• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی پی حکومت کے پہلے دور میں سندھ میں کوٹہ سسٹم کا نفاذ کیا گیا جس سے صوبے میں دیہی اور شہری سندھ کی تقسیم ہو گئی، لسانی بل پیش کیا گیا، سندھی کو سندھ کی زبان قرار دیا گیا جبکہ دیگر صوبوں میں قومی زبان اردو کو برقرار رکھا گیا، اس زمانے میں معروف شاعر رئیس امروہوی کی نظم اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے نے بہت زیادہ شہرت حاصل کی، اس کے خلاف اگست 1973میں کراچی میں شدید ہنگامہ آرائی اور احتجاج بھی کیا گیا جس کے نتیجے میں کئی افراد شہید بھی ہوئے جن کی قبریں آج بھی لیاقت آباد دس نمبر پر ہیں۔ اس صورتحال پر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک کانفرنس بلائی جس میں کئی سرکردہ سیاسی رہنما موجود تھے، راقم الحروف نے اس میں ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ قیوم گروپ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ وہ سندھ میں دس سال کے لئے کوٹہ سسٹم نافذ کرنا چاہتے ہیں تاکہ سندھی عوام بھی ترقی کر سکیں، جس میں ملازمتوں کے لئے دیہی کوٹہ 60اور شہری کوٹہ 40فیصد رکھا گیا جس پر کچھ عرصے تو عمل کیا گیا مگر بعد میں جعلی ڈومیسائل سے شہری کوٹہ بھی سندھ کے دیہی لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ دس سال گزرنے کے باوجود کوٹہ سسٹم ختم نہیں کیا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کراچی، حیدر آباد، سکھر کے نوجوان ملازمتوں کے حصول کے لئے پریشان ہیں، سندھ کی سرکاری ملازمت میں شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے، اردو بولنے والے، پختون، پنجابی اور بلوچ نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ وفاقی حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کو بھی اس حوالے سے از خود نوٹس لینا ہوگا، موجودہ جمہوری دور میں چاروں صوبوں میں صورتحال بہت زیادہ اچھی نہیں ہے، بلوچستان جو اس وقت ملک کا سب سے حساس صوبہ ہے اور جہاں بھارت مسلسل صورتحال کو بگاڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے، نوجوانوں کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے مگر وفاقی اور صوبائی سطح پر اس صوبے میں کوئی کام دکھائی نہیں دے رہا۔ کے پی اور پنجاب میں بھی حالات بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوامی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے سیاست دانوں کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے، پاکستان مسلم لیگ اور پی پی اس سے بہت زیادہ متاثر ہیں، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ان جماعتوں کے رہنمائوں کے خلاف الزامات میں کچھ صداقت بھی ہوگی مگر جب یہ کیس نیب کے پاس جاتے ہیں وہ صرف گرفتاری کے علاوہ کچھ نہیں کرتی ہے۔ اس حکومت نے میڈیا کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو خراب کیا ہوا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن پچھلے تین ماہ سے قید میں ہیں۔ جنگ گروپ کی پاکستان میں گراں قدر خدمات ہیں دفاع پاکستان اور ملک میں اتحاد اور یکجہتی کو قائم رکھنے اور اسے فروغ دینے کے حوالے سے جنگ گروپ کی قومی خدمات کا تقاضا ہے کے اس کے ساتھ حکومت اپنے رویے پر نظرثانی کرے۔ اس گروپ کے ساتھ اشتہارات کی کٹوتی بزنس کی بندش اخبارات کی تقسیم میں مسائل ٹی وی چینل کی نشریات میں بندش سمیت مختلف مسائل ہیں جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ملازمین کے بیروزگار ہو جانے کاخدشہ پیدا ہوچکا ہے اس صورتحال سے جنگ گروپ کی انتظامیہ اور ملازمین کو نکالنے میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ موجودہ حکومت کے دور میں سب سے بڑا بحران میڈیا انڈسٹری پر آیا، اب تک مختلف اداروں سے ہزاروں ملازمین کو بے روزگار کیا جاچکا ہے، اشتہارات کی بندش کی وجہ سے ملازمین کو کئی کئی ماہ سے تنخوائیں نہیں مل سکی ہیں۔ 1985میں غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنی اس کے بعد کراچی کے حالات خراب تھے سال کے 365دن ہوتے ہیں اور تقریباً تین سو دن کرفیو رہا۔ تب میری رہائش گاہ پر سیاسی اور مذہبی قائدین نے اہم اجلاس منعقد کیا جہاں یہ طے پایا کہ یہ حالات غیر ملکی ہاتھ کی وجہ سے ہیں۔اس سلسلے میں بھی جنگ اخبار کا کردار مثالی رہا۔ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی اور گرانی کے ساتھ ملک ہر روز نت نئے بحران کا شکار ہورہا ہے، کبھی پیٹرول کی قلت، کبھی گندم کا بحران، کبھی چینی کا مسئلہ اس کے علاوہ اس حکومت کے دور میں کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ ان حالات میں جس قدر پریشان عوام ہیں اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے، وزیراعظم عمران خان کو اپنی کابینہ کی کار کردگی کا جائزہ لینا ہوگا، صوبائی حکومتوں کی پرفارمنس کو بھی چیک کرنا ہوگا، 18ویں ترمیم کے بعد اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وفاقی حکومت بہت زیادہ بےبس ہو گئی ہے۔ اسی لئے اب اس ترمیم میں تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں، مگر حکومت کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی تر میمی بل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی حکومت نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت شروع کی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر صوبائی حکومت وفاقی حکام کو آ نکھیں دکھا رہی ہے۔ سندھ صوبے میں اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت حد درجہ خراب ہے، لوگ کتے کے کاٹنے سے ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے مررہے ہیں، اسکولوں میں گدھے بندھے ہوئے ہیں، اس قسم کی صورتحال دیگر صوبوں میں بھی ہے مگر اس کا سارا ملبہ وفاقی حکومت پر ڈالا جارہا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اہم مسئلہ بےروزگاری اور مہنگائی ہے۔ جس کے لئے وزیراعظم کو خود چاروں صوبوں کی حکومتوں سے بات کرنا ہوگی اور اپنے احکامات پر عمل در آمد بھی کرانا ہوگا۔

تازہ ترین