خیبر پختونخوا حکومت اپنا تیسرا بجٹ پیش کرچکی ہے، حسب توقع ملک کی موجودہ صورت حال کے باعث بجٹ سے رکھی جانیوالی عوامی توقعات پوری نہیں ہوسکی ہیں، کورونا وائرس اور بعد ازاں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پوری معیشت کا پہیہ جام ہوچکا ہے ، ملک کے دیگر صوبوں کی طرح صوبہ خیبر پختونخوا بھی انتہائی متاثر ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو بجٹ سے انتہائی توقعات وابستہ تھیں ، تاجروں، پرائیویٹ اسکولز ، شادی ہالز مالکان ، سرکاری ملازمین ، کاروباری طبقے غرض ہر ایک نے بجٹ سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی ہوئی تھیں، جیسا کہ حکومت کی جانب سے ہر ایک کے مطالبہ کے جواب میں یہی کہا جاتا رہا کہ بجٹ میں انہیں ریلیف فراہم کیا جائیگا اور اسی لئے جس روز بجٹ پیش کیا جانا تھا۔
اس روز کئی متاثرہ طبقات صوبائی اسمبلی کے سامنے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے، ان کی کوشش تھی کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر اسے اپنی یقین دہانیوں پر عمل درآمد کیلئے مجبور و آمادہ کیا جاسکے کیونکہ پاکستان میں ہمیشہ سےہوتا آیا ہے کہ اعلانات تو ہوجاتے ہیں لیکن عمل درآمد کی نوبت کم ہی آتی ہے، اسی طرح خیبر پختونخوا میں بھی ہوا ،صوبائی حکومت نے جو وعدے کئے تھے اور لاک ڈاؤن متاثرین کو جو یقین دہانیاں کرائی تھیں ،ان میں کوئی ایک بھی پوری نہیں ہوسکی ، کسی بھی متاثرہ طبقہ کو اس طرح ریلیف نہیں دیا جاسکا جس کا مطالبہ کیا جارہا تھا، ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو7سالہ عرصہ اقتدار کے باوجود پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے عوام کیلئے وہ کچھ نہیں کرپائی۔
جس کی امید پر اسے پہلے 2013اور بعدازاں 2018میں مینڈیٹ دیا گیا تھا ،جب کورونا کی وبا آئی تو 7سال سے شعبہ صحت میں اصلاحات کا ڈھنڈورا پھیٹنے والے حکمرانوں کی قلعی کھل گئی ، ویسے بھی ایم ٹی آئی کے نام پر گزشتہ دو سال کے دوران جو ناکام اور بدترین تجربات کئے گئے ان کی وجہ سے پہلے ہی سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال خراب تر ہوچکی تھی رہی سہی کسر کورونا کی آمد نے پوری کردی اور اب عالم یہ ہے کہ کوئی بھی کورونا کے علاج کیلئے سرکاری ہسپتالوں پر اعتماد کیلئے تیار نہیں۔
اسی طرح اگر شعبہ تعلیم کی بات کی جائے تو اعلان کے باوجود حکومت تاحال میٹرک اور انٹر کے طلبا کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے جس کی وجہ سے ان کا قیمتی وقت ضائع ہوتا جارہا ہے حالانکہ ان دنوں تک کالجوں میں داخلے ہوچکے ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے ابھی تک میٹرک کے نتائج کا اعلان نہیں کروایا جاسکا ہے، ساتھ ہی فاصلاتی نظام تعلیم اور آن لائن کلاسز کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ چکے ہیں اور ان سے دو تین فیصد طلبا ہی مستفید ہورہے ہیں اگر یہی حالت رہی تو صوبہ تعلیمی پسماندگی کے معاملہ میں اور بھی خراب پوزیشن پر چلا جائیگا، معیشت کی بات کی جائے تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری طبقہ کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔
شادی ہالوں اور نجی اسکولوں کی بندش کی وجہ سے ہزاروں ،لاکھوں ملازمین کی تنخواہیں اور آمدن کے راستے مسدود ہوچکے ہیں اور یہ لوگ انتہائی تکلیف کا سامنا کررہے ہیں، دکانوں اور مارکیٹوں کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے ،اس تناظر میں امید تھی کہ صوبائی حکومت ایک موثر ریلیف پیکج پر مبنی بجٹ کا اعلان کرتی مگر یہ بجٹ بھی الفاظ کا ہیر پھیر ثابت ہوا ، اگر صوبہ کی سیاسی صورت حال کی بات کی جائے تو کورونا اور لاک ڈاؤن سے پیدا ہونیوالی صورت حال کے تناظر میں اب تک تین اے پی سیز ہوچکی ہیں، قومی وطن پارٹی نے ویڈیو لنک کے ذریعے مشاورتی نشست کا اہتمام کیا تھا جس کے بعد پہلے جمعیت علمائے اسلام اور بعد ازاں پیپلز پارٹی کی طرف سے کل جماعتی کانفرنس بلائی گئی۔
تینوں کانفرنسوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ حکومت پر دباؤ ڈال کر لوگوں کیلئے زیادہ سے زیادہ ریلیف کو ممکن بنایا جاسکے، تاہم حیرت انگیز طور پر صوبہ کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی تاحال اس حوالے سے پراسرار طور پر خاموش دکھائی دیتی ہے، اے این پی کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک جو تین اے پی سیز ہوئی ہیں ان میں دعوت کے باوجود نہ تو مرکزی صدر اسفندیارولی خان نے شرکت کی اور نہ ہی صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ہی شامل ہونا گوارا کیا۔
جس کی وجہ سے اب پارٹی کارکنوں میں حیرت اور مایوسی کی لہر دوڑنے لگی ہے اور گزشتہ چند دنوں سے جس طرح پارٹی کے اندر اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری ہے ، جس طرح پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے عہدیدار از خود پراسرار طور پر مستعفی ہوتے جارہے ہیں اس سے بھی اب ان افواہوں کو تقویت ملنے لگی ہے کہ پارٹی کے اندر تنظیمی معاملات پر اختلافات چل رہے ہیں ،اس حوالے سے ساری انگلیاں موجودہ صوبائی صدر ایمل ولی کی طرف اٹھنے لگی ہیں اور یہ کہا جانے لگا ہے کہ وہ پارٹی کے اندر اختلاف رائے برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں اسی لئے جو بھی اختلاف رائے رکھتا ہے اس کے سامنے پھر مستعفی ہونے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہتا، اگرچہ پارٹی کی ترجمان ثمر بلور اس کو معمول کا ردوبدل کہہ کر پارٹی کا دفاع کرنے کی کوشش تو کررہی ہے۔
لیکن یہ سوال بہرحال اپنی جگہ برقرار ہے کہ اس تمام تر صورت حال میں چار مہینے گزرنے کے بعد بھی اے این پی تمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کیلئے آگے کیوں نہیں بڑھ پائی؟ اور اگر اس موقع پر پارٹی کی طرف سے اسی طرح مزید خاموشی اختیار رکھی جاتی ہے تو یقینا پارٹی کو پھر بھاری سیاسی خسارہ کیلئے بھی تیار رہنا ہوگا کیونکہ پہلے سے ہی موجودہ صوبائی صدر کے انتخاب پر کافی بے چینی پائی جارہی تھی اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ قیادت خود کو اس بھنور سے نکالنے میں کیسے کامیاب ہوتی ہے؟ ادھر صوبائی حکومت کی جانب سے انسداد کورونا مہم کے سلسلے میں مزید سختی کرتے ہوئے صوبائی دارالحکومت سمیت صوبہ کے مختلف علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کیا جاچکا ہے ۔