• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آٹا، چینی، چاول، پیٹرول، ادویات، حتیٰ کہ 22کروڑ عوام کے روز مرہ استعمال کی ضرور ی اشیا کے معاملہ میں بھی منافع خور مافیا کا ملک میں آئے روز مصنوعی قلت کا بحران پیدا کرنا محض آج کی بات نہیں، ماضی میں بار ہا قوم ان مسائل کا سامنا کرتی آئی ہے جس سے قیمتوں میں غیر ضروری اور مصنوعی اضافہ ہونا ایک منطقی بات ہے۔ اگر شروع ہی میں ان عناصر کی سرکوبی کر دی جاتی، ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جاتا تو آج حالات بہت بہتر ہوتے۔ ملک میں گزشتہ چھ ماہ سے جاری چینی کا بحران ایک ایسی تلخ حقیقت ہے اور جس دیدہ دلیری سے غریب عوام اور حکومت کو اندر ہی اندر دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا، اس کی مثال گزشتہ 72برسوں میں بھی نہیں ملتی۔ جس پر پی ٹی آئی حکومت نے انکوائری کمیشن تشکیل دے کر اس کی جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں بہت سے چھپے حقائق سے پردہ تو اٹھا دیا مگر معاملہ سدھرنے کے بجائے ہنوز بگڑتا چلا جا رہا ہے جس کی بازگشت اب یوٹیلٹی اسٹورز پر مہنگی چینی کے حوالے سے سنی جا رہی ہے۔ جہاں تک شوگر کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ کا معاملہ ہے، اگرچہ اس اسکینڈل میں ملوث بہت سے پردہ نشینوں کے نام منظر عام پر آئے تاہم جب تک عدالتی کارروائی کے تحت حتمی فیصلہ نہیں آ جاتا، کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ البتہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سے اب تک ان 43دنوں میں شوگر ملز مالکان نے اس کے خلاف ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا جس کا مقصد رپورٹ کو کالعدم قرار دلانا ہے۔ جمعرات کے روز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے شوگر کمیشن رپورٹ پر کارروائی روکنے سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی وفاقی حکومت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکلا سے تحریری دلائل طلب کیے ہیں۔ چیف جسٹس کی ہدایت کے مطابق کیس کی آئندہ سماعت اب تین رکنی بینچ کرے گا۔ دورانِ سماعت فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن متذکرہ رپورٹ سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ کمیشن کو غیر قانونی قرار دے دیں تو پھر بھی رپورٹ ختم نہیں ہو گی اور نہ ہی ریگولیٹری اداروں کو کام کرنے سے روکا جا سکتا ہے بلکہ کمیشن رپورٹ کالعدم ہونے سے بھی شوگر ملوں کو کچھ حاصل نہ ہو گا، اب یہ ممکن نہیں کہ کچھ ملزمان کے خلاف کارروائی کو روکا جائے اور باقی کے خلاف کارروائی جاری رہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ادارے رپورٹ کا حوالہ دیے بغیر کارروائی جاری رکھ سکتے ہیں، یہ محض کمیشن رپورٹ ہے۔ دورانِ سماعت شوگر ملز مالکان کے وکیل نے اپنے موقف میں شوگر کمیشن کی قانونی حیثیت، اس کی غیر جانبداری، مل مالکان کی بات نہ سننے، انکوائری کمیشن کے قیام کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کا سوال اٹھایا جس پر فاضل عدالت نے ریمارکس دیے کہ گزٹ نوٹیفکیشن اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ کوئی چیز خفیہ نہ رہے جبکہ شوگر ملز کمیشن کی تشہیر میڈیا پر ہوئی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اس موقع پر موقف اپنایا کہ کمیشن رپورٹ میں شوگر ملوں پر بہت سے الزامات سامنے آئے ہیں جو آنکھیں کھولنے کے مترادف ہیں۔ فاضل عدالت کے ریمارکس کی روشنی میں یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ چینی عوامی نوعیت کا معاملہ ہے۔ مہذب دنیا کا کوئی بھی قانون کسی شخص کو بھی عوامی مفادات سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ملک کے 22کروڑ عوام کی اکثریت محنت مزدوری سے روزی کما کر کئی کئی افراد پر مشتمل کنبوں کا پیٹ پالتی ہے۔ چینی، آٹے، پیٹرول کے معاملات اپنے اندر انتہائی پیچ در پیچ حقائق کو چھپائے ہوئے ہیں جن پر سے پردہ بھی اٹھنا چاہئے اور ان الجھاووں میں چھپے ہوئے عناصر بلاامتیاز قانون کی گرفت میں آنے چاہئیں۔

تازہ ترین