امریکی صحافی سنتھیا رچی کے وڈیو الزامات نے جو نیا پینڈورا باکس کھولا ہے ، اس کے اثرات ملتان تک بھی پہنچ گئے ہیں ، پیپلزپارٹی،سرائیکی قوم پرست جماعتوں اور کئی دیگر تنظیموں نے ان الزامات پر غم و غصہ کا اظہار کیا اور مظاہرے بھی کیے گئے ،جن میں اسے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی شخصیت پر ایک سوچا سمجھا حملہ قرار دیا گیا جبکہ سید یوسف رضا گیلانی کا یہ کہنا ہے کہ سنتھیارچی نے ان کے خلاف یہ بے بنیاد الزام اس لیے لگایا کہ اس سے پہلے اس نےمحترمہ بے نظیر بھٹو پر جو الزامات لگائے تھے ان پرمیرے صاحبزادے ایم پی اے علی حیدر گیلانی نے سائبر کرائم ونگ کو سنتھیا رچی کے خلاف کارروائی کی درخواست دی ،کیونکہ اس نے بغیر کسی ثبوت اور جواز کے شہید بے نظیر بھٹو پر الزامات لگائے۔
اس کارروائی کی وجہ سے سنتھیا رچی نے میرا نام بھی ان شخصیات میں شامل کیا ،اور دست درازی کے الزامات لگائے۔دس سال پہلے کے مبینہ واقعہ کو بنیاد بنا کر جب کوئی اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ہے تو اس کا مقصد سوائے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے کچھ اور نہیں ہوتا ۔ ایک اور مسئلہ جو تحریک انصاف کے لئے درد سر بن چکا ہے وہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ سیکرٹریٹ کا قیام ہے،پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے پہلے ٹویٹ کرکے یہ خوش خبری سنائی کہ یکم جولائی سے جنوبی پنجاب کے لیے علیحدہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی کی پوسٹیں فعال ہو جائیں گی اس کے لئے منظوری دے دی گئی ہے پھر چند دن بعد جب وہ رحیم یار خان کے دورے پر گئے تو واپسی پر انہوں نے بہاولپور میں تھوڑی دیر کے لئے قیام کیا جہاں سرکٹ ہاؤس میںصرف چند اراکین اسمبلی سے ملاقات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے لیے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں اور انہوں نے ارکان کو یہ اطلاع بھی دی کہ سیکرٹریٹ بہاولپور میں ہی قائم کیا جائے گا۔
لیکن فی الوقت یہ انتظام کیا گیا ہے کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور اور ایڈیشنل آئی جی ملتان میں بیٹھیں گے ،یہ ایسا انتظام ہے کہ جس پر سوائے سر پیٹنے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا،گویا پولیس کے معاملات حل کرانے کے لیے تینوں ڈویژنوں کے افراد کو ملتان آنا پڑے گا اوانتظامی معاملات کے لئے تینوں ڈویژنوں کے لوگ بہاولپور جائیں گے، دنیا میں شاید ہی کہیں اس طرح کے نظام کی کوئی مثال نہ ملے ، نہ جانے حکومت کی کیا مجبوریاں ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ علیحدہ سیکریٹریٹ کے مقام کا تعین نہیں کر پا رہی، اب تو جہانگیر ترین بھی منظرنامے پر موجود نہیں ہیں ، جن کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ وہ شاہ محمود قریشی کی مخالفت کے باعث ملتان میں علیحدہ سیکرٹریٹ قائم نہیں ہونے دیتے ، بہاول پور میں مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اس حوالے سے سرگرم ہیں کہ سیکرٹریٹ بہاولپور میں ہی بنے گا۔
شاید اسی دباؤ کی وجہ سے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بہاولپور گئے اور انہوں نے وہاں بیٹھ کر علیحدہ سیکریٹریٹ کے قیام کا اعلان کیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ بالآخر حتمی طور پر جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا صدر مقام بہاولپور ہی ہوگا، ملتان کے ارکان اسمبلی اس معاملے میں پراسرار طور پر خاموش ہیں،حتی کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے بعد کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر سکے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یکم جولائی کو اگر یہ سیکرٹریٹ اسی طرح قائم ہوتا ہے کہ اس کی ایک ٹانگ بہاولپور اور دوسری ملتان میں ہو، تو عوام کو کیا ریلیف ملتا ہے،ان کی مشکلات پہلے سے بڑھ جاتی ہیں،یا ان میں کمی آتی ہے ۔ دوسری طرف ملتان میں بھی بہت سی نمایاں شخصیات بھی کورونا کی زد میں آ گئی ہیں ، جن میں سیاستدان، میڈیا کے نمائندے، تعلیمی اداروں کے سربراہان، ڈاکٹر اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا ہر شعبہ میں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ ملتان ان شہروں میں شامل ہے جہاں کورونا کی وبا نے خطرناک شکل اختیار نہیں کی، نشتر ہسپتال میں تو مریضوں کے لئے لیے 88 بیڈز مختص کیے گئے ہیں مگر ابھی تک ان بیڈز پر پورے مریض داخل نہیں ہوئے ، کیونکہ تعداد اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی ،تاہم نشتر اس حوالے سے شاید پاکستان کا واحد ہسپتال ہے جہاں سب سے زیادہ طبی سٹاف اس وباسے متاثرہوچکا ہے ،طبی حلقوں کی جانب سے اب یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ بڑے ہسپتالوں میں فلٹر/سکریننگ کلینک قائم کئے جائیں، جس سے مراد یہ ہے کہ جب کسی مریض کو ایمرجنسی وارڈ میں لایا جائے تو اس کے آغاز میں ہی ایسے آلات اور انتظامات موجود ہوں کہ جو اس بات کا تعین کر سکیں کہ آنے والا مریض کورونا یا کسی وبائی مرض میں مبتلا تو نہیں ہے۔ د وسری طرف جنوبی پنجاب میں ایس او پیز پر عمل درآمد کے لئے انتظامیہ اور ٹریفک پولیس خاصی متحرک ہوچکی ہے۔
خاص طور پرملتان میں ماسک پہننے کو یقینی بنانے کے لیے بہت زیادہ سختی کی جارہی ہے، ڈپٹی کمشنر نے تو’’ نو ماسک ،نو سروس ‘‘ کا حکم جاری کر دیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے میں آنے والے شخص کو اس وقت تک کوئی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی جب تک اس نے ماسک نہیں پہنا ہوگا، انتظامیہ نے مارکیٹوں اور دکانداروں کو ایس او پیز کی خلاف ورزی پر جرمانوں اورسیل کرنے کا عمل بھی شروع کردیا ہےاب یہ بات طے ہو چکی ہے کہ حکومت کسی لاک ڈاؤن کا ارادہ نہیں رکھتی، البتہ احتیاطی تدابیرکے ضمن میں کوئی رعایت بھی نہیں دینا چاہتی، کیونکہ کورونا کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے اب حکومت کے لیے بھی اب یہ راستہ بچا ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرائے۔