• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگرچہ کورونا کے خلاف جنگ میں معمول کی زندگی کا خواب جلد حقیقت سے ہم کنار ہوتا دِکھائی نہیں دیتا، تاہم درجنوں اقسام کی پابندیوں، مایوسی اور نااُمیدی کے گہرے بادلوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں کے افق پر ماہرینِ طب، سائنس دانوں اور تجزیہ کاروں نے اُمید کی صُورت نمودار ہونے والی کرنوں کی بھی نشان دہی کی ہے۔ یہ امید افزا کرنیں پیغام دے رہی ہیں کہ کورونا کو جلد یا بدیر ختم اور انسان کو بالآخر فتح یاب ہونا ہے۔اِس اندھیرے میں روشنی کی علامت وہ چند ممالک ہیں، جنہوں نے چھے سات ماہ کی اعصاب شکن جنگ کے بعد بالآخر کورونا کو شکست دی یا پھر ایسی حکمتِ عملی اپنائی کہ یہ وائرس کم سے کم جانی اور مالی نقصان کا سبب بن سکے۔ان ممالک کی تعداد صرف 13 ، 14 ہے، لیکن عزم و ہمّت اور کام یاب حکمتِ عملی کی علامت یہ ممالک ،اُن مُلکوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں، جو آج بھی اس موذی وبا سے لڑتے ہوئے کسی حوصلہ دینے والے کی تلاش میں ہیں۔

کیوی وزیرِاعظم کا رقص

نصف کروڑ آبادی کے مُلک، نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم، جسینڈا آرڈرن نے 5مئی 2020ء کو خوشی سے پُھولے نہ سماتے ہوئے اپنی قوم کے سامنے فخریہ اعلان کیا کہ’’ نیوزی لینڈ اب کورونا فِری مُلک بن چُکا ہے، کیوں کہ لاک ڈائون ختم ہونے کے 15روز بعد بھی کوئی مریض رپورٹ نہیں ہوا۔‘‘ اِس کے ساتھ ہی شہریوں کو اجتماعات میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ سماجی فاصلے اور ماسک کی پابندیاں بھی ایک حد تک ختم کر دی گئیں۔ تعلیمی اور کاروباری مراکز کُھل گئے۔ وزیرِ اعظم نے بتایا کہ جب اُنھیں کورونا کے آخری مریض کی صحت یابی کی اطلاع ملی تو وہ خوشی سے جھوم اُٹھیں۔ اُنھوں نے بے اختیار رقص کیا۔ 

نیوزی لینڈ میں کورونا کے 1487مریض سامنے آئے، جب کہ 27اموات ہوئیں۔ طبّی ماہرین نے لاک ڈائون کی پابندیوں اور شہریوں کے ذمّے دارانہ رویّے کو کام یابی کا راز قرار دیا۔ وزیرِاعظم نے پریس کانفرنس میں کہا’’ اگر ہم لاک ڈائون کی پابندیوں پر سختی سے عمل نہ کرتے، تو یہاں روزانہ 1000افراد کی ہلاکت کا خطرہ تھا۔‘‘ اب وہاں کے شہریوں کا فخریہ طور پر کہنا ہے کہ’’ ہم دنیا میں سب سے پہلے طلوعِ آفتاب دیکھنے والی قوم ہیں اور کورونا کی شکست کے معاملے میں بھی پہل ہمارے ہی حصّے میں آئی ہے۔‘‘

آسٹریلیا کی کام یابی

آسٹریلیا اگرچہ اُن ممالک میں تو شامل نہیں، جو کورونا سے مکمل طور پر چھٹکارا پا چُکے ہیں، تاہم یہاں مریضوں کی تعداد اور اموات کی شرح بہت کم رہی۔ جون کے اواخر تک کُل 7409کیسز میں سے 6880صحت یاب ہوئے، جب کہ 102اموات ہوئیں۔ صحت یابی کی شرح اور اموات کی کمی کو آسٹریلیا کی ایک بڑی کام یابی سمجھا جا رہا ہے۔واضح رہے، مرنے والوں کی اوسط عُمر 80سال تھی۔ مارچ 2020ء میں سب سے زیادہ کیسز کے بعد اب اس تعداد میں حیرت انگیز طور پر کمی آ رہی ہے۔ آسٹریلوی عوام بھی پابندیوں پر سختی سے کاربند نظر آئے، جنہیں اب ریلیف دیا جا رہا ہے۔

