• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ حکومت نے 2020۔2021ء کا بجٹ پیش کر دیا ہے، اس بجٹ کی خوبی یہ بیان کی جا رہی ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا لیکن اس کے باوجود ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے مقرر کردہ ہدف تک پہنچنے کیلئے۔ بجٹ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ اس میں ترقی کاہدف 2.1فیصد اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کا ہدف 4.4فیصد، مہنگائی کا متوقع ہدف 6.5فیصد رکھا گیا ہے اور قومی ترقیاتی کاموں کیلئے بجٹ 1324ارب روپے رکھا گیا ہے۔ اس میں وفاقی ترقیاتی کاموں کیلئے 650ارب مختص کئے گئے ہیں اور صوبوں کیلئے 674ارب مختص کئے گئے اور لئے گئے ملکی قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے 2946ارب روپے رکھے گئے ہیں اور آئندہ مالی سال کیلئے ایف بی آر کا ٹیکس ریونیو ہدف 4963ارب روپے اور نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610ارب مقرر کیا گیا ہے۔ تعلیم کیلئے 99ارب 82کروڑ توانائی کیلئے 76ارب، ہائیڈل منصوبے کیلئے ایک کھرب چودہ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بھاشا اور دوسرے ڈیموں کیلئے 69ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بجلی کے منصوبوں کیلئے 180ارب روپے، کورونا کے تدارک کیلئے 1200ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس کے بارے میں حزب اختلاف کی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن کے میاں شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے اسے عوام دشمن بجٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا جبکہ تاجر برادری کے نزدیک یہ بجٹ ٹیکس فری تو کہا جا سکتا ہے مگر بزنس فرینڈلی نہیں۔ اس بجٹ سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد جلد ہی کئی اور منی بجٹ حسب سابق آئیں گے۔ اس بجٹ کے نتیجے میں بیروزگاری میں کتنا اضافہ ہوگا، اس بارے میں بجٹ خاموش ہے۔ کورونا وائرس کے سبب لاک ڈائون سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا، بڑے صنعتکاروں کے مطابق صنعتوں کیلئے کسی ریلیف پیکیج کا کوئی اعلان نہیں، چھوٹے تاجروں کے لئے کوئی مراعاتی پیکیج نہیں، موجودہ حکومت نے جس طرح ملکی معیشت کا برا حال کیا ہے ایسا تو کبھی ماضی میں نہیں ہوا۔ ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے، نہ ملک کی زراعت کیلئے کوئی منصوبہ رکھا گیا ہے اور جس ہنگامی صورتحال سے ٹڈی دل کے باعث زراعت دوچار ہے اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا گیا۔

کسی بھی ملک کا بجٹ اس ملک کی اقتصادی معاشی صورت حال کا آئینہ دار ہوتا ہے۔اس سے پتا چلتاہے کہ ملک معاشی طور پر کتنا خود کفیل ہے۔ تجزیہ کاروں کاکہنا ہے حکومت نے تنخواہ دارطبقے کو بجٹ سے پہلے آس دلائی تھی تنخواہوں میں اضافہ کی، لیکن بجٹ میں اُن کےلئے کچھ نہیں کیاگیا،کہاگیا کہ اُسی تنخواہ پر کا م کرناہوگا کیونکہ ایسا آئی ایم ایف کا حکم تھا۔ اس کے جواب میں ریلوے کی مزدور تنظیم نےریلوے کاپہیہ جام کر نے کی دھمکی دی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ آگے کیا ہوتاہے۔ ملک میں کورنا کی وجہ سے پہلے ہی کیا کم بے چینی پائی جارہی ہے کہ غریب مکائو غربت مٹائو بجٹ،بےروزگاری میں اضافے کاباعث بننےوالا ہے،جس کا خدشہ خود حکمران وقت بھی کررہے ہیں۔ حالانکہ یہی موقع تھا عوام کے دل جیتنے کا۔ پیٹرول کی آسان دستیابی، چینی، آٹا سستا کر کے عوامی ہمدردی حاصل کی جاتی اور حزب اختلاف کی زبانیں بندکرنے کوشش کی جاتی لیکن ایسا معلوم ہورہاہے کہ سب کچھ کہیں اوپر سے کنٹرول کیا جارہاہے۔ ملک یقیناً مشکل ترین دور سے گزررہاہے اتنا مشکل وقت ماضی میں کبھی نہیں آیا، بےحساب قرضوں کےباوجود معیشت تباہی کےدہانے پرکھڑی ہے، کوروناوائرس کی تباہ کاری کیا کم تھی کہ رہی سہی کسر بجٹ پوری کر دے گا۔ اس بجٹ میں کوئی ضمانت نہیں دی گئی کہ آئندہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا بلکہ بجٹ پکار رہاہے کہ جلد بجٹ در بجٹ کاسلسلہ شروع ہوسکتاہے۔

حکومت اسٹیل ملز کی نجکاری کررہی ہے اور اس طرح کی کئی صنعتیں نجکاری کی فہرست میں ہیں۔ سناہے بلکہ شاید مصدقہ خبر ہے کہ ملک میں دس لاکھ سے زائد اضافی گدھے دستیاب ہیں۔ کیاہی اچھا ہو کہ ان زائد گدھوں کی نجکاری کر دی جائے۔ و یسے بھی اب تک گدھوں کی کھالیں چین لیتا رہا ہے، اگر اپنے سارے ہر قسم کے گدھے چین کے سپرد کر دیے جائیں تو چین کو دہرا فائدہ ہو سکتا ہے۔

اللہ ہمارے حکمرانوں کونیک ہدایت دے کہ وہ عوام دوست طریقے اپنائیں، ملک کو ہرطرح ہر طریقے سے بچائیں،ملک ہے تو ہم عوام ہیں، ملک ہے تو ہم پر حکمرانی کرنے والا طبقہ ہے،ہم رہیں نہ رہیں حکمران رہیں نہ رہیں، ملک ضرور ان شا ءاللہ رہے گا۔ اللہ وطن عزیز کی حفاظت کرے اوروطن کوہمیشہ شاد وآباد رکھے۔آمین!

تازہ ترین