• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے انتخابات کے بارے میں امریکی لب ولہجہ خاصا محتاط اور بظاہر غیرجانبدار نظر آتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا موٴقف بھی یہی ہے لیکن امریکی تھنک ٹینک کے پلیٹ فارم سے گفتگو کرنے والے باخبر دانشور، سابق سفیر اور تجزیوں کے ماہرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی شخصیات کی جیت یا شکست کے بجائے اس مرتبہ امریکہ کو پاکستانی آئین، پارلیمینٹ اور دیگر ریاستی اداروں کے مضبوط و مستحکم کرنے میں دلچسپی ہے کیونکہ پاکستان میں ریاستی ادارے ناکام ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر رائن کروکر کے بھی یہی خیالات ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ناکام ریاست بننے کی سمت میں جا رہا ہے ابھی ناکام ریاست نہیں بنا لہٰذا روک تھام اور ریاستی اداروں کا استحکام ضروری ہے۔یکم اپریل کو امریکی تھنک ٹینک کونسل آف فارن ریلیشنز نے امریکی میڈیا کیلئے ایک ٹیلیفونک نشست کا اہتمام کیا تھا جس میں پاکستان اور عراق میں امریکہ کے سابق سفیر رائن کروکر اور کونسل کے ایک ماہر اسکالر ڈینیل مارکی نے پاکستان کے انتخابات کے حوالے سے اپنی ماہرانہ رائے بھی دی اور صحافیوں کی جانب کے اٹھائے گئے سوالوں کے جواب بھی دیئے۔ سفیر رائن کروکر نے جن ایام میں عراق اور پاکستان کے فرائض ادا کئے اس سے ان کی باخبری، اہمیت اور افادیت کا اندازہ ہو جاتا ہے جبکہ ڈینیل مارکی بھی کونسل کے سینئر فیلو اور پاکستانی امور کے ماہر ہیں اور علامہ طاہر القادری کی کینیڈا سے دوبارہ پاکستان واپسی کے امور سے لیکر حال ہی میں پاکستان کا دورہ کر کے خود کو معمولی تفصیلات تک سے باخبر رکھے ہوئے ہیں۔ ان دونوں امریکی حضرات نے پاکستانی الیکشن کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ الیکشن پاکستان کے ریاستی اداروں کے مستقبل کیلئے بھی انتہائی اہم ہیں جو کہ فی الوقت بہت کمزور ہیں۔ 40 منٹ کی اس میڈیا کانفرنس کال میں سابق سفیر رائن کروکر اور سینئر فیلو ڈینیل مارکی نے جو کچھ بیان کیا اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
(1)امریکی شخصیات کی ہار جیت میں دلچسپی کے بجائے جمہوری اداروں کے استحکام اور تسلسل میں دلچسپی رکھتا ہے۔ (2)گوکہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے لیکن اس کے جمہوری ادارے کمزور ہیں جو اسے ناکام ریاست بنا سکتے ہیں لہٰذا پاکستان کو ناکام ریاست بننے سے بچانا ہو گا۔ (3) پاکستانی فوج کو انتخابات یا سیاسی نظام میں مداخلت یا اپنے اثرورسوخ دکھانے کا کوئی ارادہ یا کشش نہیں البتہ امن وامان کو لاحق خطرات کی صورت میں فوج امن کے سلسلے میں ذمہ داری ادا کر سکتی ہے۔ (4) ابتدائی تخمینوں کے مطابق گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے اتحادی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے جبکہ بلاول زرداری اور پی پی پی کے اتحادی 40 نشستوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔40 نشستوں سے انتخابات میں محرومی سے پی پی پی کو اپوزیشن میں بیٹھنا ہو گا بلکہ صدر زرداری بھی دوبارہ صدر نہ بن سکیں گے۔ (5) عمران خان کی تحریک انصاف حکومت تو نہیں بنائے گی لیکن وہ اتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے کہ وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک ”کنگ میکر“ کا رول اداکر سکے۔(6) پرویز مشرف کی واپسی کے بعد کی صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں انہیں مشکل صورتحال اور خطرناک دشمنوں کا سامنا ہے ان کی ساکھ اور عزت امریکہ میں زیادہ ہے بہ نسبت پاکستان کے، پرویز مشرف زمینی حقائق سے بے خبر دکھائی دیتے ہیں ان کی سیاسی پارٹی بھی منظم نہیں اور وہ الیکشن کے نتیجے میں بھی کوئی سیاسی اثرواہمیت حاصل کرتے نظر نہیں آتے یعنی وہ کوئی زیادہ نشستیں حاصل کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان کی انتخابی صورتحال کا تجزیہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں یہ پیش گوئی بھی کی ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی مخلوط اتحادی حکومت کا امکان ہے جو بڑی کمزور ہو گی اور جسے امن وامان اور معیشت بہتر کرنے کے چیلنج سے نبٹنے میں دشواری لاحق رہے گی۔ پاکستان کے انتخابات میں امریکہ کی دلچسپی اور اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے سفیر رائن کروکر اور پاکستانی امور کے ماہر ڈینیل مارکی کا موٴقف ہے کہ امریکہ کیلئے پاکستان کا استحکام خطے میں بڑا ضروری ہے۔180 ملین آبادی کا ایک ایٹمی ملک جس کا افغان مسئلے میں رول انتہائی ضروری ہے اور افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء میں بھی اس کے تعاون کی لازمی ضرورت ہے جبکہ مختلف اور متعدد گروپ پاکستانی ریاست کے خلاف سرگرم ہیں۔ طالبان کی کراچی میں موجودگی انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں نہ تو ایسے کوئی چہرے سامنے آئیں گے جو امریکہ کیلئے مشکلات پیدا کریں اور نہ ہی 2014ء میں امریکی فوج کے انخلاء میں پاکستان کی جانب سے کوئی رکاوٹ درپیش ہو گی۔رہی بات قرضوں اور بدحال معیشت کی تو اس کیلئے الیکشن کے بعد بننے والی حکومت کے آئی ایم ایف سے ”بیل آؤٹ“ حاصل کرنے میں امریکہ اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتا ہے۔ ویسے بھی الیکشن کے بعد جنرل کیانی، چیف جسٹس افتخار چوہدری اور صدر آصف زرداری چند ماہ میں ریٹائر ہو کر اپنی جگہ ”نئے چہروں“ کیلئے خالی کر دیں گے جس سے امریکہ اور پاکستانی عوام کو ڈیل کرنا ہو گا جبکہ افغانستان اور طالبان کے معاملات پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی کمی کا ذکر بھی ان دونوں دانشوروں نے واضح الفاظ میں کیا ہے۔
ان مذکورہ بالا معروضات میں کوئی ایسی نئی بات نہیں کی گئی جو اہل پاکستان سے پوشیدہ ہو، فرق صرف یہ ہے کہ یہ صورتحال دو ماہر امریکیوں نے اپنے اپنے وسائل اور معلومات کی بنیاد پر کی ہیں اس گفتگو کے دوران میں نے ایک مرحلہ پر کراچی میں طالبان کی موجودگی اور افغانستان سے امریکی فوجی انخلاء پر انتخابات کے اثرات کے حوالے سے سوال کیا تو ان دونوں امریکیوں نے کراچی جیسے اہم شہر میں طالبان کی موجودگی کو قابل تشویش بیان کیا مگر کسی بڑے خطرے کی پیشگوئی کئے بغیر کہا کہ امریکہ کو کوئی مشکل پیش آنے کا امکان نہیں۔ پاکستانی الیکشن کے بارے میں نتائج کی پیشگوئی اور الیکشن سے پاک امریکہ تعلقات پر اثرات کے حوالے سے یہ پہلا تجزیہ ہے جو امریکی سوچ کی ترجمانی اور تخمینے پیش کرتا ہے۔ گہری دلچسپی اور اہم امریکی مفادات کے باوجود امریکی خود کو کسی پارٹی یا شخصیت کیلئے نرم گوشہ بیان کرنے سے جان بوجھ کر گریز کر رہے ہیں کیونکہ یہ پاکستانی الیکشن انتہائی اہم ہیں لہٰذا امریکہ محتاط ضرور ہے مگر وہ کوئی ایسی تبدیلی نہیں چاہتا جوخطے میں امریکی مفادات اور فوجی انخلاء میں رکاوٹیں پیدا کرے۔ امریکہ کے پاکستانی بھی پاکستان کیلئے اس الیکشن میں پُرامن اور دیانتدارانہ ووٹنگ کی دعا کر رہے ہیں حالانکہ سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود نادرا اور الیکشن کمیشن اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے بارے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ سفارت خانے اور قونصل خانے کا عملہ تاحال پولنگ کے انتظامات سے بے خبر ہے۔ نادرا کے چیئرمین طارق ملک بھی امریکہ کے رہائشی ہیں اور صدر زرداری کی مہربانی کے باعث پاکستان میں اس اہم ذمہ داری پر فائز ہیں انہیں اوورسیز پاکستانیوں کے معاملات اور مسائل کا بخوبی علم ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایات کو انتظامی مسائل کی آڑ لیکر تاخیر کے ذریعے ناقابل عمل بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
تازہ ترین