• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: ڈاکٹر فرقان حمید، ترکی

پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر کیا جانے والا ترک ڈراما سیریل’’ارطغرل غازی‘‘ اُس عظیم شخصیت کی زندگی سے متعلق ہے، جو سلطنتِ عثمانیہ کےبانی، عثمان اوّل کے والد تھے اور ان کا نام ارطغرل تھا ۔ارطغرل ترکی زبان کا لفظ ہے، جو دوا لفاظ’’ار‘‘ اور ’’طغرل‘‘ سے مل کر بنا ہے۔ ار کے معنی ’’سپاہی یا ہیرو ‘‘کے ہیں، جب کہ طغرل کا مطلب’’ عقاب ‘‘ہے۔اب اسے نام کا اثر کہہ لیں کہ ارطغرل غازی بھی ایک بہادر، نڈر، عقل مند، دلیر، ایمان دار اور بارعب سپاہی تھا،جو تا عُمر سلجوقی سلطنت کا وفادار رہا۔

اس تاریخی ڈرامے میں ارطغرل کا کردار، ترکی کے معروف اداکار، انگین آلتان دوزیاتان(Engin Altan Düzyatan) نے بہت ہی عمدہ طریقے سے ادا کرکے نہ صرف ترکوں ،بلکہ پاکستانیوں کے بھی دِل جیت لیے ہیں۔انگین نے اپنے کیرئیر کا آغاز2001ء میں ڈراما سیریل ’’روح سر‘‘ سے کیا۔2005ء میں پہلی فلم،Kalbin Zamanı اور 2006ء میں روسی ادیب Leo Tolstoyکے ناول پر مبنی پہلا تھیٹر کیا۔یوں مختصر سے عرصے میںانگین نے شوبز انڈسٹری کے تین شعبوں ٹی وی، فلم اور تھیٹر میں قسمت آزمائی کے ذریعے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔

گزشتہ دِنوں سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے ہم نے انگین آلتان دوزیاتان سے ایک تفصیلی ملاقات کی۔ اس دِل چسپ گفتگو کا احوال آپ کی نذر ہے۔

پاکستانی ڈرامے یا فلم میں کام کرنا خوش نصیبی ہوگی
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س : اپنےخاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج:میرا تعلق ترکی کے شہر ازمیر(Izmir) سے ہے،جب کہ تاریخ پیدایش26جولائی 1979ء ہے۔مَیں نے گریجویشن Dokuz Eylul یونی ورسٹی سے فلم اور تھیٹر کے شعبے میں کیا اور اس کے بعد مستقل طور پر استنبول ہی میں رہایش اختیار کرلی۔اب گزشتہ 20برس سے استنبول میں ہوں اور ایک پیشہ وَر اداکار کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہوں۔ مجھے انگریزی پر عبور حاصل ہے،جب کہ ترکی تو مادری زبان ہے۔

س: کیرئیر کا آغاز کب کیا؟

ج: باقاعدہ طور پر کیرئیر کا آغاز 2001ء میں ڈراما سیریل ’’روح سر‘‘ سے کیا اور اُس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

س: ابھی کس پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں؟

ج: دیکھیں، ایک وَرسٹائل فن کار کونئے پراجیکٹس کی آفرز ہوتی ہی رہتی ہیں۔ سو، مَیں بھی اس وقت ایک سرپرائز پراجیکٹ پر کام کررہا ہوں، جس سے متعلق فی الحال کچھ بھی بتانے سے قاصر ہوں۔ البتہ ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ایک ڈاکیومینٹری ضرور بنا رہا ہوں،جو تقریباً مکمل ہوچُکی ہےاور جلد ہی اسےنمایش کے لیے پیش بھی کردوں گا۔اس کے علاوہ بھی کئی پراجیکٹس پر کام جاری ہے۔ اگرچہ کورونا وبا کی وجہ سے شیڈول بہت متاثر ہوا ، لیکن اب حالات آہستہ آہستہ نارمل ہورہے ہیں اور اُمید ہے کہ جلد ہی پُرانی مصروفیات لوٹ آئیں گی۔

س:آپ نے لگ بھگ چھے سال تک ڈراما سیریل ’’ارطغرل غازی‘‘ کے مختلف سیزنز میں کام کیا ،تو اس کے کون سے سیزن میں اپنا کردار سب سے زیادہ پسند آیا ؟

ج:مجھے تو تمام سیزنز میں اپنا کردار اچھا لگا،کیوں کہ مَیں اسکرپٹ دیکھے بغیر کسی کام کی ہامی بھرتا ہی نہیں ہوں۔

