• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیاقت مظہر باقری

جون کی جھلسا دینے والی گرمی میں پرندے بھی درختوں کی شاخوں پرگردن جھکائے چونچ کھولے گرمی کی تپش سے پریشان اداس بیٹھے تھے۔ شاہ زیب اور اس کی چھوٹی بہن قندیل اپنی نانی اماں کے گھر رہنے کےلئے آئے ہوئے تھے۔ بچوں کو ویسے بھی کھیل کی دھن میں گرمی، سردی کی اتنی پروہ نہیںہوتی، ان کے نانا نانی نے سب بچوّں یعنی اپنے پوتا پوتی سے بھی کہا کہ گرمی بہت زیادہ ہے تھوڑی دیر آرام کرلو شام کو کھیلنا۔ وہ سب ان کے کہنے پر عمل کرتےہوئے کچھ دیر کےلئے لیٹ گئے، جیسے ہی گھر کے سب بڑے اپنے اپنے کمروں میں آرام کرنے گئے، شاہ زیب اور اس کے ماموں کے بیٹے کاظم نے پروگرام بنایا کہ قریب ہی واقع باغ میں جاکر پھل توڑ کر کھاتےہیں،انھوں نے قندیل اور ماموں کی بیٹی دعا کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی، مگر ان دونوں نے انکار کردیا،لہذا شاہ زیب اور کاظم باغ کی جانب روانہ ہوگئے۔ چلچلاتی دھوپ اور لاک ڈاؤن کے باعث باہر کا ماحول سنسان تھا۔ دونوں نےباغ کے چھوٹے گیٹ کو ہلکا سا دھکا دیا وہ کھل گیا، انھوں نے جھانک کر باغ کا جائزہ لیا دیکھا کہ مالی ایک درخت کے سائے میں چارپائی پر گہری نیند سو رہا تھا۔ 

شاہ زیب اور کاظم دبے پاؤں اندر داخل ہوئے ان کی نظریں آموں سے لدےہوئےدرخت پر جم گئیں، دونوں نےایک لمحہ ضائع کیے بغیر درخت پر چڑھناشروع کردیا، وہ درخت کی دو علیحدہ علیحدہ مضبوط شاخوں پر بیٹھ گئے۔ ان کی نظریں مالی کی طرف بھی تھیں کہ کہیں وہ جاگ تو نہیں گیا۔ ابھی انھوں نے چند آم توڑ کر شاپر میں ڈالےہی تھے کہ شاہ زیب کی نظر ایک بلی پر پڑی جومالی کی چار پائی کے قریب دیوار پر بیٹھی مسلسل میاؤں میاؤں کررہی تھی، بلی کی آواز نے مالی کو جگا دیا،وہ اٹھ کر بیٹھ گیااور بلی کو بھگاتےہوئے ڈنڈا تھامے باغ کا چکرلگانے لگا۔ 

کاظم نے شاہ زیب سے کہا،’’ اب کیاہوگا‘‘۔ ابھی وہ دونوں آپس میں باتیں کر ہی رہے تھے کہ مالی کی نظران پر پڑ گئی۔ مالی ڈنڈا لہرتا ہوا درخت کے قریب آگیااورڈانٹ کرکہنے لگا "نیچےاترو میں تمہیں بتاتا ہوں"مالی کےموٹے ڈنڈے کو دیکھ کر دونوں اپنی اپنی جگہ پر دبک کر بیٹھ گئے، مالی نے ڈنڈا ان کی طرف بڑھایا بلندی پرہونے کی وجہ سےوہ ڈنڈے کی پہنچ سے دور تھے۔ کافی دیر ہونے کی وجہ سے مالی بھی پریشان ہوگیا، "کہنے لگا، نیچے اتر آؤ میں تمہیں نہیں ماروں گا" انھیں مالی کی باتوں پر یقین نہیں تھا۔ یوں دونوں کو درخت پر بیٹھے شام ہوگئی۔ 

شاہ زیب کے ماموں جب آفس سے گھر آئے توان کی نانی نے بتایا کہ قندیل اور دعا بتا رہی تھیں کہ وہ دونوں بہت دیر سے باغ گئے ہیں۔ کاظم کے چاچو یہ سنتے ہی باغ پہنچے۔ مالی نے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "یہ دیکھیں دونوں بچے ڈر کے مارے نیچے نہیں اتر رہے، جبکہ میں نے انھیں کہا تھا کہ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔" ماموں جان کو دیکھ کر دونوں بچوں کو ڈر تو لگا لیکن مالی کے ڈنڈے کی مار سے بچنے کی صورت نکل آئی تھی۔ ان کے ماموںنےدونوں کی بلا اجازت باغ میں داخل ہونے پر مالی سے معذرت کی ۔

شاہ زیب اور کاظم کو نیچے اتر نے کا کہتےہوئے ان کے شاپنگ بیگ میں آم دیکھ کر مالی کو چند روپوں کی پیشکش کی، مالی نے پیسے لینے سے انکار کردیا۔ کہنے لگا" بچے خوف کے مارے کافی دیر درخت پر بیٹھے رہے، یہ سزا ان کے لیے کافی ہے۔"

ماموں جان نے دونوں کو ایک ایک تھپڑ رسید کیا اور گھر لےکر آ گئے۔ بچوں کو دیکھ کر سب گھر والوں کی پریشانی دورہوگئی۔ نانا، نانی نے پیار سے سمجھاتےہوئے کہا"دیکھانا! بڑوں کی نصیحتوں پر عمل نہ کر کے آپ دونوں کو گھنٹوں بھوکے پیاسے درخت پر گزارنا پڑا نافرمانی کی سزا بھگتنی پڑی۔" شاہ زیب اور کاظم اپنی غلطی پر بےحد شرمندہ تھے، انہوں نے دوبارہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کر لی۔

تازہ ترین