• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا سے بچاؤ کے لیے لاک ڈاؤن کا تجربہ پوری دنیا میں کیا گیا لیکن اب ترقی یافتہ اور ترقی پذیر سارے ہی ملک اپنے عملی اقدامات کی روشنی میں کورونا کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام ضروری سرگرمیوں کی بحالی پر متفق نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس وائرس کے ملک میں داخلے کے ایک ماہ بعد مارچ کے اواخر سے لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا، ابتدائی دنوں میں محنت کش طبقوں کی غذائی اور مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے گھروں پر امداد پہنچانے کے اقدامات بھی عمل میں لائے گئے لیکن تجربے نے ہمیں بھی یہی سکھایا کہ یہ بندوبست طویل مدت تک جاری نہیں رکھا جا سکتا چنانچہ لاک ڈاؤن میں بتدریج نرمی کا آغاز ہوا۔ تاہم اس کے نتیجے میں کورونا کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا، متاثرین اور اموات کی شرح سخت لاک ڈاؤن کے دنوں کے مقابلے میں واضح طور پر بڑھ گئی۔ لہٰذا صورتحال کے تفصیلی جائزے نیز لاک ڈاؤن میں مزید نرمی یا از سرنو سختی کے حوالے سے مستقبل کی حکمت عملی اور اقدامات طے کرنے کی خاطر گزشتہ روز وزیراعظم کی صدارت میں قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ صوبائی حکام وڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ اجلاس میں طے پایا کہ ملک بھر میں پیر تا جمعہ ہفتے کے پانچ دنوں میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ کاروبار کی اجازت ہوگی، کاروباری اوقات شام پانچ کے بجائے سات بجے تک ہوں گے لیکن شادی ہالوں، تعلیمی اداروں اور ریسٹورنٹس وغیرہ سمیت ایسے تمام شعبے جن میں خطرات زیادہ ہیں انہیں فی الوقت بند ہی رکھا جائے گا جبکہ ہفتے اور اتوار کو سارا کاروبار مکمل طور پر بند رہے گا۔ جن شعبوں کو بند رکھا جانا ہے ان کی مکمل فہرست کا اعلان جلد متوقع ہے۔ اجلاس میں گلگت بلتستان اور خیبر پختون خوا میں سیاحت کے شعبے کو فعال کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا جبکہ وزیر ریلوے شیخ رشید کی سفارش پر وزیراعظم نے مزید دس ٹرینیں چلانے کی منظوری بھی دے دی یوں اب ملک میں چالیس ٹرینیں مسافروں کے لیے دستیاب ہوں گی۔ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے پاکستان میں کووڈ انیس کی وبا کے حوالے سے حقیقی صورتحال ان الفاظ میں واضح کی کہ’’ کورونا وائرس مزید پھیلے گا، اموات بھی بڑھیں گی، کورونا کہیں جا نہیں رہا، کم از کم یہ سال ہمیں کورونا کے ساتھ ہی گزارنا ہوگا لیکن مکمل لاک ڈاؤن درپیش چیلنج کا حل نہیں، وائرس اور غربت دونوں مسئلہ ہیں لہٰذا لوگوں کو خود احتیاط کرنا ہوگی‘‘۔ وزیراعظم نے عوام کو متنبہ کیا کہ اگر انہوں نے پابندیوں میں نرمی کا مطلب یہ سمجھا کہ اب زندگی کے وہی رنگ ڈھنگ بحال کیے جاسکتے ہیں جو کورونا سے پہلے تھے تو اس کے نتائج خوفناک ہوں گے اور احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی والے علاقوں میں کرفیو لگانا پڑے گا جس کے باعث معاشی سرگرمیاں معطل ہو جائیں گی اور مقامی لوگوں کی مشکلات بڑھیں گی۔ وزیراعظم نے اس امر کی صراحت بھی کی کہ کورونا کا اب تک کوئی علاج دریافت ہوا ہے نہ جلد اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے اس بناء پر احتیاطی تدابیر کی پابندی ہی صورتحال کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ حکومت کی جانب سے بیشتر شعبوں کی بحالی کے اس فیصلے کو کامیاب بنانے کی خاطر لوگ احتیاطی تدابیر یعنی ماسک اور سینی ٹائزر وغیرہ کے استعمال کو خود ہی یقینی بنائیں تاکہ قومی معیشت کی زبوں حالی کا سلسلہ جلد ازجلد رکے اور بحالی کا عمل شروع ہو۔ بیرون ملک سے واپسی کے خواہشمند تمام پاکستانیوں کو کم سے کم وقت میں واپس لانے کا فیصلہ بھی اجلاس میں کیا گیا، وزیراعظم نے بتایا کہ کورونا کے ٹیسٹ کی صلاحیت بڑھ جانے کے بعد اب ایسا کرنا ممکن ہے، یہ فیصلہ بھی اگرچہ وقت کا تقاضا ہے لیکن اس میں بھی تمام احتیاطی تدابیر کا ملحوظ رکھا جانا لازمی ہوگا۔

تازہ ترین