• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جانیے،’’انسانی صنفِ سخن‘‘ ایک جیتی جاگتی زندگی سے، دوسرے عالمِ رنگ و بُو میں کیسے لے جاتی ہے 

سوشلزم و کمیونزم کے فلسفے سے متاثر ادب سمیت، پر وہ کہانی کے اندر یوں گندھی ہوئی تھیں کہ آج بھی قاری سے واسطہ رکھتی ہیں۔ گویا کہانی کا دل چسپ ہونا، بین السطور میں پیغام کو دھیمے سُروں میں رکھنا اور پیغام کا بنیادی انسانی معاملات و فطرت سے علاقہ رکھنا ضروری ہے۔

فِکشن جادو اور اُمید پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو درگاہوں، نجومیوں اور فقیروں کے ہاں ازل سے جاری ہے۔ فِکشن یہی کام تخلیقی طور پر اور خاص سلیقے سے کرتا ہے۔ بقول این لٹز ’’ایک ناول نگار، حقیقت نگار ہو یا طلسماتی طرزِتحریر کا مالک، اپنی تخلیق کردہ دنیا میں اپنی خواہش کے مطابق معانی پیدا کرلیتا ہے۔ اس دنیا میں اچھا انسان فتح یاب ہوتا ہے، بیمار بچّہ تن درست ہوجاتا ہے اور بےسہارا اور غریب، یتیم بچّے کو غیرمتوقع دولت حاصل ہوجاتی ہے۔‘‘بین الاقوامی شہرت یافتہ فرانسیسی ادیب،مارسل پراؤسٹ کاناول، سوانزوے اپنے ایک کردار کی زبانی فِکشن کے حوالے سے کہلواتا ہے کہ’’فِکشن کا ایک اہم اور عظیم کام ایسی شفّافیت، وضاحت اور اطمینان بخش انداز میں بیان کرنا ہے، جو ایک خبر یا صحافتی مضمون میں بیان کرنا قریباً ناممکن ہے۔‘‘ فِکشن اس امر کو ممکن بناتا ہے کہ قاری ایک کردار کے دماغ میں جھانک سکے اور ایک خاص سطح پر کردار سے تعلق قائم کرسکے، اس کی سوچوں کو نہ صرف سمجھ سکے بلکہ جذبات بھی محسوس کرسکے۔ 

بانو قدسیہ نے ایک منفرد بات کہی تھی کہ ’’جب کسی مجرم کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کرو، تو اُس کی ماں بن کر بھی سوچو۔‘‘ یعنی بہت سے مجرم ہم دردی کے مستحق ہوتے ہیں۔ وہ حالات کے قیدی یا سرشت کے غلام ہوتے ہیں۔ سَو، معاملے کو دیگر پہلوؤں سے بھی دیکھا جانا چاہیے۔ موسیقی، فلم، رقص کے علاوہ عبادت، مراقبہ اور گیان دھیان انسان کو اس کی موجودہ مادی دنیا سے کسی دوسرے جہان میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ایک اچھا ناول (یا کچھ حد تک افسانہ بھی )انسان کو نہ صرف اس کی موجودہ دنیا سے دوسرے عالمِ رنگ و بُو میں لے جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی اپنی زندگی کی بہت سی بھولی بسری باتیں یاد کروا دیتا ہے۔ نان فِکشن میں مزاح قدرتی طور پر کہیں اِکّادُکّامقامات پر آجاتا ہے، جب کہ شگفتہ و مزاحیہ فِکشن میں دانستہ جواز تراش کر مزاح کی گُل کاری کی جاتی ہے تاکہ قاری کی ظرافت ِ طبع کا انتظام کیا جائے۔ 

دل گرفتہ و رنجیدہ قاری کو شفیق الرحمان، ابنِ انشا، مشتاق یوسفی یا پی جی وُوڈ ہاؤس کا مطالعہ شگفتہ اور تروتازہ کردینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فِکشن اپنے قارئین کو مصنف کے تصوّر کے نزدیک ایک ہی مقام پر منتقل کردیتا ہے۔ عُمدہ فن پارے کا قاری اعلیٰ بنگلے میں قیمتی آرام کرسی پرنیم دراز ہو، حجام کی دکان پر لکڑی کے بینچ پر اپنی باری کا منتظر ہو یا ٹرین میں کھڑکی کی جانب والی نشست پر بیٹھا ہو، مصنف کے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔

