معروف ماہرِ تعلیم، بے لاگ مقرّر اور علم دوست شخصیت پروفیسر انوار احمد زئی، مختصر علالت کے بعد کراچی کے مقامی اسپتال میں اتوار 31مئی کو 76برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان کی علمی شخصیت ہمارے لیے کسی سرمائے سے کم نہیں تھی۔ انہوں نے تعلیم کی ترقی و ترویج اور بہتری کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، جسے کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
پروفیسر انوار احمد زئی بھارت کے شہر، جے پور میں 18ستمبر 1944ءکو پیدا ہوئے۔ ہجرت کے بعد حیدرآباد،سندھ ان کا مستقر ٹھہرا، اس لیے ان کی ابتدائی تعلیم کا بڑا حصّہ حیدرآباد ہی میں مکمل ہوا۔ انوار احمد زئی نے انگریزی، اردو اور فارسی میں ماسٹرز کیا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور قانون کی اسناد کے بھی حامل تھے۔ یوں ان کے موضوعات کا تنوّع حیران کن ہے، وہ اپنی وسعتِ مطالعہ کے سبب مذہب اور متعلقاتِ مذہب پر اس قدر مہارت کے حامل تھے کہ ہر ایک موضوع پر گھنٹوں بے تکان بولتے۔
انہوں نے اسّی کی دہائی میں شعبۂ تعلیم سے وابستگی کے ساتھ اپنا سلسلہ ملازمت شروع کیا اور تھرپارکر میں تعینات ہوئے۔ 1984ءمیں کراچی منتقل ہوگئے، یہاں بھی شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہتے ہوئے مختلف ذمّے داریوں پر فائز رہے۔ 90ء کی دہائی میں ایڈیشنل پلاننگ اینڈ کوآرڈی نیشن سیکریٹری مقرر ہوئے اور مقامی حکومتوں کا نظام متعارف ہونے کے بعد 2000ءکی دہائی کی ابتدا میں ڈی ای او مقرر ہوگئے۔2003ء میں میرپور خاص تعلیمی بورڈ کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے میرپورخاص منتقل ہوگئے۔ 2007ءمیں انہیں اعلیٰ تعلیمی ثانوی بورڈ کراچی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر 2015ء تک فائز رہے۔ علاوہ ازیں، مختصر عرصے کے لیے میٹرک بورڈ کراچی کے چیئرمین بھی رہے، جب کہ گزشتہ چند برسوں سے ڈاکٹر ضیاءالدین تعلیمی بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے مصروفِ عمل تھے۔ یہ بورڈ بھی ان ہی کی کاوشوں سے منظور اور فعال ہوا۔ گویا اس کے بھی بانی ڈائریکٹر کی حیثیت آپ کو حاصل ہے۔
پروفیسر انوار احمد زئی سے ہمارا پہلا تعارف اکتوبر 2015ء میں اکادمی ادبیات کراچی کی جانب سے معروف محقق، نقّاد، اقبال شناس، صوفی بزرگ استاد الاساتذہ حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں کےحوالے سے منعقدہ تعزیتی پروگرام میں ہوا۔ تعزیتی تقریب میں ڈاکٹر جمیل جالبی اور سرشار صدیقی جیسے ادیب اور شاعر اسٹیج پرجلوہ افروز تھے، ہم بھی سامع کی حیثیت سے اسٹیج کے قریب ہی تھے، جب کہ دیگر مقررین کی صف میں پروفیسر انوار احمد زئی بھی تشریف فرما تھے، جن سے اگرچہ پہلے سے شناسائی توضرور تھی، مگر انہیں سننے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ پروفیسر صاحب کی باری آئی، اور انہوں نے بولنا شروع کیا، تو خوش بیانی سے بولتے ہی چلے گئے۔
