• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طیارہ حادثہ ، وجوہات سے متعلق بہت سی قیاس آرائیاں، کپتان کی کوتاہی کی طرف اشارے ، کیپٹن مسلسل 5یوم سے فلائٹس آپریٹ کرنے کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں تھے؟

کراچی (اسد ابن حسن) پی آئی اے طیارے حادثے کی وجوہات کے حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں جو زیادہ تر کپتان سجاد کی کوتاہی کی طرف اشارے کررہی ہیں۔ دوسری طرف طیارے کے ملبے سے ملنے والی تین کروڑ کی کرنسی کی ملکیت کا مسئلہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے کیونکہ اس رقم کے تین دعویدار سامنے آئے ہیں۔

حادثے کے حوالے سے بہت سی آڈیو اور ویڈیو میسجز بھی سوشل میڈیا پر گردش کررہے ہیں۔ ایک مبینہ حاضر سروس کپتان (جلال اوستھو) کا دعویٰ ہے کہ کپتان سجاد پانچ یوم سے مسلسل فلائٹس آپریٹ کررہے تھے۔ پہلے دن اُنہوں نے لاہور، مسقط، لاہور فلائٹ کی۔ اس کے بعد چار یوم سے وہ لاہور، کراچی لاہور فلائٹس آپریٹ کررہے تھے۔ اس حوالے سے مرحوم کپتان کے والد کا ایک بیان بھی سامنے آیا کہ سجاد 17 گھنٹے سے ڈیوٹی پر تھے۔

اس کے علاوہ وزیر ہوابازی ایک پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں تحقیقاتی ٹیم میں ایک ماہر نفسیات بھی شامل ہوگا جو کپتان کی ذہنی کیفیت ان کے لواحقین سے معلوم کرے گا۔ پھر اس کے بعد ایک ویڈیو میسج بھی منظرعام پر آیا جس میں ایک مبینہ کپتان (کیپٹن نتیش ارورا) کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں جہاز حادثے کی 4 وجوہات بتائی گئی ہیں۔ جہازلینڈنگ کے وقت رن وے سے صرف 5 ناٹیکل میل کی دوری پر 3ہزار 500 فٹ کی اونچائی پر تھا جبکہ اس کو قانون کے مطابق 1500 فٹ کی اونچائی پر ہونا چاہیے تھا۔ وہ درست پروفائل پر نہیں تھے۔

اے ٹی سی نے ان سے درست کہا تھا کہ جہاز کو 120 ڈگری پر ٹرن کرکے دوبارہ لینڈنگ کیئے آئیں، جس پر کپتان نے کہا ہم ٹھیک ہیں، ہم مینج کرلیں گے۔ اس موقع پر کپتان نے ایک بڑی غلطی کی۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ اپنے پروفائل پر پورے ہیں اور لینڈنگ کررہے ہیں جبکہ ایسا کسی اور دنیا کے کسی ایئرپورٹ پر ہوتا تو ایئرٹریفک کنٹرول لینڈنگ کی کبھی بھی اجازت نہ دیتا اور کہتا کہ آپ دوبارہ گواراؤنڈ کرکے لینڈنگ کریں۔ کپتان نے آخری وقت تک گو اراؤنڈ کرنے پر تاخیر کی جب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور اسی دوران کوپائلٹ نے جہاز کے فلیپ کھول دیئے اور شاید لینڈنگ گیئر بھی کھول دیا اور جہاز سنک ہوکر اس کے انجن رن وے سے چھو گئے۔

اس کے بعد انجن میں تھرسٹ آگئی اور جہاز نے دوبارہ اُٹھنا شروع کردیا اور گواراؤنڈ کا آغاز کیا مگر پھر اس کے انجن فیل ہوگئے اور اُنہوں نے اے ٹی سی کو بتایا کہ وہ دو ہزار کی بلندی مینٹین کرکے لینڈنگ کریں گے۔ اسی دوران اُنہوں نے اے ٹی سی کی کال کو اگنور کیا جس میں ان سے پوچھا جارہا تھا کہ آپ بیلے لینڈنگ کررہے ہیں جبکہ فرسٹ آفیسر کی خوفزدہ آواز بھی سنی گئی۔