چین نے کیا کیا؟

چین نے سب سے پہلے پابندیاں اُٹھانے اور ووہان شہر کھولنے کا اعلان کیا، لیکن اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے اُسے بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔ چین میں دسمبر میں اس وبا کا آغاز ہوا اور اسے شکست دینے والا پہلا مُلک بھی یہی ہے۔ جب حالات بہتر ہوئے، تو دنیا بھر کے طبّی ماہرین کے 40رکنی وفد نے عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر کی قیادت میں چین کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ لیا۔ ڈاکٹر ایل وارڈ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’چین نے رائج الوقت طریقِ علاج کو جدید سائنسی انداز میں ڈھال کر اُسے ہر شخص کے دروازے تک پہنچایا۔ کورونا کے خلاف جنگ کا اہم ترین حصّہ گھروں میں بند ڈیڑھ کروڑ افراد کو بروقت آن لائن خوراک پہنچانا تھا۔ 

دوسرا اہم ترین کردار اُن 40ہزار میڈیکل ورکرز کا ہے، جن کا تعلق دوسرے صوبوں سے تھا، لیکن اُنہیں ہنگامی طور پر متاثرہ علاقوں میں اضافی مدد کے لیے طلب کیا گیا۔ تیسرا کردار مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اُن لاکھوں افراد کا تھا، جو عارضی طور پر بے روزگار ہوگئے تھے، لیکن اُنہیں مصروف رکھنے کے لیے اُن کی خدمات ہنگامی طور پر کورونا کے لیے طلب کی گئی تھیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ہائی وے میں ملازم تھا، تو اُن دنوں وہ لوگوں کے ٹمپریچر گن کے ساتھ درجۂ حرارت بھی نوٹ کرتا اور گھروں میں راشن تقسیم کرتا۔‘‘ ڈاکٹر ایل وارڈ نے مزید لکھا’’ ان رضا کاروں اور ہر گلی، بازار میں گشت کرنے والے پولیس اہل کاروں نے کمال کر دکھایا۔ یہ رضا کار کلیریکل اسٹاف پر مشتمل تھے یا یونی ورسٹیز، کالجز، زراعت، ٹرانسپورٹیشن اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔‘‘ عالمی ادارۂ صحت کے وفد کو بتایا گیا کہ 2002ء میں سارس نامی وبا کے وقت لوگوں کے میڈیکل ٹیسٹ لینے کا جو نظام اور ڈھانچا مرتّب کیا گیا تھا، وہ اس موقعے پر کارآمد ثابت ہوا۔ 

مریضوں کی ٹریکنگ کا حال یہ تھا کہ کوئی ایک مریض بھی ایسا نہ تھا، جس کی اس کے خاندان سمیت مکمل میڈیکل اور ٹریول ہسٹری موجود نہ ہو۔ڈاکٹر ایل وارڈ کے مطابق’’ سب سے بڑھ کر یہ کہ چین نے بحیثیت قوم متحد ہو کر اس آفت کا مقابلہ کیا۔ ایک روز ہم ووہان شہر میں رات کو باہر نکلے۔ نیویارک سے بڑے شہر میں لوگ اس قدر محتاط تھے کہ وہ شہر یہ رات کو ’’بھوتوں کے مسکن‘‘کا منظر پیش کر رہا تھا۔ عمارتوں کی کھڑکیاں بند تھیں، لیکن مجھے احساس تھا کہ بند کھڑکی کے پیچھے چینی قوم کے ایک ایک فرد کا عزم و ہمّت سے سرشار دِل دھڑک رہا ہے۔ چینی قوم دنیا کو یہ بتانا چاہتی تھی کہ اگر اس کی سرزمین سے یہ وبا شروع ہو سکتی ہے، تو ختم بھی ہوسکتی ہے۔‘‘

