• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
4اپریل کا دن تاریخ کے ہیرو کی یاد، اسکی شہادت پر اخبارات کے خصوصی صفحات کو پڑھ کر، دعائیں مانگ کر اور دنیا بھر میں اس کے کارناموں کا ذکر کر کے گزرا۔ایسے شخص کو کیو ں پھانسی دی گئی اور کیوں اس کو یاد رکھا جاتا ہے ۔یہ دو بہت بڑے سوالات ہیں۔دنیا میں کسی کو اس وقت تک یاد نہیں رکھا جاتاجب تک وہ دلوں پر حکمرانی نہ کر رہا ہو اور اس نے ایسے کام نہ کئے ہوں جس سے انسانوں میں تبدیلی رونما ہو۔ ایوب خان کی آمریت کو للکارنے والا پہلے ہی دن عوام کی آواز بن گیا۔ہر طرف بھٹو ہی بھٹو ہونے لگا۔طاقتور آمریت کے درودیوار ہلنے لگے ۔آخر کار فوجی جرنیل کو جانا پڑا اور پہلی مرتبہ لوگوں کو ووٹ کا حق ملا۔1970کے انتخابات میں جہاں ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی وہاں دوسری طرف بڑے بڑے برج الٹ گئے نواب،سردار،جاگیردار اور وڈیرے اپنی ضما نتیں بھی نہ بچا سکے۔
فوجی مداخلت اور جنرل یحییٰ خان کی غلط پالیسیوں کی بدولت ملک دو لخت ہوگیا۔شکست خوردہ ملک کی باگ ڈور ذوالفقار علی بھٹونے سنبھالی جس نے نہ صرف عوام بلکہ فوج کو بھی حوصلہ دیا ۔ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کیلئے ایٹم بم حاصل کیا ۔ بین ا لاقوامی طور پر مضبوط بنانے کیلئے اسلامی ممالک اور تیسری دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔
1973کامتفقہ آئین ملک کیلئے وہ خدمت ہے جو تاقیامت یاد رکھی جائے گی۔شہید بھٹو نے ر وٹی کپڑااور مکان کا نعرہ لگا کر غریبوں کو حوصلہ دیا۔غریبوں کو چھت دینا تاریخی کارنامہ تھا۔مزارعین کو زمین کا مالک بنایا ۔مزدور کو فیکٹری میں حصہ دار بنا دیا۔سرمایہ داروں کی طاقت کو کم کرنے کیلئے بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔جبکہ جاگیرداروں کو نکیل ڈالنے کیلئے اصلاحات نافذ کی گئیں۔یہ وہ اقدامات ہیں جسکی بنیاد پر لوگ بھٹو کو یاد رکھتے ہیں ۔میں تو یہاں تک کہوں گا کہ بھٹو کے بعد تمام سیاست بھی بھٹو کے نام پر اور بھٹو کی سوچ پر ہوئی اور آج بھی ہو رہی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے کھلے عام بھٹو کے فلسفے کو اپنی بنیاد بنایا ۔اور" زندہ ہے بھٹو زندہ ہے "کے نعرے کی بنیاد پر الیکشن لڑے۔جبکہ پی پی پی کے مخالفین نے بھٹوکا نعرہ تونہیں لگایا لیکن بھٹو کی سوچ اور غریبوں کیلئے کئے گئے اقدامات کو آگے بڑھایا ۔1977کے بعد آنے والی ہر حکومت نے غریب کا نعرہ لگایا اور سچ یہ ہے کہ غریب کی قسمت بدلنے کی کوششں کی میں کہتا ہوں کہ چاہے یہ کوششں بھٹو مخالفین نے کی چاہے بھٹو کی جاں نشینوں نے کی غریب کو تو فائدہ ہوا جس کا کریڈٹ صر ف اورصرف ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ پھر ایسے شخص کو پھانسی کیوں دی گئی۔ایسے شخص کو کیوں مارا گیا جو ملک کو ناقابل تسخیربنا رہا تھا۔ایسے شخص کوجھوٹے مقدمے میں ملو ث کیوں کیا گیا جو صرف اور صرف غریبوں کے حقوق کی بات کرتا تھا ۔اب تو یہ حقیقت بھی سامنے آ گئی ہے۔ کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو manageکیاگیا تھا ۔کتنی بدقسمتی ہے کہ ملک کے وزیراعظم کو پھانسی دینے کیلئے سپریم کورٹ کو استعمال کیا گیا ذوالفقار علی بھٹوکا قصور یہ تھا کہ اس نے کمزور پاکستان کو طاقتور بنایا۔
ایٹم بم کی بنیاد رکھنا کوئی معمولی اقدام نہیں تھا۔بھٹو کو علم تھا کہ وہ ناقابل جرم کا ارتکاب کر رہا ہے لیکن اس کو ملک عزیز تھا۔قوم کا مفاد اس کی ترجیح تھا۔اسلامی ممالک کی کوئی آواز نہیں تھی ۔اسلامی دنیا کے حکمران بڑی طاقتوں کے غلام تھے۔ بھٹو نے ان کو تیل کی طاقت کا احساس دلایا اور تمام اسلامی ممالک کے سربراہوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا۔بڑی طاقتوں کو بھٹو ایک بین الاقوامی وژنری لیڈر کے طور پر قبول نہیں تھا اور وہ ان کیلئے ناقابل برداشت تھا ذوالفقار علی بھٹوکو پاکستانی قوم سے جداکردیا گیا لیکن بھٹو کی آواز آج بھی زندہ ہے۔ہر سال 4اپریل کو بھٹو کے چاہنے والے اس کی برسی مناتے ہیں۔ہزاروں لاڑکانہ جاتے ہیں اور اپنے اپنے شہروں میں قرآن خوانی اور جلسے منعقد کراتے ہیں۔4اپریل 2013کا دن بھی اسی طرح گزرا- یہ دن ایسے حالات میں گزرا کہ بھٹو کی جدوجہد سے ملنے والی جمہوریت کا پودا مضبوط ہے میڈیا آزادی کی انتہا کو چھو رہا ہے عدلیہ اتنی آزاد اور خود مختار ہے کہ حکمرانی کا شائبہ ہوتا ہے - ذوالفقار علی بھٹوکی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو نے پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھالی 1988 اور 1993 میں وزیر اعظم منتخب ہوئیں بد قسمتی سے بے نظیر کو بھی شہید کر دیا گیا۔بھٹو کی شہادت کے بعد یہ بھی بہت بڑا سانحہ تھا۔ اتنے بڑے سانحہ کے باوجود بھٹو کے داماد آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور 2008 کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی- پاکستان کی تاریخ میں پہلے مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی - پاکستان جمہوری تاریخ میں ایک نئے دور سے گزر رہا ہے آزاد الیکشن کمیشن اور غیر جانبدار نگراں حکومت کے تحت 11مئی کو انتخابات ہو رہے ہیں نہ کسی کو نگراں حکومت پر شک ہے اور نہ الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام ہے-
بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی سرخرو ہے بینظیر بھٹو نے شہید بھٹو کا پرچم تھاما اور انقلاب برپا کر دیاآصف علی زرداری نے بینظیربھٹواور شہید بھٹوکی وراثت سنبھالی اور پانچ سال کیلئے پیپلز پارٹی کو ایوان صدر اور حکومت میں بٹھا دیا یہ سب ذوالفقار علی بھٹوکا دیا ہوا ہے -وہ غریبوں کی آواز تھا مزدورں کے حقوق دلانا اپنا فرض سمجھتا تھا-ملک کی تقدیر بدلنا اس کا مشن تھاجمہوریت اس کی منزل تھی۔ اسی لئے توبھٹو کو یاد رکھا جاتاہے ۔
تازہ ترین