• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ کوئی بھی خوشی چھپانے سے بھی نہیں چھپا سکتا۔ انسان ہی کی یہ بانکی ادا ہے کہ وہ خوش تدبیر بھی ہے کہ اپنی خوشی موقع بہ موقع ڈھونڈنے کو بے تاب رہتا ہے۔ یہ بھی انسان کی خوبی ہے کہ وہ کیسے بھی حالات ہوں اپنے خوشی کے تہوار زندگی کے اولین درجے پر اور مذہبی تہوار اعلیٰ درجے پر رکھتا ہے۔ پھر مذہبی تہوار کی خوشی وہ ایسے جذباتی جوش سے مناتا ہے کہ اسلامی ارکان کی بجا آوری ہو رہی ہے۔ خوشی کے معنوی پہلو دیکھے جائیں تو وہ ایک روحانی سرشاری کے ساتھ مشروط ہیں۔ معاشرتی اطمینان بھی خوشی کیلئے لازم ہے۔ خوشی سے زیادہ آپ کو روحانی و دلی سکون ہو تو خوشی منانے کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے مگر اگر دنیا میں، ملک و شہر میں معاشرتی ماحول میں تنائو کی کیفیت ہو تو خوشی کے ماحول کو جوش کی بجائے سادگی میں ڈھال دینا چاہئے کہ لچک پیدا کرنا بھی تو کسی چڑیا کا نام ہے۔ خوشی اور تہواروں کا جوش ہمارے حواس کو باختہ کردیتا ہے اور ہم نکل پڑتے ہیں صرف اپنے چائو پورے کرنے۔ حالانکہ ہمارا عید کا تہوار مسرت کے ساتھ ساتھ مذہبی رنگ بھی لئے ہوئے ہے۔ اگر اس میں مذہبی رنگ نہ ہوتا تو آ پ نبی پاکؐ مدینہ کے لوگوں کو کھیلتے کودتے دیکھ کر ان کے ماحول میں تبدیلی نہ کرتے بلکہ آپؐ نے انہیں یہ تہوار مناتے دیکھا تو فرمایا کہ اللہ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرر کئے ہیں ایک عید الاضحیٰ اور دوسرا عید الفطر کا دن۔ یہ دو مذہبی تہوار مسلمانوں کے آپس کے بھائی چارے، قومی و ملی میل جول اور اسلام کی صاف ستھری تعلیمات کے مطابق ہیں آپؐ کی سیرت طیبہ اور شریعت کے حکم کے ساتھ، اس میں دنیاوی خوشیاں بھی ہیں تو دینی اجر و ثواب بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ خوشی کے تہوار اچھے کھانوں اور نئے لباس کے ساتھ اور آپسی میل ملاپ کے سات سجتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے نبیؐ بھی عید کی خوشی منانے کو مسلمانوں کیلئے اہم سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ عید پر کچھ بچیاں جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں تو اسی وقت حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اللہ کے رسول کے گھر میں یہ کیا گایا جارہا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ انہیں مت روکیں گانے دیں کیونکہ آج ہماری عید کا دن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عید کا دن صرف خوشیوں کا دن ہے رمضان ختم ہوچکا اور ہم آزاد ہوگئے ہیں اب گناہوں اور شرارتوں کی فکر نہیں کچھ بھی کریں مگر ہم خیروبرکت سے دراصل محروم ہوجاتے ہیں۔ عید کی خوشی اپنی جگہ مگر ہم نے برے حالات میں بھی خود کو خوش تدبیر بنا رکھا ہے آپ نے ہم سب نے دیکھی ہوں گی وہ تصاویر جس میں بازار کھلتے ہی لوگ خوش باش ہوکر گھوم پھر کر خریداری کرتے رہے لوگوں نے کسی بھی وبا کی پرواہ نہیں کی بلکہ افسوس ان لوگوں پر ہے جو اس قدرتی آزمائش کو سرے سے مانتے ہی نہیں جیسے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہہ دیا کہ یہ چائنز وائرس ہے اور ہمارے لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ امریکی شرارت ہے۔ بھئی اگر یہ قدرتی آفت نہیں تو کیا ہے اب سے پہلے بھی ایسی وبائیں پھوٹتی رہی ہیں۔ اس کورونا کو بہت سے لوگوں نے بہت ہی ہلکا لیا اواراسے خطرناک سمجھا ہی نہ گیا۔ مذہبی احکامات اور ذمہ داریاں مسجدوں میں پورا کرنے کی طر ف دھیان زیادہ رہا۔ بہت سے ملائوں نے تو محاذ بنا لیا کہ نمازیں مسجد ہی میں پڑھی جائیں گی۔ ابھی پچھلے دنوں لندن میں بہت سی جگہوں پر کھلی فضا میں آذان سنی گئی جس کی یوکے گورنمنٹ نے اجازت دی تھی۔ مختلف اوقات میں گنی گئی آذانوں پر مسلمان بہت خوش ہوئے اب ہمیں یہ فکر ہے کہ عید کی نماز کیلئے بھی نمازی جذباتی ہوکر عید کی نماز مسجد میں پڑھنے کی ضد کریں گے۔ عید کی تیاری کے سلسلے میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کرڈاکٹرز نے سر پکڑ لئے کہ ہم ان لوگوں کا علاج کیسے کریں گے اگر یہ ہی لوگ بیماری لے کر ہمارے پاس آئے تو؟ بہت سے لوگوں نے مذاق بھی بنایا کہ اتنے جم غفیر میں تو کورونا دم گھٹ کے مر گیا ہوگا۔ یہ بھی خیال ہے کہ جب کورونا کے مریضوں کی تعداد کم تھی یعنی 300کے قریب تھی تو لوگ خدا کے خوف سے عبادت کی طرف وقت بے وقت بھاگتے تھے مگر اب جبکہ مریضوں کی تعداد پاکستان میں 42,000ہے تو لوگوں کی فکر بھی جواب دے گئی تھی تبھی پھر تمام لوگ ذہنی دبائو سے نکلنے کیلئے عید کی شاپنگ کو نکلے۔ لگتا نہیں تھا کہ تھوڑے دنوں پہلے تک یہ ہی لوگ بھوک وننگ سے لڑ رہے تھے کیونکہ جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے عید کی خریداری کرنے والے نہ ہی مڈل کلاس ہیں اور نہ ہی ہائی کلاس ہیں۔ یہ تو غرباء سے اوپر کی کلاس ہے جنہیں ہر حال میں اپنے شوق پورے کرنے ہی ہوتے ہیں ۔ عید تو خیر ہر سال آتی ہے اور آتی بھی رہے گی مگر اس سال یہ عید وبا کے دنوں میں آئی ہے ہمیں ڈر ہے کہ اس آفت کے حال میں لوگ عید کیسے منائیں گے۔ ہمیں فکر ہے کہ بہت سے لوگ اس وائرس کو سیریس نہیں لے رہے۔ ڈاکٹرز اور ہسپتال کی پیدا کی ہوئی سازش سمجھ رہے ہیں جبکہ ماضی میں وبائیں پھوٹتی رہی ہیں۔ احادیث سے بھی کئی حوالے دیئے جاسکتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا! نہ معتدی بیماری سے بیماری ہوتی ہے نہ بدفال کوئی چیز ہے۔ نہ مقتول کی روح پیاسا پرندہ بنتی ہے اور نہ پھوک لگانے کا کوئی جانور ہے۔ مجذوم سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ یعنی کہ آپؐ نے آخر میں یہ بھی کہہ دیا کہ کسی بھی وبا سے ایسے بچو جیسے شیر سے بھاگ کر جان بچاتے ہو۔ طاعون یا دوسرے وبائی امراض ماضی میں آتے رہے ہیں ان پر یقین کرکے بچنا چاہئے۔ اب تو خیر آہی گئی عید لوگوں نے خوشی خوشی اسکی تیاری بھی کرلی ہے۔ سنت نبویؐ کی پیروی بھی مسلمان کرتے ہیں مگر مسلمانوں کو اندازہ ہونا چاہئے کہ آپؐ نے عید پر سادہ پرانے مگر صاف ستھرے لباس بھی پہنے ہیں نئے لباس کی پرواہ نہیں کی۔ خیر عید آئی ہے خوش آمدید کہیئے مگر عید کی نماز گھروں میں پڑھئے اور محفل لگانے کی ضد مت کیجئے۔ 833ہجری کا واقعہ ہے کہ طاعون کی وبا نے پورے قاہرہ شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور روزانہ 40لوگ موت کا شکار ہوتے تو شہر کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اجتماعی دعا کرتے ہیں وہاں ہفتوں دعا کی مگر واپس شہر پہنچنے تک مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ہمارے لوگ اجتماعی نماز و دعا کا سلسلہ گھر سے بھی شروع کرسکتے ہیں۔ کوشش کیجئے عید بھی گھر پر ہی ہو۔
تازہ ترین