جاپان کے منفرد طریقے

جاپان نے ابھی تک کورونا پر مکمل فتح حاصل نہیں کی، لیکن گنجان ترین آبادی کے باوجود مریضوں کی تعداد اور شرحِ اموات میں کمی اور بعض دیگر عوامل نے دنیا بھر کے طبّی ماہرین کی توجّہ جاپان کی طرف مبذول کروالی ہے۔ جاپان نے مُلک میں اُس وقت ایمرجینسی ختم کرنے کا سوچا، جب کیسز کی تعداد 12رہ گئی۔ ماہرین کے لیے حیرت کا باعث بننے والے چند عوامل یہ تھے کہ دنیا کے سب سے گنجان آباد شہر، ٹوکیو میں سوشل ڈسٹینسنگ، تعلیمی اور کاروباری مراکز کی بندش اور کسی قسم کی نقل و حرکت پر کوئی خاص پابندی عاید نہیں کی گئی تھی، حتیٰ کہ وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی سینٹر بھی نہیں بنایا گیا اور نہ ہی وسیع پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ کیے گئے۔ جب کہ دنیا بھر میں ٹیسٹس پر زور دیا جا رہا تھا۔ 

گروپ آف سیون میں سب سے کم اموات (تقریباً ایک ہزار) جاپان میں ہوئیں۔ طبّی ماہرین کے نزدیک، جاپان کی کام یابی کے پس پردہ کوئی ایک وجہ کارفرما نہیں، البتہ ماسک پہننے کا کلچر، اسکولز کی سب سے پہلے بندش اور جاپانیوں کا موٹاپے کی بجائے اسمارٹ ہونا چند بنیادی وجوہ ہیں۔ اصل میں جاپانی قوم اپنی صحت کا حد سے زیادہ خیال رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں عُمر کی اوسط شرح دنیا میں سب سے زیادہ (84سال) ہے اور سب سے زیادہ بوڑھے بھی(آبادی کا 25فی صد) جاپان میں ہیں۔ 

جاپانیوں نے ماسک پہننے، سماجی فاصلہ برقرار رکھنے جیسے اقدامات خود اختیار کیے اور دوسرے ممالک کی طرح حکومت کو سختی نہیں کرنی پڑی۔ جاپانیوں نے کورونا کے کم پھیلائو کی ایک وجہ اپنی جاپانی زبان بھی بتائی، جس کو ان کے بقول بولتے وقت سانس کے ساتھ بہت کم لعابِ دہن خارج ہوتا ہے اور یہ زبان کے حروفِ تہجّی کا کمال ہے کہ بولتے وقت بہت کم جراثیم دوسروں کو منتقل ہوتے ہیں۔ جاپان نے پہلے ہی سے قائم پبلک ہیلتھ سینٹرز سے بھی خُوب فائدہ اُٹھایا، جس کے پاس 25ہزار نرسز اور لوگوں کا میڈیکل ریکارڈ(بالخصوص انفلوئنزا اور ٹی بی کا) پہلے سے موجود تھا، چناں چہ کورونا کے جو نئے مریض سامنے آئے، ان کا ٹریکنگ ریکارڈ رکھنے میں آسانی ہوگئی اور وبا آئوٹ آف کنٹرول نہ ہوئی۔ 

ماہرین کے مطابق، کورونا کے ابتدائی دنوں میں جاپان کے ایک مسافر بردار بحری جہاز کے مسافر بھی اس مرض کا شکار ہوگئے۔ ایک جاپانی ڈاکٹر کے بقول’’یہ ایسا ہی تھا، جیسے ہمارے گھر کے سامنے کار کو آگ لگ گئی ہو۔ ہم نے بحری جہاز کے مریضوں کے علاج اور مرض کے کنٹرول کے لیے جو طریقے اپنائے، وہی بعد میں کام آئے‘‘۔ جاپان میں ’’تھری C‘‘ کا بھی بہت چرچا رہا، یعنیAVOID CLOSE SPACES, CROWDED SPACES, CLOSE CONTACTS۔جاپانی سوشل ڈسٹینسنگ کے مقابلے میں اسے بہتر فارمولا قرار دیتے ہیں۔ اس دوران ایک سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس خطّے میں سب سے زیادہ قوّتِ مدافعت جاپانیوں میں پائی جاتی ہے، اس لیے بہت سے مریض صرف نزلہ زکام کی معمولی شکایات کے بعد خود بخود ٹھیک ہوگئے۔ 