س: جب ارطغرل غازی کی شوٹنگ کا آغاز ہوا، تو کیا اس بات کا اندازہ تھا کہ یہ اس قدر پسند کیا جائے گا؟

ج:جی ہاں، جب اس کا اسکرپٹ پڑھا تھا، تو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ناظرین میں بہت مقبول ہوگا۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر اس قدر مقبولیت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی ویسے ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس ڈرامے کو صرف عالمِ اسلام ہی میں پذیرائی حاصل نہیں ہوئی، دیگر مُمالک سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی اسے بہت دِل چسپی سے دیکھا۔ خصوصاً جنوبی امریکا اور برطانیہ وغیرہ میں، جب کہ یورپی مُمالک میں بھی اس کے خاصے چرچے ہیں۔

س:ارطغرل غازی ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ،جو بھلائے نہ بھولتا ہو؟

ج:ڈرامے کو کام یابی سے ہم کنارکرنے کے لیے پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور خود مَیں نے پوری ٹیم کے مابین خوش گوار تعلقات استوار کرنے کی بَھرپور کوشش کی، جواس ڈرامے کی کام یابی کا راز بھی ہے۔ ہم سب نے مل کران چھے برسوں میں بہت اچھا وقت گزارا ۔شوٹنگ کے دوران بے شمار ایسےواقعات پیش آئے،جن پر ہنسی بھی آتی تھی اور افسوس بھی ہوتا تھا۔ جیسے ایک بار لڑائی کا منظر فلمایا جا رہا تھا اور ڈائریکٹر نے اس منظر کو ایک ہی شُوٹ میں فلمانے کا فیصلہ کیا تھا۔ 

یہ سین تقریباًچار سے ساڑھے چار منٹ کے دورانیے پر مشتمل تھا۔ اس سین میں ارطغرل کوقتل کیا جانا تھا،جس کے لیےکیمرا مین کو باہر سے آتے ہوئے خیمے کے اندر تک جانا تھا اور ساتھ ہی لگی ہوئی آگ کا منظربھی دکھانا تھا۔ تمام مناظر عمدہ طریقے سے فلمائے جا رہے تھے، لیکن آخری سین میں میرے ساتھ فائٹ کرنے والا اداکار بار بار ری ٹیک کروا رہاتھا۔مَیں نے بہت تحمّل اور پیار سے اُسے سمجھایا، تاکہ وہ پُرسکون رہ کر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مجھ پر تلوار کا وار کرسکے۔

مگر جیسے ہی ری ٹیک اسٹارٹ ہوا اور آخری سین کے مطابق مَیں پیچھے مُڑا، اچانک مَیں نے اپنے سَر پر ایک سخت وار محسوس کیا اور پھر آن کے آن میرا چہرہ لہولہان ہوگیا۔ اصل میں ساتھی اداکار نے مجھ پر وقت سے پہلے ہی وارکردیا تھا۔ تو ایسے کئی ایک واقعات شوٹنگ کے دوران پیش آئے، جو تاحال ذہن و دِل پر نقش ہیں۔

س:ارطغرل غازی ایک سحر انگیز ڈراما ہے کہ ناظرین ارطغرل کی بات چیت کا انداز، یہاں تک کہ ہاتھ کھول کر دُعا مانگنے کا اسٹائل تک اپنا رہے ہیں،تو اس ڈرامے نے آپ کی زندگی پر کیا اثرات مرتّب کیے؟

ج:کئی بار مجھ سے اس قسم کے سوالات کیے جاتے ہیںاور مَیں ہر بار یہی جواب دیتا ہوں کہ اس ڈرامے کے بعد مَیں نے نہ کوئی نئی زندگی شروع کی، نہ میری زندگی میں کوئی واضح تبدیلی آئی۔ میری زندگی جیسی پہلے تھی، اب بھی ویسی ہی ہے۔ مَیں اپنی ذاتی زندگی میں بھی ہمیشہ سے عدل و انصاف کا خیال رکھتا ہوں۔ 

میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی کا دِل نہ دُکھاؤں۔ مَیں شروع سے ہیومینیسٹ(انسان دوست) ہوں، انسانوں کو ترجیح دیتا ہوں اور آج بھی ایسا ہی ہوں۔ البتہ ایک افسوس ضرور ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کا دَور،جس میں بناوٹ نہیں تھی،وہ اب کہیں دکھائی نہیں دیتا۔میری خواہش ہے کہ ہم جس عہد میں زندگی گزار رہے ہیں،اس میں بھی معصومیت، شفّافیت اور اِخلاص دَر آئے۔بس اس ڈرامے کے بعد مَیںدُنیا میں یہی کمی محسوس کرتا ہوں۔