تعزیتی ریفرنس میں مرحوم سے متعلق ترتیب وار محاسن بیان کرنے کے ساتھ جس طرح خطابت کے جوہر دکھائے، ہر شخص متاثر ہوتا نظر آیا۔ ماہِ رمضان میں عصر سے مغرب کے مختصر سے دورانیے میں ناموں کے حجم اور عہدوں کی ضخامت سے قطع نظر اس نشست کی اصل اور حاصلِ گفت شخصیت ان ہی کی رہی۔ ان کی خطابت سے یہ ہمارا پہلا تعارف تھا۔
پھر 2009ء میں جب ہم دعوة سینٹر، کراچی (دعوة اکیڈمی، بین الاقوامی، اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد) سے منسلک ہوئے، تو پروفیسر انوار احمد زئی سے رابطے مزید بڑھ گئے۔ ہمیں ایسے افراد کی تلاش تھی، جو نہ صرف اچھی تعمیری اور معلوماتی گفت گو کرتے ہوں بلکہ پُرمغز گفت گو کا سلیقہ بھی رکھتے ہوں۔ اس سے قبل ہم 2008ءمیں دارالعلم والتحقیق کا بھی آغاز کرچکے تھے، اس کے بنیادی مقاصد میں بھی تربیت کو کلیدی اہمیت حاصل تھی، لہٰذا اس ضمن میں ہمارے لیے پروفیسر انوار احمد زئی بہترین انتخاب تھے، یوں گزشتہ کم و بیش گیارہ برسوں میں متعدد مواقع پر انہوں نے ہمارے تربیتی پروگرامز میں شرکت فرما کر اپنی گفت گو سے علم و آگہی کے دَر وا کیے۔ صرف یہی نہیں، ہم نے ان کے ساتھ دیگر اداروں میں بھی متعدد پروگرامز اور بیرونِ شہر سفر کیے۔ خاص طور پر سندھ یونی ورسٹی حیدرآباد اور گورنمنٹ کالج میرپورخاص کی تقریبات اس حوالے سے یادگار ہیں۔
اس کا سبب یہ تھا کہ پروفیسر انوار احمد زئی کی گفت گو انتہائی مربوط، موضوع کے مطابق اور دل چسپ ہوتی اور انہیں کہیں بھی مدعو کرنے میں کبھی کوئی دقّت پیش نہ آتی۔ اگر وہ کراچی میں موجود ہوتے، تو صرف ایک ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کافی ہوتا۔ اکثر یوں بھی ہوتا کہ بے حد مصروفیات کے باوجود ہمارے اصرار پر پروگرام میں شرکت فرمالیتے۔
ایک بار یوں ہوا کہ الحمد اکیڈمی، خالد بن ولید روڈ پر سیرتِ طیبہؐ کے حوالے سے پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا تو، پرنسپل، ڈاکٹر اظہر سعید نے فرمائش کی کہ پروفیسر انوار احمد زئی بھی آجائیں، تو لطف دوبالا ہوجائے۔ ہم نے اسی وقت فون کیا، بات ہوئی، وقت، جگہ اور موضوع طے ہوگیا، بعد میں تحریری دعوت نامہ بھی اکیڈمی کی جانب سے ان تک پہنچادیا گیا، مگر شاید مصروفیات کے سبب یہ پروگرام ان کے تحریری شیڈول میں درج نہ ہوسکا۔
پروگرام سے کچھ دیر قبل ہم نے یاد دہانی کے لیے انہیں فون کیا، تو پریشان ہوگئے اور کہا کہ’’ اس وقت تو مَیں ایک نجی چینل پر ریکارڈنگ سے فارغ ہوکر گھر جارہا ہوں، فاصلہ بھی کافی ہے۔‘‘ ہم نے فوراً کہا کہ ’’بسم اللہ کریں، آجائیں، مَیںجب تک تقریب کا آغاز کرتاہوں، آپ پہنچ جائیں گے۔‘‘ ہماری بات سن کر کچھ دیر توقف کیا، پھر بولے، ’’مَیں سوٹ ٹائی میں ملبوس ہوں، یہ سیرت کا پروگرام ہے۔