محسن اعجاز
ہر دورمیں ماہر تعلیم اور ارباب فکر ونظر کی یہ کوشش رہی ہے کہ نصاب بہتر سے بہترین ہو،کیونکہ اسی نصاب کی بنیاد پر ہمیں آنے والی نسلوں کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں استوار کرنا ہوتی ہیں۔ نصاب سازی میں جب تک چند اصول نہ رکھے جائیں ہمارا معاشرہ اور طلبا کبھی بھی فلاح اور کامیابی کی طرف نہیں بڑھ سکتے،یعنی نصاب بناتے ہوئے،معلم،تعلیم اور معاشرے کو مدنظر رکھا جائے،عملی سرگرمیوں اور طلبا کے میلان طبع کا بھی خاص خیال رکھا جائے،نصاب سخت ضرور ہو،تاہم اس میں لچک کا عنصر بھی بہت ضروری ہو،یہ سب تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب نظم وضبط کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔
پاکستان کے نظام تعلیم میں یکساں نصاب تعلیم کا ہونابھی بہت ضروری ہے۔ نصاب تعلیم میں یکسانیت نہ ہونے کے سبب طبقائی نظام کوترویج ملتی ہے، اسی لیےبچوں کی ذہنیت اور سوچ مختلف ہونے کی وجہ سے وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔اگر پاکستان کے نظام تعلیم کی بات کی جائے تو قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہاںتین مختلف اقسام کا متوازی نظام تعلیم رائج ہے ۔ ایک طرف تو ملک کے طول و عرض میں تیس ہزارسے زائد پھیلے ہوئے دینی مدارس ہیں،حکومت نے ماضی قریب میں مجوزہ داخلی سلامتی پالیسی کے تحت دعوی کیا تھا کہ مدارس کے نصاب کو عصر حا ضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا ئے گا اور ایک سال کے عرصے کے دوران ہی ملک میں موجود تمام دینی مدارس کو حکومتی نگرانی میں لایا جائے گا، لیکن ابھی تک اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
دوسری جانب غیر ملکی تعلیمی اداروں سے الحاق شدہ مغربی نصاب اور ماحول کے تعلیمی ادارے ہیں جہاں تعلیم پانے والے طلبا ءاعلی و ارفع سمجھے جاتے ہیں او ر ان کو طرز حکمرانی ہی سکھایا جاتا ہے۔اسی کے ساتھ دوسرے اور تیسرے درجے کے نجی ادارے بھی ہیں ،جو صرف ان بھاری فیسوں والے اداروں کی نقالی پہ مجبور ہیں اور تیسری قسم میں سرکاری ادارے شامل ہیں جن میں پاکستان کے دو تہائی طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن نصاب تعلیم کی سمت متعین نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارے بجائے اس کے کہ ملک بھر میں افرادی قوت کی ضرورت پوری کریں بے روزگار افراد کی تعدادمیں اضافہ کر رہے ہیں ۔
ہمارے ہاں ریسرچ کی کمی ہے اور بیرون دنیا کی ریسرچ پر انحصار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نصاب قومی ضروریات اور کردار سازی میں ناکام نظر آتا ہے۔اگر نصاب سازی کرنے کے ماہرین ہوں تو نصاب سازی قومی اْمنگوں کے مطابق ہو۔ یونیورسٹی میں بھی اعلیٰ تعلیم کے بعد تھیسس کے لیے ہم دوسرے ریسرچر کے مرہونِ منت ہوتےہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ بچوں کے لیے ان کا حصول ممکن نہیں ہے۔ نصاب سازی کرنے والے خود پاکستان کی تعلیمی ضروریات اور کردار سازی پیدا کرنے والے نصاب کو ترتیب دینے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ یکساں نظام تعلیم نہ ہونے کے سبب بچوں کی نشوونما پر اس کے اثرات اچھے نہیں پڑ رہے ہیں اور بچے ذہنی طور پر نفسیاتی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔
غیرملکی نصاب قوم کی ہم آہنگی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں تحقیق پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور غیروں کی تعلیمی تحقیق پر انحصار کم کرنا ہوگا، نصاب سازی میں مناسب موزوں اصلاحات اور تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارا نظام تعلیم بہتر اور معیاری ہوگا تو ہم دوسری قوموں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ ہم پراعتماد، ترقی یافتہ، خوش حال اور مثبت قوم ابھر کر سامنے آئیں گے۔ ہماری معیشت، زراعت، تجارت، درآمدات برآمدات میں تعلیمی نصاب کی تبدیلیوں کے سبب ترقی کا عمل سست ہے ۔ہمیں اپنے طلبا کو اعتماد دینا ہوگا جو والدین کے ساتھ دوستانہ اور مضبوط رشتے سے ہی ممکن ہے۔والدین سوسائٹی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،جبکہ اساتذہ بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔
اساتذہ کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے تربیتی پروگرامز بہت ضروری ہیں۔ خواہ وہ حکومتی سطح پر ہیں یا معاشرہ کی سطح پر۔ تاکہ اساتذہ کی استعداد کار میں اضافہ ہو اور وہ بچوں کو بہتر اور کوالٹی ایجوکیشن دے سکیں۔ والدین اور اساتذہ کی مشترکہ کوششیں ہوتی ہیں کہ انہوں نے بچے کے ذہن پر کون سا رنگ پینٹ کرنا ہے۔ جیسا رنگ بچے کے ذہن پر بچپن میں پینٹ کر دیا ویسا رنگ ہی پھر ساری زندگی اس میں شامل رہتا ہے۔ یہ سب والدین اور اساتذہ کے باہمی تعاون اور مشترکہ منصوبہ بندی سے ممکن ہے،لیکن بچوں کے لیے تعلیمی ضرورت کا پورا کرنا والدین اوراساتذہ دونوں کی ذمے داری ہے۔
حکومت پاکستان نے بے شمار تعلیمی پالیسیاں اور تعلیمی اصلاحات کی ہیں لیکن ان اصلاحات اور پالیسیوں پر عمل درآمد بہت کم ہوا ہے،کیوں کہ عموماً پالیسی ساز ماہرین نہیں ہوتے، جو ملکی حالات اور ماحول کے مطابق پالیسیاں بنائیں،جبکہ نصاب سازی میں بھی لاپرواہی سے کام لیا جاتا ہے ۔لہذا نصاب جدید تقاضوں اور ملکی ضروریات کو پورا نہیں کرتا ہے۔ پالیسی ساز ادارے کامیاب پالیسیاں بنانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ہمارا اعلیٰ درجے کا تعلیم کا نصاب تحقیق اور ریسرچ سے خالی ہے۔
اسی وجہ سے عملی زندگی میں طلباء اعلیٰ تعلیمی ڈگریوں کے حامل ہونے کے باوجود عملی زندگی میں ناکام نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ڈگریاں تو ان کے پاس ہیں لیکن ڈگریوں کے مطابق تعلیم نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں پاکستان کو شامل ہونے کے لیے جدید تعلیم، نصاب سازی میں تبدیلی اور تعلیمی پالیسی مؤثر بنانا ہو گی۔