• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف نے چند روز قبل اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشت سو سال کے بعد اتنے سخت بحران اور دبائو سے دوچار ہوئی ہے جس سے پوری دنیا کی معیشت پر رواں سال اور رواں مالی سال بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کی حکومت جو اس وقت معاشی میدان میں کورونا کی بدترین صورتحال کے باوجود اگر کچھ اصلاحات کر بھی رہی ہے تو اس میں پاکستان کے عوام بالخصوص اپوزیشن کو حقائق سے آگاہ کرنے اور سمجھانے کی وہ صلاحیت نہیں نظر آ رہی ، جو آنی چاہئے۔ ماضی کی حکومتوں نے اپنے ادوار میں سب سے زیادہ توجہ میڈیا مارکیٹنگ پر دی اور اس کی آڑ میں اربوں نہیں کھربوں روپے کے گھپلے کرنے کے باوجود بے گناہ اور مظلوم بلکہ معصوم بننے کے کامیاب مشن پر گامزن رہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے کچھ اچھے کام بھی کئے مگر ان کے باقی کارنامے کچھ زیادہ ہی ہیں، اس کے برعکس موجودہ حکومت جس کے پاس 2سال کی حکومت کا صرف ایک ہی کریڈٹ چلا آ رہا ہے کہ ہمارا وزیر اعظم ایماندار آدمی ہے۔ بھئی! اگر حکومت کے پاس انتظامی صلاحیتوں کا فقدان ہو اور گورننس کو بہتر بنانے کی وہ صلاحیت نہ ہو جو ہونی چاہئے تو ہر سطح پر عوام میں پریشانی تو بڑھے گی خاص کر ان طبقوں میں جن کے ووٹوں کی بنیاد پر حکومت اقتدار میں آئی۔

موجودہ دورِ حکومت میں کورونا کی صورتحال سے پہلے معاشی شعبے میں کئی قابل ذکر اصلاحات کا آغاز کیا گیا جس کو بین الاقوامی اداروں نے سراہتے ہوئے اپنی سپورٹ برقرار رکھنے کا اعادہ کیا۔ پھر آناً فاناً کورونا کے بحران نے امیر و غریب سبھی ممالک کو اپنی گرفت میں لے لیا اور پہلی بار ساری دنیا کی معیشت کی گروتھ کے دعوے زیرو ہو گئے۔ پھر آہستہ آہستہ امیر ممالک تو سنبھلنا شروع ہو گئے، وہاں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے یکجہتی کے ساتھ بحران میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور کسی کو نیچا دکھانے کے بجائے اپنے اپنے عوام کی صحت اور معاشی زندگی کی بہتری کو ترجیح دی، اس کے برعکس پاکستان میں کیا ہوا، یا اب تک کیا ہو رہا ہے، کورونا کے بحران میں حکومت اور اپوزیشن دونوں پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہیں، جس سے سب سے زیادہ متاثر اور پریشان عوام ہیں جنہیں کبھی سخت اور کبھی اسمارٹ لاک ڈائون کی صورتحال سے اور کبھی مختلف اقسام کی سختیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن قوم پر رحم کریں۔ ایک دوسرے پر حملے کرنے اور ایک دوسرے کو نااہل اور کرپٹ کہنے کی روش کے بجائے یہ دیکھیں کہ 22کروڑ عوام کا معاشی مستقبل کیا ہوگا۔

اس وقت بدترین معاشی صورتحال کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر اور کارپوریٹ سیکٹر میں جہاں فیکٹریاں اور کارخانے کئی طرح کے مسائل سے دوچار نظر آ رہے ہیں، وہاں بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر 25سے 30فیصد افراد کی ملازمتیں یا تو ختم ہوتی جا رہی ہیں یا ان کی تنخواہوں میں بے حد کٹوتی کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں کام کرنے والی غیرملکی کمپنیوں خاص طور پر فوڈ چینز کو اپنے کاروبار چلانے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر یہی صورتحال مزید چند ماہ برقرار رہتی ہے تو پھر پاکستان سے یہ لوگ تو چلے جائیں گے اور پھر صرف یہاں ٹریڈ اور امپورٹ ہو گی جس سے روزگار کے مواقع بڑھتے نہیں کم ہوتے ہیں۔ ان حالات کا احساس سب کو کرنا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کسی تاخیر کے بغیر تمام قومی جماعتوں کی وڈیو کانفرنس یا سب لیڈروں کو ’’ون آن ون‘‘ کال کریں۔ سب اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کریں، پھر اس ساری گفتگو سے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عوام کو آگاہ کیا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ حکومت اپنی طرف سے کتنا سچ بول رہی ہے اور اپوزیشن کتنا! اس سے سیاسی میدان میں ایک دوسرے پہ الزام تراشی میں مصروف افراد کو شاید ملک و قوم پر رحم آ جائے، وزیراعظم کو اس بارے میں زیادہ افراد سے مشاورت کے بجائے خود فیصلہ کرکے اپوزیشن کی طرف قدم بڑھانا چاہئے۔ اس کے جواب میں اگر اپوزیشن مجموعی طور پر یا کوئی جماعت انفرادی طور پر حکومت سے تعاون نہیں کرتی تو پھر سارے حقائق عوام کے سامنے رکھ دیے جائیں اور اگر اپوزیشن بدانتظامی کے حوالے سے کچھ چیزوں کی نشاندہی کرتی ہے تو اعلیٰ ظرفی کے جذبے کے ساتھ حکومت اس سے عوام کو آگاہ کرے۔ حالات میں بہتری کا یہی ایک راستہ ہے جس پر بالآخر جمہوریت بچانے کے لئے سب کو چلنا ہوگا۔

تازہ ترین