محترم سیدمنورحسین کی وفات پرہر شخص خواہ اس کاتعلق جماعت اسلامی سے ہو یا نہ ہو، مرحوم کے بارے میں یہ گواہی دے رہا ہے کہ مرحوم انتہائی مخلص، ایماندار، دیندار اور بےلوث شخص تھے۔ قول وفعل میں انتہائی کھرے، ہر بات سوچ سمجھ کر کرنے والے اور اپنی کی ہوئی بات پر ڈٹ جانے والے تھے۔ انکے دل و دماغ پر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا خوف نہ تھا۔ وہ جماعتی ڈسپلن میں بےلچک تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام بلند پایہ خصوصیات کے باوجود مرحوم دوبارہ امیرجماعت کاالیکشن کیوں نہ جیت سکے۔ سابقہ روایات کے مطابق موجودہ امیراپنی صحت اور دیگر وجوہات کی بنا معذرت نہ کرے اور اس کا نام امرا کی لسٹ سے نہ نکالا جائے تو وہ امیر منتخب ہوتا رہتا ہے۔ خود کوئی رکن اپنا نام امارت کیلئے پیش کرسکتا ہے اور نہ جماعت کے دستور کے مطابق کنوینسنگ ہوسکتی ہے۔ ووٹ نہایت رازداری سے دیے جاتے ہیں۔ اسی روایت کے مطابق محترم سراج الحق صاحب دوبارہ امیر منتخب ہوئے اور آئندہ بھی تاحیات ہوتے رہیں گے۔ منور حسن صاحب کے دوبارہ امیر منتخب نہ ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ واقعی ارکان جماعت نے ان کو کچھ متنازعہ بیانات کی وجہ سے انہیں دوبارہ امیرجماعت منتخب ہونے کے قابل نہ سمجھا ہو۔
دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کسی بیرونی دبائو کے باعث الیکشن کے نتائج تبدیل کردیئے گئے ہوں۔ اس ممکنہ دھاندلی کے بارے میں مرحوم نے اپنی الوداعی تقریر میں اشارہ بھی دیا کہ الیکشن میں پانچ ہزار ووٹ غائب ہوئے ہیں۔ جس کی نظیر جماعت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ زیادہ سے زیادہ پانچ دس ووٹ ڈاک میں گم ہو جائیں تو ہو جائیں۔ مرحوم نے اس کی تحقیق کا مطالبہ بھی کیا۔ اس تقریب میں متعدد ارکان جماعت، صحافی اور ہمدرد موجود تھےجو اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں: پہلا یہ کہ جماعت اسلامی جیسی نیک اور بااصول تحریک میں ایسی غیراخلاقی حرکت کیوں کی گئی۔؟ دوسرا منصورہ میں موجود کون سے لوگ ہیں جو اس قبیح حرکت کےمرتکب ہوئے؟
منورحسن نے دوران امارت اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جو پاکستانی فوجی امریکا کی جنگ لڑ رہے ہیں انکو شہید کہنا درست نہیں کیونکہ یہ کفر اور اسلام کی جنگ نہیں ہے۔ بعد میں یہ ثابت بھی ہوگیا کہ جو روسی گولی سے مرے وہ شہید اور جو امریکی گولی سے مرے وہ دہشت گرد کہلائے۔ چنانچہ اس بیان کے بعد ملک میں ایک طوفان برپا ہوگیا، کچھ ارکان جماعت بھی ناراض ہوئے اور مختلف حلقوں کی طرف سے شدید دبائو پڑا کہ امیر جماعت معافی مانگیں یا ان کو امارت سے علیحدہ کر دیا جائے۔ اس پر ایک طرف تو مرحوم اپنے اصولی موقف پر ڈٹ گئے اور دوسری طرف جماعت کے دستور کے مطابق انہیں امارت سے الگ کرنا ممکن بھی نہ تھا۔