بعض ناقدین اسے حقیقت سے فرار بھی کہتے ہیں۔ اگریہ سچ ہے تو امتحانی کمرے میں کھڑکی سے باہر دیکھتا طالب ِ علم، ٹی وی پر ڈراما دیکھتا ناظر اور اسٹیڈیم میں میچ دیکھتا شایق، سبھی اپنی ذاتی حقیقی زندگیوں سے فرار میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔ درحقیقت فِکشن کامطالعہ فرار نہیں بلکہ زندگی کا وسیع ترمشاہدہ اور احساس ہے۔ یہ کنویں کی منڈیر پر بیٹھ کر سمندر کا نظارہ ہے۔ ویسے بھی تجسّس انسانی گُھٹی میں شامل ہے۔ دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنا، نباتات و جمادات کی عادات و حرکات کا مشاہدہ، کائنات کی گتھیاں سلجھانا اور دروں بینی آدمی کے خمیر میں ہے۔ انسان موجِ حیات پہ سفر کرتا تنکا ہے۔ 

جزاوسزا، مقدّرواختیارپرمباحث عام ہیں۔ یہ حقیقت بہرحال طے ہے کہ ایک انسان کا اختیار محدود ہے۔ اسّی برس کی عُمر میں اُس کا قومی ٹیم کا کھلاڑی ہونا، سترہ برس کی عُمر میں مُلک کا صدر بننا (آئینی حدبندی) اور نیم خواندگی کے ساتھ ڈاکٹریٹ کے طلبہ کو لیکچر دینا مشکل امور ہیں۔ ایک ناول، قاری کو ان سبھی رنگوں، جذبوں اور ذائقوں سے روشناس کروادیتا ہے، جو عملی زندگی میں اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ فِکشن قاری کو ایک زندگی میں کئی زندگیاں گزارنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ 

جدید ریاستوں میں بچّوں کو فِکشن یعنی ناولز، ڈراموں اورافسانوں کامطالعہ اس لیے کروایا جاتا ہےکہ اُن سے بچّے کا ذہن وسیع ہوتا ہے، امکانات کی دنیا کُھلتی ہےاورانسان وہ تجربہ بھی کرگزرنے کاسوچتاہے، جوبظاہر ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ حقائق و فلسفے کو خشک سبق میں پیش کیاجائے، بور کر دینےوالےلیکچر یاسُلا دینے والے مضمون، انسانی توجّہ حاصل نہیں کرپاتے۔ 

البتہ انھیں کہانی میں موتی کی طرح پرو کر پیش کیا جائے تو انسانی حافظے میں باآسانی محفوظ ہوجاتے ہیں۔ ’’سوفی کی دنیا‘‘ ،’’فاؤنٹین ہیڈ‘‘، ’’سدھارتھا‘‘ اور بے شمار بین الاقوامی ادبی شاہ کار مختلف نوعیت کی معلومات کو اپنے دامن میں لیے جگ مگ کررہے ہیں۔ گلستان اردو میں ’’آگ کادریا‘‘، ’’جنت کی تلاش‘‘ ،’’راکھ‘‘ ،’’کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ ،’’غلام باغ‘‘ اوردیگرچنیدہ فِکشن پارے، گُل پارے ایسی معلومات سے رَس بھرے ہیں۔ البتہ اُردو کے دیگرناولز میں بہ نسبت سوالات پیدا کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔ ایک زوال آمادہ تہذیب میں جہلا کا استدلال ہوتا ہے کہ گفت گو کا مقصد بات پہنچانا ہوتا ہے۔ 

