بلوچستان میں قریب ایک ماہ تک جاری بحث و بیانات اور تنقید کے بعد بلوچستان سے نیشنل فنانس کمیشن کے لئے غیرسرکاری رکن جاوید جبار رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوگئے، 1973 کے آئین کے تحت نیشنل فنانس کمیشن کے تحت وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم میں وفاق کے نمائندوں کے علاوہ ہر صوبے سے دو ارکان ہوتے ہیں، بلوچستان سے وزیراعلیٰ جام کمال خان کی سفارش پر صدر مملکت نے جاوید جبار کی تقرری کی منظوری دی تھی ، تاہم ان کی تقرری کے فوری بعد بلوچستان کے سیاسی رہمناوں اور وکلا کی جانب سے ان کی تقرری کے مخالفت سامنے آئے تھی اور ان کی تقرری کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا ، ان کی نامزدگی کے خلاف رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی اور بلوچستان کے وکلاء نمائندوں نے الگ الگ آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔
وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان نے جاوید جبار کے این ایف سی کے غیرسرکاری رکن کی حیثیت سے استعفیٰ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مفاد پرست عناصر نے جاوید جبار کے خلاف غلط خبریں پھیلا کر انکی ساکھ متاثر کی ایک ٹوئٹ میں وزیر اعلی جام کمال خان نے کہا کہ جاوید جبار نے رضاکارانہ طور پر استعفی دے دیا ہے یہ افسوس ناک واقعہ ہے جاوید جبار بڑھے لکھے ، تجربہ کار اور بلوچستان و این ایف سی پر کئی سالوں سے کام کررہے ہیں جنہوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا امید ہے کہ وہ جلد ہی اس بات کا احساس کریں گے ، جاوید جبار کی تقرری کو چیلنج کرنے والوں میں بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر و لسبیلہ گوادر سے رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی بھی شامل تھے۔
جنہوں نے جاوید جبار کی تقرری کو سابق ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان امان اللہ جنرانی ایڈوکیٹ کے زریعے چیلنج کیا تھا ، جاوید جبار پر سب سےزیادہ تنقید یہ ہوئی تھی کہ ایک تو وہ سندھ کے رہنے والے شہری ہیں ان کو بلوچستان کی طرف سے کیسے نامزد کیا جاسکتا ہے انہوں نے نہ تو بلوچستان دیکھا ہے اور نہ انہیں بلوچستان کے بارئے میں کوئی معلومات ہیں دوسری تنقید یہ سامنے آئی تھی کہ وہ ماہر معاشیات بھی نہیں ہیں۔
لہٰذا بلوچستان کے حقوق کا اتنے بڑئے فورم پر کیسے دفاع کرسکتے ہیں، سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی و رکن قومی اسمبلی نے اس تنقید کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا بلوچستان مین سوا کروڑ کی آبادی میں کوئی اس قابل نہیں کہ وہ این ایف سی میں بلوچستان کی نمائندگی کرسکے انہوں نے کسی اور صوبے سے تعلق رکھنے والے شخص کی بلوچستان سے این ایف سی کے لیے رکن کی حیثیت سے تقرری کو بلوچستان کے لوگوں کی توہین کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہا کہ اگر آج ایسا ہوا تو کل بلوچستان کے وزیر اعلی کی تقرری بھی باہر سے ہو گی ۔
جس کا وزیراعلیٰ جام کمال خان نے جواب دیا تھا کہ جاوید جبار بلوچستان کے بارئے میں نہ صرف جانتے ہیں بلکہ بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے مختلف فورمز پر بات کرتے رہے ہیں ، صوبے سے باہر سے ہونے والی جاوید جبار کی این ایف سی میں تقرری کوئی پہلی نہیں بلکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے جس پر اگرچہ تنقید اور احتجاج ہوتا رہا تاہم اس قدر تنقید اور احتجاج جو اس بار نظر آیا ماضی میں نظر نہیں آیا تھا ۔
جاوید جبار کی تقرری کی سینیئر وکلا کی جانب سے بھی مخالفت سامنے آئی تھی ۔ دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی دیگر جماعتوں نے بھی جاوید جبار کی تقرری کی مخالفت کی تھی، بلوچستان کے سینئر وکلاء نے جاوید جبار کے بلوچستان سے این ایف سی ایوارڈ میں نمائندگی سے مستعفی ہونے کو اگرچہ سراہا ہے لیکن کہا ہے کہ اس حوالے سے بلوچستان ہائیکورٹ میں دائر درخواست واپس نہیں لینگے کیونکہ یہ بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ نہیں، آئین کے آرٹیکل 160کے تحت صوبے کا حصہ کم نہیں کیا جاسکتا مگر کمیشن میں غیرآئینی اقدام کیے گئے این ایف سی ایوارڈ میں ایک ہاتھ سے حصہ دیکر دوسرے ہاتھ سے واپس لینے ، مشیر خزانہ کی شمولیت ، منڈی بہاؤ الدین سے خیبر پختونخوا کے رکن کی نامزدگی سمیت دیگر نکات شامل ہیں جن کے حل تک ہم آئینی درخواست واپس نہیں لینگے ۔
دوسری جانب سابق وفاقی وزیر جاوید جبار نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ، گورنر بلوچستان جسٹس (ر) امان اللہ یٰسین زئی ، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے انہیں این ایف سی ایوارڈ کے لئے بلوچستان کا غیر سرکاری رکن مقرر کیا لیکن سیاسی اتفاق رائے قائم نہ ہونے پر وہ اس عہدے پر کام کرنے سے قاصر ہیں البتہ وہ بلوچستان کی ترقی کے لئے رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دیتے رہیں گے ، جاوید جبار نے کہا کہ پاکستان کو کوئی بھی شہری خواہ وہ کسی بھی صوبے کا رہائشی ہو اگر اسے تعینات اور تجویز کرنے والی اتھارٹی اہل سمجھے وہ آئینی اور قانونی طور پر چاروں صوبوں سے این ایف سی یا کسی بھی صوبائی یا وفاقی باڈی کا رکن بن سکتا ہے میں بلوچستان کا باشندہ نہیں ہوں لیکن صوبے کی سیاسی اقتصادیات سے آگاہی رکھتے ہوئے بلوچستان کے بنیادی مسائل کا مقدمہ لڑنا چاہتا تھا میری تقرری پر بلوچستان سے کئی لوگوں نے میری حمایت اور تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی تھی ۔
یاد رہے کہ ملک میں اب تک آنے والے آخری این ایف سی ایوارڈ پر وفاق اور چاروں صوبے 2009 میں متفق ہوئے تھے اور 30 دسمبر 2009 کو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی موجودگی میں بلوچستان ، پنجاب اورخیبر پختونخواکے وزرا خزانہ اور سندھ کے وزیراعلیٰ نے اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کے ساتھ ایوارڈ پر دستخط کیے تھے ۔جاوید جبار کے مستعفی ہونے کے بعد اب تک وزیراعلیٰ بلوچستان کی جانب سے غیرسرکاری رکن کی نامزدگی سامنے نہیں آئی ہے دیکھنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان جاوید جبار کی جن بنیادون پر مخالفت کی گئی اس کے بعد صوبے کی نمائندگی کے لئے کن کو نامزد کرتے ہیں۔