• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدید حساب کتاب سے پتا چلتا ہے کہ ستائیس جنوری 632کو سورج گرہن لگا تھا۔ شیخ بخاری کے نقل کردہ حوالے کے مطابق پیغمبر ِ اکرمﷺ کی حیاتِ مبارک میں سورج گرہن اُس وقت لگا جب آپ ؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا۔ لوگوں نے کہا کہ حضرت ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج کو گرہن لگا ہے۔

آپ ؐنے فرمایا کہ ’’سورج یا چاند کو کسی کی وفات سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن دیکھو تو اﷲ تعالیٰ کو یاد کیاکرو‘‘۔

کم و بیش 900سال بعد جرمن ماہرِ فلکیات، نیکولس کوپر نیکس نے تصور پیش کیا کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے ۔ کوپر نیکس کے تصور کو بعد میں گلیلیو نے ٹھوس شہادت سے ثابت کر دیا۔

گزرتی ہوئی صدیوں میں سائنسدانوں کی تحقیق سے اب ہم جانتے ہیں کہ چاند زمین کے گرد گردش کرتا ہے جبکہ زمین سورج کے گرد۔ اپنی گردش کے دوران یہ اجرامِ فلکی کسی نایاب لمحے ایک دوسرے کی سیدھ میں آجاتے ہیں۔ اس وقت ہمیں سورج یا چاند کو گرہن لگا دکھائی دیتا ہے۔

مذکورہ حدیث شریف نے ہمیں پندرہ سو سال پہلے بتادیا تھا کہ گرہن اس لیے نہیں لگتے کہ کوئی ناراض ہو جاتا ہے۔ اﷲ کے وضع کردہ قوانینِ فطرت کے مطابق سورج اور چاند گردش میں رہتے ہیں۔

یہ معروضات مجھے وائرس کی طرف لیے چلتے ہیں جس نے آج دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ وائرس کوئی بےجان مادہ نہیں، لیکن یہ معروف معنوں میں جاندار بھی نہیں ہے۔ وائرس کو اپنی افزائش کے لیے کسی جاندار خلیے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ خلیے پر حملہ کرکے اپنے جیسے وائرس تخلیق کرتا ہے۔

ایک وائرس عام طور پر نیوکلائی ایسڈ (آر این اے یا ڈی این اے) اور کچھ پروٹین کا بنا ہوتا ہے۔ چکنائی سے بنی ایک حفاظتی جھلی اس کا باہری خول تشکیل دیتی ہے۔ کورونا وائرس اسی قسم کا ایک وائرس ہے۔ جب ایک وائرس کسی جاندار خلیے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اسے اپنے آر این اے، یا ڈی این اے کی نقل کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔

اس طرح نئے وائرس پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات وائرل آر این اے کی نقل کرتے ہوئے خلیے غلطی کر دیتے ہیں۔ وہ تھوڑا سا مختلف آر این اے بنا دیتے ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ تبدیل شدہ آر این اے دوسرے جانداروں، بشمول انسانوں کو متاثر کرنے کی زیادہ صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ موجودہ عالمی وبا کا باعث بننے والا وائرس اسی طرح کے ارتقائی عمل سے گزر کر وجود میں آیا ہے۔

اس نے انسانی خلیوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔ کورونا وائرس جانور کے خلیوں کو متاثر کرکے اپنی نقل تیار کررہا ہے۔ حیوانی خلیے وائرل آر این اے کی 99.999فیصد درست نقل تیار کرتے ہیں تو بھی کھربوں نقول میں سے ہزاروں تبدیل شدہ ہوں گی۔

اس تبدیل شدہ آر این اے میں سے کچھ انسانی خلیوں کو متاثر کرنے کے قابل ہو جاتا ہے چنانچہ ممکنات کا اصول ہمیں بتاتا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں وائرس کا منتقل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

گزشتہ چند برسوں کے دوران دو اقسام کے کورونا وائرس، SARS اور MERSبھی جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہوئے ارتقاعی عمل سے گزرے اور انسانی خلیوں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت حاصل کرلی چنانچہ کسی نوول وائرس کا ارتقائی عمل سے گزرنا غیرمتوقع نہیں۔

حیوانی خلیوں میں داخل ہوکر کھربوں کی تعداد میں اپنی نقل کرتے ہوئے وائرس تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ پھر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔

یہ ہے وہ صورتحال جس کا انسانوں کو سامنا ہے چونکہ زندگی کے آغاز سے ہی وائرس جانوروں کو متاثر کرتے آئے ہیں، جانور، بشمول انسان ان کے خلاف لڑنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمارا جسم قوتِ مدافعت رکھتا ہے جو حملہ آور وائرس کے خلاف لڑتا اور اسے تباہ کردیتا ہے۔

خوش قسمتی سے انتہائی خطرناک وائرس دیر تک نہیں بچ پاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے میزبان جسم کو بہت جلد ہلاک کردیتے ہیں۔ اس کی ہلاکت کے بعد وہ خود کو تقسیم نہیں کر پاتے ہیں۔

چنانچہ میزبان جسم کی موت کے ساتھ ہی وہ خود بھی ختم ہو جاتے ہیں لیکن وہ وائرس جو زیادہ خطرناک نہیں، اور جو میزبان جسم کو ہلاک کرنے میں زیادہ وقت لیتے ہیں، وہ پھیلتے ہوئے خود کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ نوول کورونا وائرس کم ہلاکت خیزی رکھتا ہے لیکن اس کے پھیلنے کی شرح انتہائی تیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بہت خطرناک ہے۔

وائرس سے لڑنے کا ایک طریقہ ویکسین لگانا ہے۔ ویکسین ہماری قوتِ مدافعت کو توانا ہی نہیں کرتی بلکہ اسے وائرس کے خلاف لڑنے کے لیے تیار بھی رکھتی ہے۔ جسم میں داخل کی جانے والی ویکسین وائرس کے آراین اے کی غیرموثر کی گئی مقدار ہوتی ہے۔

جسم میں داخل ہونے پر یہ ہمارے جسم کے دفاعی نظام کو وائرس کو شناخت کرنا اور اسے تباہ کرنا سکھاتی ہے۔ کورونا وائرس سے یورپ اور شمالی امریکہ میں ہونے والی بہت زیادہ ہلاکتوں کے بعد عالمی سطح پر اس کی ویکسین کی تیاری کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں۔

افسوس، اسلامی دنیا اس کوشش میں شریک نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی تعلیم اس کی ترجیح نہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ دوسال کے اندر اندر ویکسین استعمال کے لیے دستیاب ہوگی جبکہ ہمیں بھی اس وبا سے سبق سیکھتے ہوئے ملک میں سائنسی تعلیم میں ترجیحی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔

تازہ ترین