ناراضی کا اظہار تہذیب سے ہوسکتا ہے اور گالی سے بھی۔ اپنے شہروں اور گھروں کو سجانا نفاست کی علامت ہے، نیند تو ریچھ بھی اپنی کچھاروں میں پوری کرلیتے ہیں۔ جمالیات انسان کو وحشی جان وَروں سے ممتاز کرتی ہے، پھر یہ جمالیات زبان میں کیوں نہ چمکے؟ہر لفظ لذّت کا ایک نوالہ ہوتاہے۔ اسی طرح ہر حرف کا ایک ذائقہ ہے۔ تمام عظیم تہذیبیں سنسکرت، رومن، یونانی، عربی اور فارسی کے الفاظ کی صحت پر خاص توجّہ دیتی تھیں۔ حقائق سے ہٹ کر ادب انسان کو نئے الفاظ سے روشناس کروا کے تہذیب کے اونچے درجے تک لے جاتا ہے۔ نئے الفاظ فقط فہم کو وسیع ہی نہیں کرتے بلکہ نئے دَربھی وا کرتے ہیں۔ 

مثلاً انگریزی کے لفظ Coyness کا مفہوم جھجک، لاج، سادگی، حجاب وغیرہ کے زیادہ قریب ہے۔ البتہ لفظ ’’حیا‘‘ کے ساتھ ہی ایک مشرقی شرم ذہن میں آجاتی ہے۔ بیش تر لغات میں ان دونوں الفاظ یعنی Coyness اور حیا کو ہم معنی لیا گیا ہے، جب کہ حیا کا رنگ کچھ اور ہے۔ اِسی طرح اردو کے لفظ ’’روشنی‘‘ کے مترادفات میں نور، دمک، چمک وغیرہ شامل ہیں۔ ان الفاظ کے رنگ مختلف ہیں، جو مطالعے اور معاشرتی بول چال ہی سے واضح ہو پاتے ہیں۔ ہرنیا لفظ دماغ میں ایک نئے رنگ کا بلب روشن کرتا ہے اور فِکشن اس امر میں معاون ہے۔ ماہرینِ لسانیات کے مطابق الفاظ اظہارہی نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات ایک لفظ سے نئی سوچ بھی پُھوٹتی ہے۔

ایک اچھے فن پارے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ وہ خود بھی ایسا ہی سوچتا ہے۔ یعنی مصنّف قاری کے اَن کھوجے یا اَن کہے جذبات کو زبان دے دیتا ہے۔ علمائے ادب کا خیال ہے کہ موثر، رواں اور عُمدہ تحریر اپنے قاری میں احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ بھی ویسا لکھ سکتا ہے، پر جب لکھنے بیٹھے تو لکھ نہ سکے۔ خدائے سخن، غالبؔ نے کیا خُوب اس فلسفے کو ایک شعر کے کوزے میں بند کیا ہے۔ ؎ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا…مَیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ جہاں ادیب کے لیے ادب پارہ، کتھارسس یا اخراجِ تناؤ کا باعث بنتا ہے، وہیں پر یہ قاری کے بھی دبے، گُھٹے، اَن جانے اور اَن کہے جذبات کے اخراج کا ذریعہ بنتا ہے۔ گویا قاری بذریعۂ مصنّف ایک فن پارے کے مطالعے سے کتھارسس پاکر آسودگی، اطمینان اور تکمیل کے جذبات سے رُوشناس ہوتا ہے۔

فِکشن کا قاری کسی دوسرے کردار یا شخص کے جذبات، خیالات، فطرت اور مزاج کو، انگریزی محاورے کے مطابق، اس کے جوتوں میں کھڑے ہو کر دیگر کی بہ نسبت زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتاہے۔ اس سےوسعتِ نظر کے علاوہ وسعتِ قلب بھی پیدا ہوتی ہے۔ وہ معاشرے، جہاں مطالعے کا رجحان عام ہے، اپنے مزاج میں تحمّل، برداشت اور وسیع النظری کے عناصر زیادہ رکھتے ہیں۔ انسان اپنے پیدایشی جغرافیے، معاشرے اور مذہب سے ہٹ کر بھی سوچ سکتا ہے اور تعصّبات سے کافی حد تک آزاد ہوسکتاہے۔ پاکستان کو اس کے سفیروں کی کوششوں سے کم سمجھاگیاہے۔ بیپسی سدھوا کے ناولز، دانیال معین الدّین کی کہانیوں اورمحسن حامد، محمّد حنیف اور ایچ ایم نقوی وغیرہ کی تحریروں سے زیادہ سمجھا گیا ہے۔ افغان معاشرے کو مغربی برادری کے لوگ خالد حسینی کے ناولز سے زیادہ سمجھے ہیں۔ 

