رکھنا الٹی کر کے! پندرہ منٹ گزر گئے تو ہرنام سنگھ نے آواز دی، ”اتنی دیر ہو گئی … ابھی تک قمیص استری نہیں ہوئی؟“ بیوی نے دور سے جواب دیا ”میں کیا کروں… گلے میں انگلیاں بھی مار رہی ہوں… الٹی نہیں ہو رہی! الٹی ہو تو قمیص استری کروں!“ تو بھائی لوگو… یہ بیورو کریسی بھی اتنی سادہ ہے کہ سب کچھ الٹانے کے باوجود، اسے الٹی سیدھی کا نہیں پتہ!اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!!!
تازہ ترین