• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید الفطر سے قبل کراچی میں لاہور سے جانے والے پی آئی اے کے طیارے کا حادثہ ہر لحاظ سے افسوسناک اور دکھوں بھری داستانیں چھوڑ گیا ہے، اس حادثہ کے بارے میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں، لیکن پی آئی اے کے انجینئرنگ سیکشن کی زیادہ بات نہیں ہورہی، جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جہاز کی ہر لحاظ سے کلیئرنس کے بعد ہی جہاز کو پرواز کے لئے کلیئر کیا جائے، اب تک کے تبصروں اور بیانات سے ایسے لگتا ہے کہ اس حادثہ کو پی آئی اے، سول ایوی ایشن اور دوسرے متعلقہ اداروں کی اندرونی سیاست کی طرف لے جایا جارہا ہے، ہر ادارہ اپنی جان بچانے میں سرگرداں ہے، لیکن جن گھرانوں کے افراد اللہ کو پیارے ہوئے، ان بے چاروں کے ساتھ کیا ہور ہا ہے ، یہ سب دنیا دیکھ رہی ہے،جہاز کے پائلٹ سجاد گل کا شمار یقینی طور پر پی آئی اے کے منجھے ہوئے پائلٹس میں ہوتا تھا۔ لاہور، کراچی یا بیرون ملک کسی پرواز پر ایئرپورٹ یا جہازمیں ان سے ملاقاتیں بھی ہوئیں، وہ تو مکمل طور پر پروفیشنل تھے، کبھی سیاست یا کسی کے بارے میں رائے نہیں دیتےتھے، حتیٰ کہ اسٹاف سے گپ شپ میں بھی۔ پی آئی اے کے کپتان سجاد گل کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں اپنی جگہ لیکن گورنر پنجاب کے سامنے ان کے والد نے جو بات کہی وہ یہ کہ پی آئی اے والے میرے بیٹے کے ساتھ سیاست نہ کریں۔

پی آئی اے کے ساتھ ایک مسافر اور ایوی ایشن رپورٹر کے طور پر طویل بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق کے ناتے کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ ایئر مارشل اصغر خان مرحوم کے دور میں پی آئی اے کی پروازیں مقررہ وقت پرروانہ ہوتیںاور لینڈ بھی کرجاتی تھیں۔ پھر یہ بھی وقت آیا کہ پی آئی اے میں بدانتظامی اور اندرونی سیاست نے حد ہی کردی اور جہاز کم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی سروس بھی بین الاقوامی معیار کی کم ترین سطح پر آگئی۔ اس سانحہ کے پس منظر میں مجھے 1992ءمیں پیرس کا ایک دورہ یاد آگیا جس کا اہتمام پی آئی اے کی پہلی ایئربس A-320کی خریداری اور اس کو پاکستان لانے کے حوالے سے تھا۔ راقم اس وقت ایک معاصر اخبار میں تھا جہاں 1989-90 پنجاب کا بجٹ ایک دن پہلے چھاپنے کی روشنی میں عارف نظامی نے اپنی جگہ مجھے پیرس اور ایئربس انڈسٹری کا مہمان بننے کا موقع فراہم کیا تھا۔پیرس کے قریب ٹیلوس ایئربس کا ہیڈ کوارٹر ہے، جہاں دنیا کے چار ممالک جرمنی، بلجیم اور فرانس وغیرہ مل کر دنیا کی سب سے بڑی جہاز ساز کمپنی چلاتے ہیں، پیرس میں اس وقت سابق سینئر بیوروکریٹ اسماعیل قریشی پاکستانی سفارت خانے میں کمرشل اتاشی تھے۔ ایئربس انڈسٹری والوں نے ہمیں تین چار دن پیرس کے سب سے بڑے ہوٹل کنکارڈ میں ٹھہرایا،پھر ہم ٹیلوس گئے جہاں پی آئی اے کے خالد بٹ اور طارق انوار ہمارے گائیڈ اور لیڈ کرنے والے تھے۔ اسماعیل قریشی صاحب اور پرویز احمد ہر لحاظ سے ایسے مہمان نواز اور ایسے انسان اور پھر ایسے دوست بھی بنے رہے۔ ہمارے اس دورے کا مقصد چونکہ دستمبر 92ء میں پی آئی اے کے لئے پہلی بار ایئر بس لانا تھا۔ اس حوالے سے چند حقائق کو پی آئی اے پر مختلف نوعیت کے الزامات کے پس منظر میں دیکھنا یا نہ دیکھنا آپ پر منحصر ہے،اس طرح ایئر بس انڈسٹری کے معاملات کو بھی آپ اپنی نظر سے دیکھ سکیں گے۔پھرنتیجہ نکال سکتے ہیںکہ اس سانحہ کی انکوائری کا کیا ہوگا۔ اس وقت غالباً بڑی عید سے ایک دن پہلے یا بعد میں ہم لوگ ٹیلوس پہنچے جہاں ایئر بس انڈسٹری کے وزٹ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پی آئی اےکے DMDخورشید انور ہمارے گروپ کے سربراہ تھے۔ اسی شام PIA کے MD نواز ٹوانہ نے امریکہ سے پہنچ کر ہمیں جوائن کرنا تھا۔ یہ بات پی آئی اے کے ریکارڈ سے کنفرم کی جاسکتی ہے کہ ایئر بس انڈسٹری نے پاکستان کو جو پہلی ایئر بس قیمتاً دی تھی وہاں ہماری موجودگی میں اس کے ٹیسٹ ٹرائل میں ہی ایک بڑی خرابی سامنے آگئی تھی کہ آزمائشی پرواز(جو ایئر بس انڈسٹری کے اندر ہوتی ہے)اس کا ایک دروازہ جہاز کے اڑتے ہی کھل گیا تھا۔ جس پر دونوں طرف کھلبلی مچ گئی، اگلے کئی گھنٹے PIA اور ایئر بس انڈسٹری کے حکام میں فنی نوعیت کے اجلاسوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران PIA کے حکام اس کوشش میں لگ گئے کہ یہ خبر باہر نہ جائے، دوسری طرف ایئر بس انڈسٹری کے حکام نے ہنگامی طور پر ہماری ٹیم کو نیوز بریفنگ کے نام پر بلا کر فرانسیسی کرنسی میں کافی کچھ دینے کی کوشش کی۔ جس پر ہم پانچ چھ افراد نے انکار کیا اور اللہ کا شکر مکمل انکار بلکہ ناراضی کا اظہار کیا۔ دونوں طرف پی آئی اے کے ایم ڈی اور ڈی ایم ڈی نے اپنے اپنے انداز میں اس معاملہ کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ کیا ہوا جب یہ ایئربس کراچی پہنچی تو ہزار کوششو ں کے باوجود یہ خبر کراچی کے کسی اخبار میں چھپ چکی تھی ۔ یہ سب حقائق موجودہ حالات کے پس منظر میں سامنے لانا قومی فریضہ سمجھتا ہوںکہ ایئر بس انڈسٹری کے لوگ واقعی بڑے پروفیشنل اور مکمل بزنس مین ہیں، وہ اس وقت نامکمل جہاز کی ڈیل کو چھپانے کے لئے کیا کر رہے تھے اور پی آئی اے کے حکام کیا کر رہے تھے۔ اس لئے دونوں اداروں پر زیادہ اعتماد کے بجائے وزیراعظم کسی تیسرے ملک کے ایوی ایشن حکام کی مشاورت حاصل کریں، یہی قومی مفاد اور حقائق تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے، ورنہ کیا ایئر بس انڈسٹری چاہے گی کہ اس کے جہاز کے فنی نقائص سامنے آئیں اور دنیا میں اس کی مارکیٹ اور ساکھ خراب ہو، دوسرا پی آئی اے کے بارے میں اندرونی سیاست کے جو معاملات پبلک میں زیر بحث ہیں، وہ کیا چاہیں گے کہ ان کے انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ یا کسی اور متعلقہ شعبہ کی بدانتظامی یا فنی نااہلی سامنے آئے۔

تازہ ترین