کھلاڑی اور ادیب جدید معاشروں کے نئے اورموثر سفیر ہیں۔ امریکا کی ایک تحقیق ہے۔ سینٹ لوئی میں واقع واشنگٹن یونی ورسٹی میں فِکشن کا مطالعہ کرنے والے قارئین کےدماغوں کی اسکیننگ کی گئی۔ اس سائنسی دماغی پڑتال نے واضح طور پر ثابت کیا کہ قارئین کے دماغوں میں مطالعے کے دوران ایسی واضح تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں، جو تبھی واقع ہو سکتی تھیں، جب وہ حقیقی طور پر ان تجربات سے گزرتے۔ یعنی مطالعہ انسان کو تجربے کے بہت قریب لے جاتا ہے۔ محقّقین نے واضح کیا ہے کہ لازم نہیں فِکشن اپنے تمام قارئین پر مثبت اثرات مرتّب کرے۔ اس میں بہت پیچیدہ عوامل شامل ہو جاتے ہیں۔ البتہ بیش تر قارئین کی شخصیات، خصائل اور نقطہ ہائے نظر پر مثبت اور تعمیری اثرات مرتب ہونے کے ٹھوس امکانات ضرور موجود ہوتے ہیں۔ 

ادراکی سائنس کے حوالے سے یہ امر ثابت شدہ ہے کہ ادب وفن سامع، ناظر اور قاری کی شخصیت پر اس طرح اثرانداز ہوتے ہیں کہ وہ اس کے مزاج اور خصائل میں شعوری یا غیر شعوری طور پر تبدیلی لےآتے ہیں۔ جب فِکشن کا قاری اس کے ایک کردار میں اپنی ذات سے مماثلت پاتا ہے، تو وہ کردار کے اندر رُونما ہونے والی تبدیلیوں کواپنے اوپر منطبق کرکے تغیّر کے عمل سے گزرتا ہے۔ کوئکن، مئیال اور سیکورا (Kuiken, Miall, & Sikora)کی اہم تحقیق کے مطابق فِکشن کامطالعہ قاری کو درجہ بہ درجہ خُودشناسی اور ماخوذ کرنے کے تجربے سے بہرہ ور کرتا ہے۔ یوں قاری کی شخصیت ترمیم اور تبدیلی سے گزرتی ہے۔ اس نوع کی تحقیقات میں The Big Five Inventory (فہرست ِ خمسہ / پنجِ اکبر) از (John et aI. 1991)مرتب کی گئی۔ اس فہرست میں شخصیت کے پانچ پہلوؤں پر بالعموم ادب اور بالخصوص فِکشن کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ۔ یہ چوالیس انواع و اقسام کے حصّوں پرمشتمل فہرست ہے۔ شخصیت کے پانچ اور اہم منتخب کردہ پہلو ہیں۔ 

بروں بینی (کارل یونگ نامی معروف نفسیات دان کا تجویز کردہ شخصی پہلو، جو کئی تحقیقات میں مستعمل ہے)احتیاط، بااصولی اور باضمیری، موافقت وخوش مزاجی، جذباتی یا اعصابی استحکام، اوروسعت مزاجی، صاف گوئی، شفّاف ضمیری۔ جذبات کی دس اقسام کو زیرِغور لایاجاتا ہے۔ یہ دس اقسام ہیں۔ 

غمگینی، اندیشگی، مسرت، بوریت، طیش، خوف، قناعت، جوش و ہیجان، بےچینی اورمرعوبیت۔ درست نتائج حاصل کرنےکےلیےمتن میں یکساں دل چسپی برقرار رکھی جاتی ہے۔ اس طرح یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ متعلقہ افراد کے مزاج و جذبات میں رُونما ہونے والی تبدیلیاں متن میں بڑھی یا گھٹی ہوئی دل چسپی کی وجہ سے نہ ہوں بلکہ سائنسی تجربے میں کار فرما عناصر آزاد ہوں۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ فِکشن کامطالعہ قاری کے دماغ پر حقیقت کے مماثل ایسی تصویر چلاتا ہے، جیسے کمپیوٹر سیمولیشن ایک کمپیوٹر پر چلتی ہے۔ 