بہت ساری غلطیاں اور ایس او پیز کی خلاف ورزیاں ہوئیں جو حادثے کی تباہی کا سبب بنیں۔پالپا ذرائع نے کہا ہےکہ ایک منصوبے کے تحت پائلٹ کیخلاف یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور تحقیقات ثابت کردے گی کہ اس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔

اس حوالے سے ایوی ایشن ایکسپرٹ اور سابق ایم ڈی پی آئی اے کا کہنا تھا کہ کپتان کا مسلسل جہاز اُڑانا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ایک کپتان چھ یوم تک 6 گھنٹے کی ایک فلائٹ کرکے اور پھر آرام کرکے دوسرے دن فلائٹ آپریٹ کرسکتا ہے۔ ہاں اس کو ساتویں دن ریسٹ یعنی چھٹی دیئے جانا لازم ہے جبکہ دوسری طرف دیگر کپتانوں کا کہنا تھا کہ کپتان سے مسلسل ڈیوٹی کروانا خلاف قانون ہے۔ اس کو آرام دینا لازمی ہے کہ اس کے ساتھ سینکڑوں لوگوں کی زندگیاں جڑی ہوئی ہیں اور اس کو ذہنی دباؤ میں نہیں ہونا چاہیے اور اس کو آرام دیا جانا چاہیے تاکہ وہ درست فیصلے کرسکے۔

دوسری طرف طیارے کے ملبے سے ملنے والی تین کروڑ روپے کی پاکستانی کرنسی کے تین دعویدار سامنے آئے ہیں جن میں دو کے پروفائل ایسے نہیں لگتے کہ وہ اتنی بڑی رقم کے مالک ہوسکتے ہیں اور تیسرا دعویدار ایک مشہور سماجی کام کرنے والی شخصیت کا نمائندہ ہے۔ اس حوالے سے ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ تین دعویدار تو ہیں اور وہ رقم کچھ جلی ہوئی اور کچھ گیلی ادارے کے پاس امانتاً محفوظ ہے۔ مگر اسٹیٹ بینک ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ اس کا کیا کرنا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے علم میں نہیں کہ تین دعویدار کون ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ کیپٹن سجاد مسلسل 6 یوم سے فلائٹس آپریٹ کررہے تھے، ان کو دو یوم کی رخصت بھی دی گئی تھی۔ واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک کے یہ قواعد ہیں کہ غیر ملکی کرنسی تو اسٹیٹ بینک کو اطلاع کرکے منی ایکسچینج والے ایک شہر سے دوسرے شہر لے جاسکتے ہیں، وہ بھی تمام دستاویزات کے ساتھ، ملکی کرنسی اتنے بڑے پیمانے پر ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہیں کی جاسکتی اور وہ غیر قانونی ہے۔

اس کی واضح مثال چند ماہ قبل کا ایک کیس ہے جب ایک خاتون نے اپنی تیار کردہ جیولری ایک خلیجی ملک کے سربراہ کو (رحیم یار خان میں) فروخت کی اور جب وہ فروخت کی گئی جیولری کی خطیر پاکستانی رقم لے کر کراچی آرہی تھیں تو فیصل آباد ایئرپورٹ پر ان کو روک لیا گیا اور مقدمہ درج کرکے ان کے اور ان کے مرد ملازمین کے خلاف مقدمہ درج ہوگیا۔

بعد میں خاتون کو ضمانت پر رہا کردیا گیا مگر مقدمہ ابھی بھی زیرالتوا ہے اور اگر مذکورہ تین کروڑ کی واپسی کے جو دعویدار ہیں ان میں سے کسی ایک نے یہ ثابت کردیا کہ وہ کرنسی اس کی ہے تو نہ صرف اس کے خلاف بلکہ اے ایس ایف اور ایئرلائن کے ملازمین کے خلاف بھی مقدمہ درج کرنا پڑے گا کیونکہ اسکیننگ مشین میں یہ رقم نظر آئی ہوگی۔

تازہ ترین