مارچ 2014ء میں امیرجماعت اسلامی کے انتخاب سے قبل غالبا ًاسی طرح دبائو ڈالا گیا اور واضح پیغام دیا گیا کہ منور حسن کا امیر بننا ہمیں منظور نہیں۔ اس الیکشن کے انچارج حفیظ احمد کے مطابق انہیں اس دھاندلی پرآمادہ کرنے کیلئے اسلامک پبلیکیشنز کا منیجنگ ڈائریکٹر بنایا گیا۔ انتخاب کے نتیجے کا اعلان تو دبائو کے مطابق کر دیا گیا مگر اس غلطی کے ذہنی دبائو کے باعث حفیظ صاحب صرف ایک ہفتہ مزید زندہ رہے۔ اپنی وفات سے قبل اس غم اور دکھ کا اظہار انہوں نے حکیم عبداللہ جہانیاں کے صاحبزادے حکیم عبدالوحید سلیمانی سے کیا اور انہیں کی وساطت سے یہ تفصیل مجھ تک پہنچی۔ افسوس یہ ہے کہ ان تینوں منور حسن،حفیظ احمد اور عبدالوحید سلیمانی میں سے کوئی بھی اس دنیا میں باقی نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنےجوار رحمت میں جگہ دے آمین۔
اگر دیکھا جائے تو اس دھاندلی کے علم میں آجانے کے بعد محترم سراج الحق صاحب کو پانچ ہزار ووٹوں کی گمشدگی کی تحقیقات سے قبل امارت کا حلف نہیں اٹھانا چاہئے تھا جبکہ یہ مطالبہ منور حسن صاحب نے انکی موجودگی میں اپنے الوداعی خطاب میں کیا تھا۔ میری اطلاع کے مطابق 2014ء میں منتخب ہونے کے بعد انہوں نے مرکز جماعت میں ذمہ داران کو تبدیل کرنا چاہا تو انکے اس عمل کو قبول نہیں کیا گیا بلکہ کہا گیا کہ ابھی وہ جماعت کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد وہ مجوزہ تبدیلیاں کرلیں۔ اور پھر ہوا بھی یہی کہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد انہوں نےجناب لیاقت بلوچ کو نائب امیر بنا کر کھڈےلائن لگا دیا۔ ان تمام احباب سے جو برس ہابرس سےجماعت سے وابستہ ہیں، ہر محاذ پر جماعت کے ساتھ ہیں اور ہر طرح کی مالی اور اخلاقی مدد فراہم کرتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ جماعت کے اختلافی تنزلی کے موقع پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے یا کوئی عملی قدم اٹھانے کے بارے میں بھی سوچیں گے۔ ایسا نہ ہوا تو مجھے ڈر ہے ہم سب کو اللہ تعالیٰ کےحضور جوابدہ ہونا پڑے گا۔ امیرجماعت کے انتخاب میں پہلی انجینئرنگ خرم جاہ مراد نے ڈیزائن کی۔ ضیاالحق مرحوم کے دور صدارت میں ضیا الحق کے بےحد شیدائی ہونے کی وجہ سے میاں طفیل محمد صاحب نے پوری جماعت کو مارشل لا کی گود میں ڈال دیا۔ میاں صاحب کی اس پالیسی سے ہمارے والد صاحب کو بھی اختلاف تھا۔ انہوں نے جماعت کو چور دروازے سے اقتدار میں آنے کے خطرات سے آگاہ کر دیا تھا۔ انہیں جماعت کے لوگوں کا وزارتیں لینے سے بھی اختلاف تھا۔ سرحد، بلوچستان اور کراچی کے ارکان جماعت بھی میاں صاحب کی اس پالیسی سےنالاں تھے۔
آخر میں کراچی کے احباب کا شکریہ ادا کئے اور تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے سید منورحسن صاحب کے کراچی منتقلی کے بعد ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا، انکی خدمت میں حتی الوسع کوئی کوتاہی نہیں کی۔ انکی صحت کے بارے میں سب کو آگاہ رکھا۔ انکا خیال رکھنے میں اپنی ذمہ داری کاحق ادا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو نیا اور آخرت میں احسن اجر عطا فرمائے۔ آمین