تین متواتر تجربات نے ثابت کیا کہ جب طلبہ نے ناول، ہیری پوٹر کے تعصّب کے خلاف، مساوات کو مثبت انداز میں پیش کرنے اور فرد کی آزادی سے متعلق اقتباسات پڑھے تو اُن کی آرا میں واضح مثبت تبدیلیاں نظر آئیں۔Emory University کی تحقیق میں فِکشن پڑھنے والوں اور نہ پڑھنے والوں کے دماغوں کا معائنہ اور موازنہ کیا گیا تو یہ امر سامنے آیا کہ ایک مخصوص ناول کے مطالعے کے بعد قارئین کے دماغوں میں left temporal cortex میں بڑھی ہوئی سرگرمی جانچی گئی۔ دماغ کا یہ مخصوص حصہ تفہیمِ لسان اور ذخیرئہ الفاظ سے متعلق ہے۔ متنوّع الفاظ کی تفہیم متنوّع جذبات، حالات اور معاملات کو سمجھنے میں کارآمد ہوتی ہے۔

سائنسی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ایک قاری کی یادداشت میں کمی اور دماغی زوال ایک غیرقاری کی نسبت بڑھاپے میں 32فی صد کم ہوتاہے۔ موضوع میں ثقالت اور گرانی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک دل چسپ اور ہلکا پھلکا پہلو توجّہ طلب ہے۔ فِکشن بہت سی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا محرّک بناہے۔ وہ جارج آرویل کا 1984 نامی ناول ہو یا ٹونی موریسن کی سیاہ فام استحصال کے حوالے سے تحریریں۔ قیامِ پاکستان کے بعد نسیم حجازی کے ایمان افروز اور مجاہدانہ خُو بیدارکرتے تاریخی ناول ہوں (ان کے مثبت و منفی اثرات سے ہٹ کر ان کی اثر پذیری طے شدہ امر ہے)،بانو قدسیہ کے ناول، راجا گدھ(حرام وحلال کے غیرمستند فلسفے سے ہٹ کر) عمیرہ احمد کے وسیع حلقۂ قارئین والے نیم اسلامی، نیم اصلاحی ناول یا دیگر کئی تحریریں ہوں، اُن کے پاکستانی معاشرے پر کم و بیش منفی ومثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ حیران کُن طور پر مغرب میں بہت سے ناول اور افسانے سائنسی ایجادات کا بھی باعث بنے۔ ان ناولز سے نئےخیالات نے جنم لیا، جن سے نئے امکانات کی کونپلوں نے سر اٹھایا اور چند شوریدہ سروں نے خیال کو ٹھوس شکل دینے کی ٹھانی اور کام یاب ٹھیرے۔ 

داستانِ انسان درحقیقت شوریدہ سروں کی داستاں ہی تو ہے۔ مارٹن کُوپر نے1970 کی دہائی میں پہلا موبائل فون ایجاد کیا۔ وہ اس ایجاد کا سہرا ایک ناول پر بننے والی ٹی وی سیریل اسٹار ٹریک کے سر سجاتا ہے۔ اس امریکی سیریز نے ایک پوری نسل کو (بشمول پاکستانی نسل) متاثر کیا تھا۔ اس میں کئی نئے معروف ہونے والے آلات میں ایک آلہ "Communicator" کمیونی کیٹر تھا۔ یہ بے تار کا فون تھا اور جدید موبائل فون کا جدِامجدبھی۔ فرانسیسی مفکّر اورناول نگار، جولز ورن کو ’’بابائے سائنس فِکشن‘‘ بھی کہا جاتاہے ۔ اس کے معروف ناولز میں ’’زمین کے بیچ تک کا سفر‘‘، ’’دنیا کے گرد اسّی روز میں‘‘ اور ’’سمندر کے نیچے ہزار لیگز(فاصلہ پیما)‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین