مجیب الرحمن صدیقی
سیّاحت کا جسے ہے شوق پھرتا ہے وہ شہروں میں
کتب بینی ہے سیر اپنی، کتابیں ہیں چمن اپنا
طلبہ کے لیے فرصت کے اوقات کا صحیح استعمال کتب بینی ہے۔ انٹرنیٹ کتابوں کا نعم البدل نہیں ہوسکتا اور سائبر کیفے لائبریریوں کا متبادل نہیں ہوسکتے۔ یقیناً انٹرنیٹ پر معلومات کا خزانہ موجود ہے، لیکن یہ عام طالب علم کی دسترس سے باہر ہے۔ اس کے علاوہ مطالعہ کتب میں جو مزا، چاشنی اور آسانی ہے، وہ الیکٹرونک ریڈنگ میں نہیں ہے۔
اس حقیقت سے کوئی بھی صاحبِ فہم و فراست انکار نہیں کرسکتا کہ طلبہ خصوصاً نوجوان نسل مستقبل کی معمار ہے، لیکن افسوس کہ مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت اور کردار کی تشکیل و تعمیر پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی، نتیجتاً طلبہ کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے ہتھیار آگئے اور درس گاہوں کا تقدس اور اساتذہ کی تعظیم ختم ہوگئی، لہٰذا ان اسباب و عوامل کی ضرورت آج بھی اپنی جگہ موجود ہے جو طلبہ اور نوجوان نسل کو صحیح خطوط پر تعمیر و ترقی کی جانب گامزن کرسکیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے اداروں کی شدید کمی ہے، جن کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں پرکھنے اور انہیں پروان چڑھانے کا موقع مل سکے۔ وہ اپنے فاضل اوقات فضول مشاغل میں برباد کردیتے ہیں، حالاں کہ ان ہی اوقات کو مفید کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ طلبہ کی بے راہ روی کی ایک وجہ ان کے فرصت کے اوقات کا غلط استعمال ہے۔
نام ور عالمی مفکر ارسطو نے کہا تھا۔ ’’اگر تم عظیم بننا چاہتے ہو تو اپنی فرصت کے اوقات ضائع نہ کرو۔‘‘
ارسطو کا یہ قول صد فی صد درست ہے اور ہمارے طلبہ و نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اوقات فرصت ضائع نہیں کرنا چاہتی، مگر اسے وہ وسائل دستیاب نہیں، جن سے وہ اپنی فرصت کے اوقات کا صحیح استعمال کرسکے۔
طلبہ اور نوجوانوں کے کردار کی تشکیل و تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اپنی تاریخ، تہذیب و تمدن، ملّی ورثے، مذہبی اقدار اور جدید علوم سے آشنا کیا جائے، مگر ہمارے ہاں جدید علوم سے متعلق کتابوں کا ذخیرہ نہیں ہے، جو کتابیں قومی زبان میں دستیاب ہیں بھی تو وہ بہت پرانی ہوچکی ہیں، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور صاحب ثروت طبقہ مل کر ایسے ادارے قائم کریں جن میں جدید علوم کی کتابوں کا ترجمہ کیا جائے اور ان کے عام ایڈیشن شائع کیے جائیں تاکہ طلبہ اور نوجوان انہیں آسانی سے خرید سکیں۔
یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں ملکی اور ثقافتی تاریخ سے متعلق اتنی کتابیں دستیاب نہیں ہیں، جتنی کہ ہونی چاہئیں، جب طلبہ اور نوجوان اپنے مذہب اور ملکی و ثقافتی تاریخ سے پوری طرح واقف نہیں ہوں، انہیں اپنے اسلاف کے کارناموں اور اوصاف کا علم نہیں ہوگا تو پھر وہ اپنی قوم و ملک کے لیے کس طرح اصلاحی اور تعمیری کام سر انجام دے سکیں گے۔
طلبہ اور نوجوان نسل کی رہبری کے لیے ضروری ہے کہ ملک کے دانش وروں، ماہرین تعلیم اور صاحبانِ علم کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم مہیّا جائے جہاں تحقیق اور اتفاق رائے سے مذہب تاریخ اور دوسرے جدید علوم سے متعلق کتابیں تصنیف و تالیف کی جائیں۔ اس طرح ہمارے طلبہ اور نوجوان نسل میں اپنی تاریخ کے مطالعے اور جدید علوم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگا اور وہ فرصت کے اوقات فضول مشاغل میں ضائع نہیں کریں گے۔
معمارانِ وطن اپنے فرصت کے اوقات فضول مشاغل میں برباد نہ کریں بلکہ اپنی نصابی کتب کے ساتھ ساتھ مذہب، تاریخ اور جدید علوم سے متعلق انہیں جو لٹریچر بھی دستیاب ہو، اس کا مطالعہ کرتے رہیں۔ یہ صرف ان کی اپنی ذات کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری قوم اور ملک کے لیے بھی سودمند ثابت ہوگا۔
لو، جان بیچ کر بھی جو علم و ہنر ملے
جس سے ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملے