• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر تعلیم سندھ اور پرائیویٹ اسکو ل ایسوسی ایشن نجی تعلیمی ادارے کھولنے کے معاملے پر آمنے سامنے آگئے ہیں، پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن 8جون سے نجی تعلیمی ادارے کھولنے پر بضد ہے مگر وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے اسکولوں کے کھولنے پر کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو پاکستان کی 14سال کی مضبوط معیشت کو نیشنلائزیشن کی پالیسی سے کاری ضرب لگا کر زمین بوس کر دیا۔ تمام بڑی صنعتیں، بینک، انشورنس کمپنیاں تھوک کی تعداد میں قومیا لی گئیں جس نے پاکستانی صنعتکاروں کو راتوں رات کنگال کر دیا تو دوسری طرف قومیائے گئے ادارے تنزلی کی طرف اور ساتھ ساتھ کرپشن کی ابتدا ثابت ہوئے۔ صنعتکاروں نے بیرونِ ملک اپنا سرمایہ منتقل کرکے صنعتی میدانوں سے ہاتھ اٹھا لیا۔ پھر ہمارے تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے سے دوسرا بڑا دھچکا لگا جو ہمارے بچوں کے تعلیمی معیار کو پستی کی طرف لے گیا۔ بھٹو کے دور میں کسی نے آواز تک بلند نہ کی۔ قوم کو دہرا نقصان اٹھانا پڑا۔ پھر مارشل لاکے دور میں ضیاء الحق کی قیادت میسر آئی۔ انہوں نے شروع میں تو ڈی نیشنلائزیشن کی طرف توجہ نہ دی مگر جب فیکٹریاں اور اسکول واپس کیے تو صنعتکاروں کی ڈھارس بندھی اور انہوں نے آہستہ آہستہ اپنا پیسہ واپس پاکستان لانا شروع کیا اور نئے نئے تعلیمی ادارے کھلنا شروع ہوئے اور دوبارہ نجی صنعتکاری بھی شروع ہوئی۔ سندھ میں آج بھی تعلیم کا برا حال ہے، سندھ کے بیشتر سرکاری اسکولوں میں یا تو وڈیروں کی بیٹھک ہے یا مال مویشی بندھے ہوئے ہیں، سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب کوٹہ سسٹم نافد کیا گیا تو اس وقت سندھ کی 60فیصد آبادی سندھی بولنے والوں پر مشتمل تھی جو دیہات میں رہتی تھی، یا وہ علاقے جہاں نہ بجلی تھی نہ ہی سڑکیں، جس کی وجہ سے یہ علاقے پسماندگی کا شکار تھے۔ اس طرح ان کو شہری آبادی کی طرح تعلیمی سہولتیں میسر نہ تھیں جو آج بھی حاصل نہیں ہیں کیونکہ سندھ حکومت نہیں چاہتی کہ وہ پڑھ لکھ کر آگے آئیں۔ دیہی علاقوں کے نوجوان چونکہ تعلیمی معیار پر سرکاری نوکریاں نہیں حاصل کر سکتے تھے اس لئے کوٹہ سسٹم نافذ کرکے ان کو اضافی نوکریاں دلانے کا بندبست کیا گیا جس سے شہری آبادی کے نوجوانوں کو جن میں اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی، کوٹہ سسٹم کی وجہ سے سرکاری نوکریوں سے دور کر دیا گیا۔ اول تو سندھی بولنے والوں کی اکثریت کی وجہ سے سرکاری نوکریاں بھی سندھی افسران ہی دیتے تھے، جس سے شہروں میں اردو بولنے والوں کو کم ہی چانس ملتا تھا۔ حالانکہ تعلیمی معیار کا اگر جائزہ لیا جائے تو اردو بولنے والے اس پر پورے اترتے تھے مگر اس اقربا پروری کی وجہ سے 95فیصد نوکریاں سندھی بولنے والوں کو مل جاتی تھیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

سندھ حکومت نے جب سے کورونا وائرس شروع ہوا ہے، تب سے آج تک وفاق کے ساتھ مل کر کوئی کام نہیں کیا، معیشت کے ساتھ ساتھ تمام تعلیمی اداروں کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں 5تعلیمی نظام کام کر رہے ہیں جس میں سرکاری اسکولوں میں کوئی نظام نہیں ہے۔ نجی تعلیمی اسکولوں کا نظام باہر سے لیا گیا ہے، یہ غیر ملکی نظام سے منسلک ہے۔ آغا خان اسکولوں کا نظام بھی بہتر ہے۔ مدارس کا بھی اپنا نظام ہے، وہ بھی دینی نظام کے ساتھ دنیاوی نظام بھی احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں حکومت اسکول کھولنے کیلئے زمین بھی مہیا کر تی ہے اور ٹیکسوں میں بھی رعایت دیتی ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں نہ تو نجی اسکولوں کیلئے زمین دی جاتی ہے نہ ہی دوسری سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں بلکہ ٹیکس پہ ٹیکس لگا کر مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس وقت پاکستان میں 85فیصد تعلیم نجی اسکولوں سے دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں رفاہی اداروں اور دینی مدارس نے بھی تعلیم دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے پاکستان میں بدقسمتی سے آن لائن کلاسوں میں بہت سی رکاوٹیں ہیں جس کی وجہ سے آن لائن کلاسوں اور امتحانات کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ ہمارے ہاں تعلیم کے معاملے میں بھی افسوسناک طرزِ عمل دیکھنے کو ملا۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل ہی تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تعلیمی اداروں کے معاملے میں سراسر غیر حقیقت پسندانہ طرزِ عمل اپنایا گیا اور تعلیم کو سرے سے اہمیت ہی نہیں دی گئی۔ اگر موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو ہمارے طالبعلموں کے پاس جس چیز کی کمی ہے وہ یہی آلات و سہولتیں ہیں، یعنی کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ۔ موجودہ حکومت لیپ ٹاپ اسکیم کو بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام، احساس پروگرام کی طرح جاری رکھے کیونکہ اسی بنا پر ہمارے طالبعلم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں نہ صرف جدید تعلیم و تحقیق میں آگے بڑھ سکیں گے بلکہ آن لائن کلاسوں سے بھی استفادہ کر سکیں گے۔ حکومتی طرزِ عمل سے لگتا ہے کہ دین اور تعلیم کسی کی ترجیح ہی نہیں حالانکہ دین اور تعلیم صنعتوں، بازاروں، مارکیٹوں، دفاتر اور بینکوں سے زیادہ اہم اور بنیادی انسانی ضرورت ہیں، اس لئے یہ ہماری پہلی ترجیح ہونے چاہئیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ممالک جہاں کورونا وائرس پوری شدت سے موجود ہے، جہاں اموات ہم سے زیادہ ہوئیں، جہاں لاک ڈاؤن ہم سے زیادہ سخت ہے وہاں بھی تعلیمی ادارے کھول دیے گئے یا کھولے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر فرانس، بلجیم اور دیگر یورپی ممالک میں مرحلہ وار تعلیمی ادارے کھولے جا رہے ہیں۔ برطانیہ میں یکم جون سے تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں سرے سے تعلیم کو نظر انداز کیا جا رہاہے۔

ہماری رائے میں تو تمام تعلیمی اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر کھولا جانا چاہیے جبکہ دینی تعلیم کے اداروں یعنی دینی مدارس کو تو بند ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا کیونکہ اس وبا سے نجات کیلئے صرف ظاہری اسباب و وسائل ہی کافی نہیں بلکہ وظائف، اعمال اور اللہ سے رجوع کرنے کا عمل ہی دراصل ہمارے لیے مشکل سے نجات کا ذریعہ ہے۔

تازہ ترین