ٹوکیو میں 500افراد کے اینٹی باڈیز ٹیسٹ کے بعد کہا گیا کہ اگر لوگوں میں یہ خصوصیت نہ ہوتی، تو مریضوں کی تعداد 20گنا زیادہ ہوتی، لیکن بعض طبّی ماہرین جاپان کے ڈھیلے ڈھالے اور اسمارٹ لاک ڈائون سے مطمئن ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر خدانخواستہ دوسری لہر آئی، تو بوڑھے زیادہ تعداد میں اس کا شکار ہوں گے۔ جاپان میں اگرچہ ایمرجینسی کا خاتمہ ہو چُکا ہے، لیکن انتظامی اور کاروباری سرگرمیاں معمول پر نہیں آ سکیں، بالخصوص سیّاحت میں 99فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ اب جاپانی بھی برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں کام یابی کے باوجود اس وائرس کے ساتھ زندگی بسر کرنی پڑے گی۔

یورپ کا ماڈل، یونان

چین میں کورونا کی ریکارڈ ہلاکتوں کے بعد اگرچہ اس وائرس نے یورپ کا رُخ کر لیا تھا، جہاں برطانیہ، اسپین، جرمنی، اٹلی، فرانس اور دیگر ممالک میں ہلاکتوں کی تعداد نے دنیا کو حیران کر دیا، لیکن جانی و مالی تباہ کاریوں کے درمیان ایک یورپی مُلک ایسا بھی تھا، جس نے بہتر حکمتِ عملی سے کورونا کی تباہ کاریوں کو محدود کر دیا۔ اسپین، اٹلی، برطانیہ، جرمنی میں جہاں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، وہاں ایک کروڑ، 10لاکھ کی آبادی والے مُلک، یونان میں کُل 2ہزار مریض اور تقریباً 1000اموات سامنے آئیں۔ بعدازاں، اسی بنیاد پر یونان کو ’’کریک ماڈل کرائسسز مینجمنٹ‘‘ کا اعزاز دیا گیا۔ یونان یورپ کا پہلا مُلک تھا، جہاں دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں سب سے پہلے لاک ڈائون، بحری، برّی اور فضائی راستوں سے آنے والے مسافروں کو قرنطینہ کا پابند بنایا گیا۔ 

یونان نے ایمرجینسی بنیادوں پر فون سروس شروع کی، جس سے ڈھائی لاکھ سے زاید مریضوں کو اسپتالوں میں جانے کی ضرورت نہ پڑی۔ 4ہزار اضافی ڈاکٹرز اور نرسز کا انتظام کیا۔ میڈیکل آلات کی تعداد دُگنی کر دی گئی۔ ماہرینِ طب اب ان تمام اقدامات کو’’ TEXT BOOK EXAMPLE‘‘ قرار دے رہے ہیں، جن سے دوسرے ممالک فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔طبّی ماہرین کے نزدیک یونان سے جو کچھ سیکھا جا سکتا ہے،وہ یہ ہے کہ’’ اُنہوں نے وقت کو سب سے قیمتی اثاثہ قرار دے کر فوری اور بروقت اقدامات کیے۔‘‘

تائیوان کے فوری فیصلے

جان ہوپکنز یونی ورسٹی، امریکا کے مطابق دو کروڑ، چالیس لاکھ آبادی کے مُلک تائیوان نے بھی کورونا کو تقریباً پسپا کر دیا ہے۔ یہاں 15جون تک صرف 7اموات ہوئیں۔ تائیوان اگرچہ چین سے صرف 130کلومیٹر کی دوری پر ہے، لیکن اُس نے فوری طور پر سینٹرل ایپیڈیمک کمانڈ سینٹر قائم کر کے فضائی، بحری اور برّی راستے بند کر دیے۔ آنے والے مسافروں کو قرنطینہ میں رکھا۔ حکومت نے میڈیکل گریڈ ماسک کی پروڈکشن دگنی کر دی۔ ماہرینِ طب نے تائیوان کی اس کام یابی کے پسِ پردہ قرنطینہ جیسے فوری فیصلے، مرکزی پلاننگ اور جدید ٹیکنالوجی کو قرار دیا ہے۔

