• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کوئی کہانی‘ داستان یا تاریخی واقعہ منفی کردار سے خالی نہیں‘ منفی کردار جسے آج زمانے میں ’’ولن‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے‘ تاریخ اسلام میں بھی بے شمار منفی کردار ہیں‘ ان میں سب سے پہلے اور سب سے بڑے کردار کا نام ’’عبداللہ بن اُبی ّ‘‘ تھا‘ جسے آج تک ’’رئیس المنافقین‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے‘ یعنی دوغلے لوگوں کا سردار‘ یہ بظاہر مسلمان ہو گیا تھا‘ مسجد میں نماز ادا کرتا تھا‘ نبی آخر الزماں کی محفل میں بیٹھتا‘ ان کی مصاحبت اختیار کرتا‘ تعریف و توصیف بھی کرتا رہتا تھا لیکن دل میں آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کے خلاف بغض و عناد رکھتا تھا۔ انہیں نقصان پہنچانے‘ شکست دینے اور مدینہ سے نکال باہر کرنے کی آرزو پالتا رہتا۔ وجہ بیان کی جاتی ہے کہ مدینہ منورہ کے دونوں بڑے قبائل ’’اوس‘‘ اور ’’خرج‘‘ میں دیرینہ دشمنی چلی آتی تھی‘ دونوں ایک دوسرے سے لڑتے اور خون بہاتے رہتے۔ عبداللہ اُبی ّ دہری شخصیت کی وجہ سے دونوں میں مقبول تھا‘ قبائل نے اسے اپنا سردار تسلیم کر لیا اور اسے بادشاہ بنا لینے کی تجویز ہوئی جو مان لی گئی‘ بادشاہت کا عام اعلان ہونا ابھی باقی تھا کہ مدینہ کے چند افراد مسلمان ہو گئے اور آخری زمانے کے پیغمبرؐ کی آمد کا چرچا ہونے لگا جس کی وجہ سے ابن اُبی ّ کی تاجپوشی ملتوی ہوتے ہوتے‘ مہاجرین مکہ کی آمد کے بعد ہمیشہ کیلئے کھٹائی میں پڑ گئی‘ اسے اپنے بادشاہ نہ بن سکنے کا رنج تھا چنانچہ وہ ساری عمر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی درپردہ کوششیں کرتا رہا۔ آخر کار ’’جنگ احد‘‘ کے موقع پر اسے اپنے خبث باطن کے اظہار کا موقع مل گیا‘ کفار مکہ نے مسلمانوں کیخلاف جنگ کیلئے مدینہ پر چڑھائی کر دی‘ تین ہزار کا لشکر مسلمانوں کے خلاف چڑھ آیا تو مسلمان ایک ہزار کی تعداد میں مقابلے کو نکلے جن میں عبداللہ ابن ابی ّ کے تین سو ساتھی بھی تھے‘ ابن ابی ّ جنگ کے ہنگام میں اپنے تین سو ساتھیوں کے ہمراہ جنگ سے منہ موڑ گیا‘ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی واقع ہو گئی‘ ایک تہائی فوج میدان سے ہٹ گئی ‘ جس سے ان کی جنگی حکمت عملی کو شدید نقصان پہنچا‘ مگر انہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ ستر (70) جانثار شہید ہوئے ‘ جن میں سید الشہداء امیر حمزہ ؓ بھی شامل تھے۔ حضور پاک زخمی ہوئے اور ان کے دو ’’دندان مبارک‘‘ بھی شہید ہو گئے۔ اس واقعہ میں صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی ’’سپاہ‘‘ کیلئے سبق ہے کہ متذبذب اور دوغلے لوگوں کو ہمراہ لے کر فیصلہ کن معرکے کیلئے کبھی نہ نکلیں‘ اگرچہ تعداد میں کم ہوں مگر ان کے اند رمکمل ہم آہنگی اور مقصد کے ساتھ غیرمشروط وفاداری ہونا چاہئے۔
پاکستان میں جمہوریت کے قیام اور بدعنوانی‘ کرپشن کے خاتمے کیلئے جتنی تحریکیں اٹھیں ان کو بعض مخلص اور دردمند لوگوں کی قیادت‘ عوامی جوش و جذبہ میسر ہونے کے باوجود اس لئے ناکام ہوئیں کہ ان میں ذاتی فائدہ اٹھانے والے‘ کچھ بھائو بڑھانے والے‘ باقی گرد اڑانے والے شامل ہوتے گئے۔ جوں جوں معرکہ گرم ہوا سب اپنے اپنے منافقین کے ساتھ واپس ہو لئے‘ اس طرح سچے لوگوں کے جذبے کو ٹھنڈا اور حوصلوں کو توڑنے کا سبب بنے۔ آج پوری دنیا کے امن اور ریاستوں کے استحکام کو جن بھیانک خطرات کا سامنا ہے‘ ان میں سب سے خوفناک دہشت گردی اور بدعنوانی(کرپشن) کے خطرات ہیں، البتہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ ان میں بڑا عفریت دہشت گردی ہے یا کرپشن؟تیسری دنیا کے غریب ملکوں کو بیک وقت دونوں خطرے درپیش ہیں۔ ان میں بھی مسلمان ملک اور مسلمان ممالک میں پاکستان‘ افغانستان اور مشرقی وسطیٰ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ بدعنوانی کے عفریت کے خلاف بار بار عوام میں ردعمل پیدا ہوتا رہا‘ جس کے نتیجے میں کبھی فوج‘ کبھی سیاسی حکمرانوں کو موقع ملا کہ وہ اس خطرے کا تدارک کریں لیکن دونوں طرح کے حکمران اس سے نجات دلانے میں ناکام رہے‘ بلکہ اس نمک کی کان میں خود بھی نمک ہوگئے۔ آج پھر خوش قسمتی سے قدرت کی طرف سے ساری قوموں کو اپنے اپنے بدعنوان پہچاننے‘ الگ کرنے اور ان سے جان چھڑوانے کا موقع دیا جا رہا ہے‘ کچھ ملکوں کے عوام تیزی کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے معاشرے کی صفائی کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں‘ ان میں احتساب کا کوڑا برسنے لگا ہے۔ پاکستان اس سنہری موقع پر ایک مرتبہ پھر بھائو بڑھانے‘ فائدہ اٹھانے اور گرد اڑانے والے ہراول کا حصہ ہیں۔’’پانامہ لیکس‘‘ کی ’’لیک‘‘ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی کے مرحوم او رغیرمرحوم قائدین کے نام بھی شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کے چھاج کے ساتھ ’’اے این پی‘‘ کی چھلنی بھی بولنے لگی ہے‘ جس کے لیڈر کیخلاف ان کی اپنی محترم والدہ اولین گواہ ہیں‘ یہ حضرات خود مدعی بن کر ایک دفعہ پھر قوم کا مقدمہ خراب اور عوام کی مایوسی کا سبب بننے والے ہیں۔
عمران خان کے قوم سے خطاب میں ایک بات تو کھل کر سامنے آئی اور سب پر واضح ہو گیا کہ سیاست کے محاذ پر معرکہ آرائی شروع ہونے والی ہے‘ اب کے بار لاہور ’’پانی پت کا میدان‘‘ بنے گا۔ کہا جاتا ہے کہ عنقریب شروع ہونے والا یہ مقابلہ کسی نتیجے پر پہنچ کر ہی ختم ہوگا۔ ہر روز نئے انکشافات اور میڈیا کی یلغار نےصورت حال کو نازک تر بنا دیا ہے۔ عمران خان کے بقول ان کے مطالبات قطعی اور دو ٹوک ہیں اور انہیں ان کے مطالبات کے حق میں میڈیا کی تائید اور عوام کی پذیرائی حاصل ہے۔ وزیراعظم کا استعفیٰ‘ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کمیشن کا قیام دونوں مطالبات سانپ کے منہ میں چھپکلی کہ ’’اگلی جائے نہ نگلی‘‘ نہ مانو تو چڑھائی ہے ‘ وہ بھی لاہور اور لاہو ر سے رائے ونڈ۔ پنجاب پولیس میں ہمت کہاں کہ بپھرے عوام کا سامنا کرے‘ رہ گئی فوج تو وہ پہلے غیرجانبدار رہی‘ اب بھی غیرجانبدار ہے۔ عمران خان کا مطالبہ اور وزراء کا جواب المطالبہ انتہائی رسہ کشی کی شکل اختیارکرسکتا ہے‘ خان کی کوشش ہوگی کہ وزیراعظم استعفیٰ دے کر الگ ہوں‘ وزارت عظمیٰ کوئی اور چلائے جو وزیراعظم کی افتاد طبع کے خلاف ہے‘ وہ اپنی پارٹی کا دوسرا وزیراعظم ہرگز قبول نہ کریں گے‘ دوسرا آپشن کہ وہ اسمبلی توڑ کر الیکشن میں جائیں‘ سیدھے سلجھائو پر رستہ انہیں کون دے گاکیونکہ بھاگ نکلنے والا انتخاب جیت نہیں سکتا‘ اس ساری صورتحال میں عمران خان کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ انہیں عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے اور صورتحال کو غیر آئینی اقدام کے خطرے سے بھی بچانا ہے‘ کہ پارلیمنٹ کی دونوں بڑی پارٹیوں کو فوری الیکشن کی بجائےکسی اور اقدام کی خواہش ہوگی۔ ان کی آبرو‘ دولت اور سیاست اسی میں بچ سکتی ہے۔ عمران کو بھگتنے کی بجائے کسی اور کے ساتھ نباہ کا وہ بہتر تجربہ رکھتے ہیں فوج کے ساتھ رفاقت ہو یا محاذ آرائی دونوں صورتوں میں انہیں فائدہ ہی پہنچا ہے کبھی نقصان نہیں اٹھایا، چنانچہ عمران خان کی بجائے کسی اور حکومت کے ساتھ نبا ان کیلئے آسان تر ہے۔ غیر آئینی اقدام کا فائدہ انہیں ہوگا‘ سارا الزام اور نقصان کپتان کے کھاتے میں‘ اس لئے ہر فیصلہ سوچ اور ہر قدم پھونک کر رکھنا ہوگا۔
تازہ ترین