• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بالآخر شفا ف انتخابات کا سفر تو شروع ہو چکا ۔ہمارا رخ صحت مند جمہوری عمل اور ملکی استحکام و خوشحالی کی طرف مڑ گیا ، بلکہ پہلا قدم بڑھانے کے لئے پاؤں میں جنبش بھی ہے ۔ملک میں دہرے قانون کی عملداری لپٹتی معلوم دیتی ہے ، اور جیسے قانون کی حکمرانی کا آغاز ہو اچاہتا ہے ، اس سے فراہمی ٴ انصاف کے چشمے پھوٹیں گے ، موجود ( بالعموم ) بدکردار وبد دیانت حکمراں طبقے کا احتساب ممکن ہو جائے گا۔ نظام ریاست چلانے کے لئے جتنی باکردار ، شفاف ، اہل اور باشعور ٹیم در کار ہے اس کی تشکیل کا عمل شروع ہونے کو ہے ۔ اس کار خیر کی تکمیل کوئی انتخابی عمل مکمل ہوتے ہی نہیں ہوجائے گی بلکہ نظر یہ آ رہا ہے کہ قبل از انتخاب یہ عمل جو کسی نہ کسی درجے پر حقیقتاً شروع توہو ا ہے، امکان غالب ہے کہ نسبتاً ایک معیاری پارلیمنٹ وجود میں آنے کے بعد یہ اس عمل کو تیز تر کرے گی ۔ ہماری بد قسمتی برسوں تک ہمارے مفادات کا خون کر کے رخصت ہوا چاہتی ہے ، اور خوش قسمتی کا دور شروع ہو نے کو ہے ، جس میں شروع ہوا احتسابی عمل جاری رہے گا اور حکمرانوں کی بددیانتی اور نااہلیت، جس کا رونا گھر گھر اور گاؤں گاؤں رویا جا رہا ہے ، میڈیا میں مسلسل زیر بحث رہے گا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اسٹیٹس کو کی موجودہ اشرافیہ کے سرخیل مکمل دیدہ دلیری سے ملکی معیشت برباد کر نے والے بے رحم احتساب کی جکڑ میں آ کر رہیں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ قابل رحم عوام ، تادم اقتدار مکمل بے رحمی سے لوٹ مار میں مصروف کرپٹ حکمرانوں سے الیکشن میں انتقام لینے کے قابل بھی ہیں یا نہیں ، عدلیہ اور میڈیا تو اپنے مطلوب کر دار کے مطابق فرائض کی انجام دہی میں سر گرم بھی ہیں اور چوکس بھی ۔ فوج نے اپنے روایتی طرز عمل کے بر عکس جو پیشہ ورانہ رویہ اختیار کر لیا ہے ، اس نے مطلوب تبدیلی بر پا کرنے کے امکانات کو یقین میں تبدیل کر دیا ہے ۔ اسی یقین سے مایوسی کے بادل چھٹ رہے ہیں ۔ ٹیکس چور ، قرض خور اور جعل ساز سیاست دانوں کی مرضی کے روایتی الیکشن کے انعقاد کو ممکن حد تک روکنے کے لئے اسی حد تک آئین کے آرٹیکلز62،63 کا نفاذ ایک حد تک ممکن نظر آرہا ہے ۔ یہ آئین کے وہ آرٹیکلز ہیں جن کا مقصد عام انتخابات کے ذریعے ایک شفاف ، معیاری اور اہل پارلیمنٹ کو وجود میں لانا ہے۔ آئین کی ان متعلقہ دفعات کا اطلاق، مطلوب بے داغ ، باکردار اور معیاری قانون سازی کر نے والی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی ، جہاں عوام دوست قانون سازی ہو گی ۔ اس کی صورت ایک تو یوں ممکن ہو گئی ہے کہ سپریم کورٹ میں جعلی ڈگری عمل در آمد کیس کی سماعت میں ، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سر براہی میں سہ رکنی بینچ نے اپنے حالیہ حکم میں کہا ہے”انتخاب لڑنے والے امیدوارآئین کے آرٹیکلز 62,63اور عوامی نمائندگی کے ایکٹ کی دفعہ99پر پورے اترنے چاہئیں اور عدالت دیانت دارانہ ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کی خواہش مند ہے “۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس تاریخی حکم میں واضح کیا ہے کہ متعلقہ عدالتیں بھی جعلی ڈگریوں سے متعلق مقدمات نمٹانے میں ناکام رہی ہیں ، لہٰذا ”ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان ان ججز کے خلاف کارروائی کریں ، صرف ٹھوس وجوہات کی بنا کر ہی مقدمات کی سماعت ملتوی کی جائے “۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ تاریخی حکم انتخاب کے انعقاد کو آئین کے مطابق بنانے کے لئے اہم ترین ہے جو اس ضمن میں عدلیہ کی سنجیدگی واضح کرتا ہے ۔ اس سے قبل سپریم کورٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابی امیدواری کے درخواست دہندگان کو آٹیکلز 62،63کی چھلنی سے گزارنے کا واضح حکم دے چکا ہے ۔ عدلیہ اپنے اس حکم میں کسی طور جزوی لچک کے لئے بھی تیار نہیں ۔ ووٹرز پولنگ کے روز لگی عوامی عدالت میں کس پارٹی اور کسی امیدوار کے بارے میں کیا فیصلہ کرتے ہیں ؟ ووٹ دینے کا رجحان کتنا روایتی بنیادوں پر ہوتا ہے او ر ان کے رویے میں کتنی تبدیلی آتی ہے ؟ یہ کتنا کتنا جتنا زیادہ ہوا اتنا ہی مطلوب تبدیلی برپاہونے کے امکانات میں اضافہ ہوگا ۔ سپریم کورٹ نے بہر حال آئین کی روشنی میں اپنے حالیہ احکامات سے عوامی عدالت کے ذریعے سٹیٹس کو دورکے روایتی انتخابات سے عوام کی”بغاوت“اور تبدیلی کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ ہر دو (سپریم کورٹ اور عوامی عدالت ) فیصلوں کے درمیان الیکشن کمیشن ، میڈیا اور ووٹرز کے باشعور سیاسی طبقے پر بھی بھاری قومی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی سیاسی تاریخ کے انتہائی نازک مر حلے پر اپنا کر دار سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ادا کریں ۔ اگر عوامی عدالت کے فیصلہ ساز ووٹرز نے پارٹیوں اور قائدین سے اندھی عقیدت، صرف تھانے کچہری کی روایتی ضرورت ، برادری اور مخصوص حوالوں کے گلے میں لٹکائے طوق نہ اتارے اور روایتی بنیادوں پر ہی ووٹ دینے کے مرتکب ہوئے تو سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے تاریخی احکامات اور میڈیا کی پیدا کی گئی بیداری کے اثرات کو محدود کر نے میں تباہ کن کردار ادا کریں گے جو خود کشی کے مترادف ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خود عوام جو اپنے اپنے حلقوں میں عوامی نمائندگی کے خواہش مند امیدوار ں کے ماضی و حال جن کی تفصیلات سے وہ بخوبی واقف ہیں ، ان پر کڑی نظر رکھیں اور منفی تفصیلات کو طریقے سے عام کر دیں ۔ ا ن کی پوزیشن (کردار ) آئین کے آرٹیکلز 62،63میں بیان کیے گئے امیدوار کے معیار سے متضاد اور متصادم تو نہیں ، اس پر چیک فقط الیکشن کمیشن اور میڈیا کی ہی ذمہ داری نہیں اس میں ووٹرز کا بھی بڑا اہم کردار ہے ۔ اگر ووٹرز کا ایک بڑا فیصد اپنی پارٹیوں اور سیاسی قائدین سے روایتی عقیدت و وابستگی کو امیدوار کے کردار واہلیت کی کسوٹی پر پرکھ کر ووٹ دینے کے روایتی رویے کی قربانی دے کر نئی اور مطلوب بنیاد پر ووٹ دینے پر آمادہ ہو گئے تو کوئی وجہ نہیں کہ اتنے ذمہ دار امیدوار کامیاب نہ ہوں جو پارلیمنٹ کو کسی بحران سے دوچار نہ ہونے دیں گے ۔ ان کا کردار ، شفافیت اور ذمہ دارانہ طرز عمل ، سب سے بڑھ کر ووٹرز کا حقیقت پسندانہ فیصلہ معیاری پارلیمنٹ کو وجو دمیں لانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گا ، جس کے پاکستان کے لئے برکات و ثمرات اتنے خوش کن ہو ں گے کہ گزشتہ کئی تلخ عشروں خصوصاً حال ہی میں ختم ہونے والی حکوت کے دور کی اذیتوں اور تکالیف کا مداوا ہو جائے گا ، جس کیلئے قدرت نے تو مدد فرما دی کہ حکومت کے تمام تر جمہوریت کش اقدا مات کے باوجود عوام کو ایک بار پھر یہ سنہری موقع مل رہا ہے کہ وہ عوامی عدالت کے فیصلے میں گلے سڑے اور ملکی و عوامی مفاد سے متصادم نظام کے پرخچے اڑا کر پاکستان کو صراط مستقیم پر ڈال دیں ۔ حی علی الفلاح حی علی الفلاح ۔
تازہ ترین