سنگا پور میں شفا یابی کا ریکارڈ

یہ بھی اُن ممالک میں شامل ہے، جنہوں نے وبا کی خبر سنتے ہی پروازوں پر پابندی لگا دی تھی۔ سنگا پور میں 40 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے، لیکن اکثریت، یعنی 33ہزار سے زائد افراد صحت یاب ہو گئے اور صرف 26اموات ہوئیں، یہ شفایابی کا ایک ریکارڈ ہے۔ حکّام حفاظتی تدابیر کی سختی کے باوجود مریضوں کی بڑھتی تعداد سے پریشان تھے، لیکن پھر معلوم ہوا کہ مریضوں کی اکثریت نواحی گنجان آباد علاقوں سے تعلق رکھتی ہے، جہاں شپنگ اور کنسٹرکشن انڈسٹری سے وابستہ تارکینِ وطن آباد ہیں۔ اس کے بعد لاک ڈائون سخت کر دیا گیا، جس کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔ سنگاپور ہفتوں تک روز مرّہ زندگی پر بڑی پابندیاں لگائے بغیر کورونا کو قابو کرنے میں کام یاب رہا۔ تاہم، حالات مارچ کے وسط میں اُس وقت زیادہ خراب ہوئے، جب ہزاروں لوگ دوسرے ممالک سے سنگاپور واپس آئے۔ 

اُن میں سے 500افراد ایسے تھے، جو اپنے ساتھ وائرس بھی لائے۔ باہر سے آ کر مرض کو پھیلانے والوں کی تعداد اب 9سے کم ہو گئی ہے۔ سنگا پور کے طبّی ماہرین نے دنیا بھر کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اپنے اپنے ممالک میں تارکینِ وطن کی گنجان آبادیوں پر خصوصی نگاہ رکھیں، جو مل جل کر رہتے ہیں۔ سنگاپور اُن ممالک میں سرِفہرست ہے، جہاں صحت یاب ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جنوبی کوریا میں بھی شرحِ اموات بہت کم رہی، جس کی وجہ بھی بنیادی طور پر قرنطینہ اور سماجی فاصلہ قرار دیا جاتا ہے۔

آئس لینڈ میں کیا ہوا ؟

آئس لینڈ اگرچہ بہت زیادہ خبروں کا موضوع نہیں رہا، لیکن یہاں صحت یابی کی غیر معمولی شرح نے طبّی ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا۔3 لاکھ، 64 ہزار کی آبادی والے اس یورپی مُلک میں 15جون تک کل 1819کیسز سامنے آئے، جن میں سے 1801 صحت یاب ہوگئے اور 10ہلاکتیں ہوئیں۔ اس صورتِ حال پر معروف اخبار’’ نیو یارکر‘‘ نے لکھا کہ’’ اس مُلک نے صرف مریضوں کو صحت یابی سے ہم کنار نہیں کیا، بلکہ عملی طور پر اپنی سرزمین سے اس وائرس کا خاتمہ بھی کر دیا۔‘‘ یہاں 28 مارچ کو پہلا مریض سامنے آنے کے بعد ماہرین ہوشیار ہو گئے تھے، پھر رفتہ رفتہ تعداد بڑھتی گئی، حتیٰ کہ پابندیوں سے پہلے ایک خاتون نے 200افراد کو یہ وائرس منتقل کیا، جنہیں قرنطینہ میں بھیج دیا گیا۔ آئس لینڈ نے سخت لاک ڈائون نافذ نہیں کیا۔ اس کا واحد کارنامہ، اپنی آبادی کے ہر شخص کا ٹیسٹ کر کے اُس کا ریکارڈ رکھنا تھا۔ جو مریض سامنے آئے، اُن کا بروقت علاج کیا گیا۔ آئس لینڈ کی کام یابی کا راز پبلک ہیلتھ اتھارٹیز کو قرار دیا جاتا ہے، جنہوں نے ایک منظّم پلان نافذ کیا، جس میں کسی سیاست دان کا دُور دُور تک عمل دخل نہیں تھا۔ 

کوسٹ گارڈ ہیڈ کوارٹرز میں روزانہ ماہرینِ طب عوام کو مرض کے بارے میں بریفنگ دیتے اور سوشل میڈیا پر گمراہ کُن اطلاعات کی تردید کرتے۔ مثلاً لوگوں کے ذہنوں میں یہ بِٹھا دیا گیا تھا کہ اگر وہ بلیچ پائوڈر پی لیں، تو کورونا اندر ہی مر جائے گا۔ آئس لینڈ کی آمدنی کا 40 فی صد حصّہ سیّاحت کا مرہونِ منت ہے۔ ان دنوں میں جب 20 لاکھ سیّاح آنا بند ہو گئے، تو حکومت نے عوام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے مُلک کی سیّاحت کریں۔ آئس لینڈ کے طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ’’اُنہیں جنوری 2020 ہی میں چین کی حالت دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا کہ مستقبل میں کیا آفت آنے والی ہے۔ 

چناں چہ فوراً تیاریاں شروع کردی گئیں۔ اسپتالوں میں ہیلتھ کیئر ورکرز، آلات اور بیڈز کی گنجائش کو بڑھای گیا، لہٰذا جب وائرس نے حملہ کیا، تو ہم ذہنی اور عملی طور پر اس کے لیے بالکل تیار تھے۔ چناں چہ یہاں کورونا سے شرحِ اموات صرف 0.56 فی صد رہی، جو دنیا میں سب سے کم ہے۔‘‘ آئس لینڈ میں ماسک پہننا صرف ایسے لوگوں کے لیے ضروری قرار دیا گیا، جنہیں کھانسی یا سانس کی تکلیف تھی، لیکن ایسے لوگوں کو گھروں یا اسپتالوں سے باہر نکلنے نہیں دیا گیا، لہٰذا یہاں کوئی شخص ماسک پہنے کوئی نظر نہ آیا۔ آئس لینڈ کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ یہ دنیا کا دُور دراز، برف سے ڈھکا علاقہ ہے اور یہاں باقی ممالک کے مقابلے میں آمدورفت محدود ہے۔ ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ اگر آئس لینڈ نے فوری طور پر 20 سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی، تعلیمی ادارے بند نہ کیے ہوتے اور دشمن کے حملہ آور ہونے سے پہلے بھرپور تیاری نہ کی ہوتی، تو آج اس کی تعریف کرنے والا کوئی نہ ہوتا۔

مونٹی نیگرو، پہلا یورپی کورونا فِری مُلک

البانیہ، سربیا اور کروشیا سے ملحق اس مُلک نے 25 مئی کو خود کو’’ کورونا فِری‘‘ قرار دیا ۔ یہاں کورونا کے کل 355 مریض سامنے آئے، جن میں سے 315 صحت یاب ہوگئے، جب کہ 9 جانبر نہ ہو سکے۔ مونٹی نیگرو کی آبادی تقریباً ساڑھے 6 لاکھ ہے۔ حکّام کا دعویٰ ہے کہ وہ یورپ کا پہلا کورونا فِری مُلک ہے اور اس نے اپنی سرحدیں بھی جزوی طور پر کھول دی ہیں۔

اریٹیریا، فجی، ویٹی کن سٹی، شمالی آئرلینڈ، سب کورونا فِری

صرف 52لاکھ آبادی والے اس افریقی مُلک نے، جس کی سرحدیں سوڈان اور ایتھوپیا سے ملتی ہیں، 15 مئی کو کورونا کے صفر کیسز ہونے پر خود کو کورونا فِری مُلک قرار دیا تھا۔ یہاں 39مریض رپورٹ ہوئے، جو سب صحت یاب ہو گئے۔ اسی طرح جزائر فجی کے وزیراعظم نے بھی جون کے مہینے میں مُلک کو کورونا سے پاک قرار دیا اور کہا کہ’’ یہ دعائوں، محنت اور جدید علاج معالجے کا نتیجہ ہے۔‘‘ 9 لاکھ کی آبادی والے فجی میں 18 کیسز سامنے آئے اور سب کے سب صحت یاب ہو گئے۔ یہاں وبا پھیلتے ہی اجتماعات اور کھیلوں پر پابندی لگا دی گئی۔ 

فجی کے وزیراعظم نے کہا کہ’’ اگر ہم وبا کے خلاف اقدامات میں تاخیر اور سُستی کرتے، تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے تھے۔‘‘ پاپوانیوگنی میں، جس کی آبادی 80 لاکھ ہے، صرف 8 مریض سامنے آئے، جو مئی تک صحت یاب ہوگئے۔ اٹلی میں واقع 108 ایکڑ پر مشتمل ویٹی کن سٹی میں 8مارچ کے بعد 12مریض سامنے آئے، جو تمام صحت یاب ہو گئے۔ 21جون کو شمالی آئرلینڈ نے بھی لاک ڈائون کے کئی روز بعد کوئی مریض سامنے نہ آنے پر خود کو کورونا فری قرار دیا۔

کورونا نے5 برّاعظموں کے تقریباً 200 ممالک کے باسیوں کو متاثر کیا اور نظر نہ آنے والا وائرس سمندروں، صحرائوں، برفیلے میدانوں، جنگلوں میںکسی کو خاطر میں لائے بغیر پھیلتا چلا گیا۔ دنیا میں بعض ممالک اب تک اپنی غفلت، تاخیری اقدامات، عوام کے غیر سنجیدہ طرزِ عمل اور اپنی کنفیوزڈ پالیسی کی سزا بھگت رہے ہیں، لیکن بعض ممالک، چاہے وہ چھوٹے اور غیر معروف کیوں نہ ہوں، اپنے سنجیدہ طرزِ عمل اور بروقت اقدامات سے اپنے شہریوں کا تحفّظ کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ یہ ممالک مایوسی اور نااُمیدی میں گِھرے اعصاب زدہ، پریشان حال، زندگی سے بے زار لوگوں کو کم از کم یہ پیغام ضرور دیتے ہیں کہ کورونا کو جلد یا بدیر اس کرّۂ ارض سے بالآخر ختم ہونا ہی ہے۔ خاص طور پر اگر حکومتیں اور عوام متحد ہو جائیں، تو پھر کورونا کو راہِ فرار اختیار کرنی ہی پڑتی ہے۔

جہاں کورونا پہنچا ہی نہیں

ایک ایسے وقت، جب دنیا کے تقریباً 200ممالک میں کورونا کے خلاف جنگ جاری ہے،بعض ممالک ایسے بھی ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ہاں کورونا سِرے سے پہنچا ہی نہیں۔ ان ممالک کی اکثریت بحرالکاہل میں واقع چھوٹے چھوٹے، خود مختار جزیروں پر مشتمل ہے اور ان کی آبادی بھی چند لاکھ تک محدود ہے۔ ان خود مختار ممالک میں سولومن جزائر ناورو، (Nauru)، پالائو (Palau) ، سموا (Samoa)، ٹونگا (Tonga)، وانوآتو (Vanuatu) اور بائیکرونیشاء شامل ہیں۔ 

اس کے علاوہ شمالی کوریا نے بھی اسی قسم کا دعویٰ کیا ہے کہ ان کے ہاں مرض پہنچا ہی نہیں، جسے عالمی ادارۂ صحت ماننے کو تیار نہیں۔ اسی طرح بحرالکاہل کے خود مختار جزائر کے دعووں سے متعلق طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی سائنسی طور پر تصدیق ضروری ہے۔ وسط ایشیائی مُلک، ترکمانستان کا بھی دعویٰ ہے کہ وہاں کورونا نہیں پھیلا، لیکن ماہرین حکومت کے اس بیان کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے۔

چند چھوٹے ممالک کے اعداد وشمار

جزائر مالیایوس(کل کیسز 104،اموات 0)، بھوٹان (مریض 67،اموات4)،برما (مریض 262 ،اموات2)، کمبوڈیا (127-0)، کروشیا(مریض 2258 ،اموات 1)، کیوبا( مریض 2280 ،اموات 9)، قبرص( مریض 985 ،اموات 1)، فن لینڈ( مریض 7116 ،اموات 11)، یونان( مریض 3203 ،اموات 9)، ہنگری( مریض 4078 ،اموات 7)، لکسمبرگ( مریض 4058 ،اموات 5)، لبنان( مریض 1488 ،اموات 14)، ماریشیس( مریض 337 ،اموات 0)، منگولیا( مریض201 ،اموات 1)، ناروے( مریض 8692،اموات 14) سری لنکا( مریض 1923 ،اموات 7)،تھائی لینڈ( مریض 3100 ،اموات 1)، یوراگوئے( مریض 849،اموات 0)، ویت نام( مریض 319،اموات 0)۔ 

متذکرہ اعداد وشمار ماہِ جون کے آخری ہفتوں کے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، استحکام سے ہم کنار ان ممالک کی صُورتِ حال میں مزید بہتری کی توقّع ہے کہ یہ وہ ممالک ہیں، جن کی آبادی کم اور عالمی آمد و رفت بھی محدود ہے۔ اِس لیے لاک ڈائون جیسے اقدامات زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔

تازہ ترین