‘‘ ہم نے کہا ’’آجائیے کوئی حرج نہیں۔‘‘ بہر کیف چالیس پچاس منٹ کا سفر طے کرکے پنڈال میں پہنچے، تو حیرت انگیز طور پر جناح کیپ لگائے، قمیص شلوار اور واسکٹ میں ملبوس تھے۔ یہ الگ بات کہ کپڑے کچھ شکن آلودتھے۔ ہوا یوں کہ وہ اس خیال سے کہ یہ سیرت کا پروگرام ہے، پہلے دفتر گئے، وہاں جو کپڑے موجود تھے، انہیں زیبِ تن کرکے تشریف لائے۔ ان کی احترام اور وضع داری کی یہ مثال ذہن پر اب بھی نقش ہے۔
وہ وضع داری، رواداری، محبت اور اخلاقی قدروں کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ سرکاری پروگراموں میں عموماً مہمانوں کو اعزازیہ بھی پیش کیا جاتا ہے، جو عام طور پر اشکِ بلبل کے بہ قدر ہی ہوتا ہے، مگر ان کی خدمت میں بھی جب یہ اعزازیہ پیش کیا جاتا، نہایت احترام سے منع فرمادیتے، انہوں نے کبھی پی ٹی وی کے علاوہ کسی سے مذہبی پروگرام کا اعزازیہ وصول نہیں کیا۔
پروفیسر انوار احمد زئی کی نشست میں ہر خاص و عام کو اس لیے بھی لطف آتا کہ وہ اچھے جملے باز اور جملہ شناس تھے۔ یہ صفت اب خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ کسی پر جملہ چست کیا، پھر ہماری جانب دیکھا، ہم دونوں مسکرادیے اور صاحب معاملہ میں ہلکی جنبش تک نہ ہوئی۔ اس صورتِ حال سے ہم مزید لطف لیتے۔ افسوس اب یہ محفل ہمیشہ کے لیے اجڑ گئی۔
پروفیسر صاحب کئی بار انٹر بورڈ کمیٹی آئی بی سی کے چیئرمین مقرر ہوئے، اس دوران ان سے طویل مشاورت ہوتی رہی۔ ایک بار ہم نے انہیں توجّہ دلائی کہ مدارس کی اسناد کا معاملہ محض ایم اے تک محدود ہے، ثانویہ عامہ اور ثانویہ خاصہ کا معادلہ اس کمیٹی کے تحت بالترتیب میٹرک اور انٹر سے ہوجائے، تو طلبہ کے لیے نہایت مفید ہوگا۔ ہماری بات سے اصولی طور پر نہ صرف متفق ہوگئے، بلکہ کمیٹی کے تمام ارکان کو اس موضوع کی حسّاسیت اور اہمیت پر خصوصی بریفنگ کا اہتمام بھی کروایا۔
31مئی کی صبح پروفیسر صاحب کے انتقال کی خبر ہمارےلیے بہت اچانک تھی اور سب کی طرح انتہائی دکھ بھری بھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انتہائی درجے کے فاضل ہونے کے باوجود حد درجے کا انکسار اور ہر نوعیت کے کارِخیر کے لیے ہمہ وقت ان کی آمادگی ایسے اوصاف ہیں، جن پر بڑی سے بڑی کم زوری بھی قربان کی جاسکتی ہے، اور ہمارے معاشرے سے تیزی سے مفقود ہوتی ہوئی یہ صفات وہ ہیں، جن کا متبادل دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
پروفیسر انوار احمد زئی نے قلمی اور تحریری نشانیوں میں خاکے، افسانے، تعلیم اور سماجیات پر مضامین کے ساتھ ساتھ درجنوں کتب پر دیباچے اور تبصرے بھی چھوڑے ہیں۔ اپنے آخری برسوں میں نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی خوب لکھا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ خاص طور پر تعلیم اور نعت کے حوالے سے ان کے مضامین یک جا کرکے انہیں کتابی صورت دینے کا اہتمام کیا جائے۔