• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چینی مافیا کے خلاف کارروائی کا کہہ دیا گیا ہے، آٹے والوں کی باری آنے والی ہے، آئی پی پیز کا مسئلہ بھی زیر غور ہے مگر پاکستان میں مافیاز کے کردار تو سرکاری محکموں میں بھی ہیں۔

ہمارے جن سرکاری اداروں میں یونینز کا کردار رہا، وہ ادارے برباد ہو گئے۔ آج ہم صرف پی آئی اے کا جائزہ لیں گے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، یہ تو بڑا شاندار ادارہ تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں جب پی آئی اے کا بوئنگ طیارہ چین گیا تو چینی دیکھنے آئے کہ پاکستان کی کیا شاندار ایئر لائن ہے جس کے پاس ایسا طیارہ ہے۔

میں نے ایک پرانی تصویر دیکھی جس میں جان ایف کینیڈی کی اہلیہ پی آئی اے کے اسٹاف کو سلام کر رہی تھیں، پھر یہ کیا ہوا کہ آج پی آئی اے بری ایئر لائن بن گئی۔ اس کا جائزہ لیتے ہیں، اب کیا ہونا چاہئے تاکہ پی آئی اے پھر سے شاندار ایئر لائن بن جائے۔ یہ ادارہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے بنا، ساٹھ کی دہائی سے لے کر 2007تک شاندار رہا،

پورے ایشیا میں سب سے پہلے جیٹ کا استعمال اسی نے کیا، اسی نے فلائٹ میں انٹرٹینمنٹ سسٹم متعارف کروایا، یہ ایئر لائن چار براعظموں کی 73منازل طے کرتی رہی۔

اس کی یونیفارم پیری کارڈن نے ڈیزائن کی، بیجنگ کی پہلی پرواز ہوئی۔ ایشیا میں پہلی مرتبہ بوئنگ 777اسی ایئر لائن میں شامل ہوا۔ اسی پی آئی اے نے ایمریٹس، سنگا پور ایئر لائن اور ملایشین ایئر لائن کو کھڑا کرنے میں مدد کی۔ پی آئی اے کی بربادی کا آغاز نوے کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے زبردستی دو تین ہزار افراد کو پی آئی اے کا حصہ بنا دیا۔

تمام کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کر دیا، زبردستی سکھر اور حیدر آباد کے لئے پروازیں شروع کروائی گئیں۔ مشرف دور میں پی آئی اے کی سرجری ہوئی، آپ کو یاد ہوگا کہ احمد مختار کے بھائی احمد سعید پی آئی اے کے چیئرمین بھی بنے تھے، اس دور میں غیرضروری ملازمین کو فارغ کر دیا گیا اور 9بوئنگ 777طیاروں کو پی آئی اے کا حصہ بنایا گیا مگر 2008میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آتے ہی نکالے گئے تمام ملازمین کو بحال کر دیا گیا، نہ صرف بحالی ہوئی بلکہ پچھلی تمام تنخواہیں بھی ادا کی گئیں۔

تمام فوائد بھی دے دیے گئے۔ ترقیاں بھی دے دی گئیں، اسکے ساتھ ہی نااہل ایم ڈی رکھنے کا رواج شروع ہوا، روز ویلٹ ہوٹل سمیت پی آئی اے کی باقی جائیدادوں کی بربادی بھی شروع ہو گئی کیونکہ وہ من پسند لوگوں کے حوالے کر دیے گئے۔ ریزرویشن سسٹم بھی من پسند ٹریول ایجنسیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ ظاہر ہے یہ مفادات کا کھیل تھا۔

چیزوں کی سپلائی کے ٹھیکے بھی من پسند پارٹیوں کو دیے گئے۔ یونین نے پیپلز یونٹی کے نام سے ایئر لائن پر قبضہ ہی کر لیا۔ ایک ایئر لائن کو غلط ہاتھوں میں دینے کا نقصان یہ ہوا کہ 2013تک پی آئی اے تقریباً 1.8بلین ڈالرز کے خسارے میں چلا گیا۔ 2013ءمیں ن لیگ اقتدار میں آئی تو انہوں نے پورا ادارہ شجاعت عظیم کے حوالے کر دیا، اب یونین میں ایئر لیگ نے پر نکالے۔

اس شاہی دور میں پی آئی اے کو ذاتی ٹرانسپورٹ کی طرح استعمال کیاجانے لگا۔ لندن کے دورے شروع ہوئے، ایک اسپیشل پریمیئر سروس کی وجہ سے پی آئی اے کو چھ بلین کا نقصان ہوا، اب ہر طرف کرپشن اور نااہلی کے چرچے ہونے لگے مگر پھر بھی کہا گیا کہ بیرونی پروازیں بڑھائو۔

اس سے تین بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ ن لیگ کے بعد پی ٹی آئی اقتدار میں آ گئی۔ پی ٹی آئی نے نااہلی اور ناتجربہ کاری کے ساتھ پی آئی اے میں چھلانگ لگائی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

پی آئی اے کے پاس صرف دو ہوٹل ہیں جو ملین ڈالرز کماتے ہیں مگر ان دونوں ہوٹلوں کی آمدن کو پوری طرح استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نیو یارک اسٹیٹ اور فرانس کے قوانین حائل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان پرائیوٹائزیشن لا کے مطابق بھی یہ کمائی پی آئی اے کو نہیں جا سکتی۔

کورونا کے بعد تو صورتحال ہی اور ہو گئی ہے۔ دنیا میں کئی ایئر لائنز کریش کر گئی ہیں۔ پی آئی اے بھی گرائونڈ ہونے والی ہے۔ اسے تین ماہ گرائونڈ کرکے نئے سرے سے آغاز کیا جائے اور آغاز سے پہلے یونین پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پی آئی اے کے تین پائلٹ مختلف اوقات میں لندن سے اس لئے نہیں اڑ سکے تھے کہ انہوں نے شراب پی رکھی تھی۔

دنیا بھر میں اڑان سے پہلے جہازوں کے علاوہ پائلٹس کو بھی چیک کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں شاید دونوں کو چیک نہیں کیا جاتا۔ کئی پائلٹ تو جعلی ڈگریوں پر بھرتی ہوئے۔ پی آئی اے میں تو شیڈولنگ کے وقت بھی پیسہ چلتا ہے، شیڈولنگ کا مطلب ہے اسٹاف کی ڈیوٹیاں ہر کوئی تو بیرونی پرواز پر ڈیوٹی لگوانا چاہتا ہے۔ پسند کے شہروں میں جانا چاہتا ہے۔

پی آئی اے کی نئے سرے سے اسٹرکچرنگ ہونی چاہئے۔ نیا فلیٹ متعارف کروایا جائے، ہر شعبے کو بدل کر رکھ دیا جائے۔ عیاشیوں کو ختم کر دیا جائے۔

امریکہ اور یورپ میں نسلی تعصب کے خلاف مظاہرے جاری ہیں لہٰذا آپ یونس اعجاز کے اشعار پڑھئے!

بےسبب ظلم و ستم یوں نہ بڑھائو صاحب

میرا کیا جرم ہے اتنا تو بتائو صاحب

جان ہی سے نہ گزر جائوں میں دم گھٹنے سے

اپنا گھٹنا میری گردن سے ہٹائو صاحب

تازہ ترین