س:ڈرامے کے تیسرے سیزن میں دوان الپ کی شہادت، چوتھے سیزن میں حلیمہ کی موت پر آپ نےجس طرح شدّت غم کا اظہار کیا، اُس نے ناظرین کو بھی رونے پر مجبور کردیا، ذرا اُن کا تو کچھ احوال بتائیے؟

ج: بلاشبہ، ان دونوں مناظر نے مجھے خاصا جذباتی کردیا تھا۔ ان سینز میں بہائے جانے والے میرے سارے آنسو حقیقی تھے، جن کے پیچھے میری کام سے محبّت چُھپی تھی۔سچّی بات تو یہ ہے کہ مَیں نے ان مناظر کی عکس بندی کے دوران اداکاری نہیں کی، بلکہ خود کو اس جگہ رکھ کر سوچا۔ پھر ایک بات یہ بھی تھی کہ جب آپ اپنے ساتھی اداکاروں کے ساتھ سیٹ پر چار سال گزار چُکے ہوں اور وہ آپ سے الگ ہورہے ہوں، تو اس بات کا بھی دُکھ ہوتا ہےکہ اب آپ اُنہیں سیٹ پر نہیں دیکھ سکیں گے،لہٰذا یہ سین کرتے ہوئے مجھے ان کی کمی بھی شدّت سے محسوس ہونا شروع ہوگئی تھی۔ 

اس سین میں ارطغرل کی زندگی سے شریکِ حیات، حلیمہ کا ہمیشہ کے لیے نکل جانا، ارطغرل کی بربادی کے معنوں میں آتا تھا، اس لیے بھی اس درد کو شدّت سے محسوس کیا۔ حلیمہ جس کا اصل نام اسراع ہے، میری اس سےعام زندگی میں بھی اچھی ذہنی ہم آہنگی ہے۔ رہی بات دوان آلپ (روشن ) سے تعلق کی،تو وہ میری ماں کا بیٹا نہیں ، لیکن مَیں اُسے اپنا بھائی ہی سمجھتا ہوں۔یہی وجہ ہے کہ جب دوان آلپ کا آخری سین فلمایا جا رہا تھا، تو ہم صرف سیٹ ہی پر نہیں، کیمرے کے پیچھے بھی رو رہے تھے۔میری اوردوان الپ کی بہت گہری دوستی ہے۔اس کے علاوہ ترگت اور بامسی بھی میرے قریبی دوستوں میں شامل ہیں۔

س:ڈرامے کے ڈائریکٹر، متین صاحب کے حوالے سےکیا کہنا چاہیں گے؟

ج:اگر متین صاحب اس ڈرامے کےڈائریکٹر نہ ہوتے، تو یہ کبھی مکمل ہی نہیں ہوپاتا۔ان کے بارے میں تو یہی کہوں کہ ان کی نالج بہت کمال کی ہے۔شاید ہی کوئی شعبہ ہو، جس سے متعلق انہیں معلومات حاصل نہ ہوں۔ ڈرامے کو ناظرین کی توجّہ کیسے حاصل ہوسکتی ہے، وہ اس معاملے پر بھی بھرپور دسترس رکھتے ہیں۔ 

میری متین سے بہت اچھی دوستی ہے اور ان پر مکمل اعتماد اور بھروسے ہی کی وجہ سے ڈرامے میں کام کی ہامی بھری تھی کہ ڈائریکٹر کی عمدہ ڈائریکشن کے بعد ہی فن کاروں کا اپنے کردار سے انصاف نظر آتا ہے۔ بہرحال، متین کی اپنے کام پر مکمل گرفت ہے۔وہ اس فن کے بھی ماہر ہیں کہ ڈرامے کی دُنیا کو کس طرح تشکیل دیا جاتا ہے۔

اس لیے انہوں نے ہم سے وہ سب کچھ کروانے میں کام یابی حاصل کی، جسے وہ اپنے اندر محسوس کررہے تھے اور ہم نے بھی ان کی توقعات پر پورا اُترنے کے لیےخُوب محنت کی۔بہرحال، مَیںنے ایک منجھے ہوئے ڈائریکٹر کے ساتھ کام کیا ہے،جس پر فخر محسوس ہوتا ہے، کیوں کہ اگر ایک ڈائریکٹر پوری ٹیم کے مابین اعتماد اور بھروسے کی فضا قائم نہ کرسکے، تو پھر وہ ڈراما زیادہ کام یابی حاصل نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اچھی ٹیم اور اچھا ٹیم ورک ہمیشہ ہی آپ کو نصیب نہیں ہو۔

س:آج کل آپ ترکی کےایک ڈرامے میں فوکس اورحان آتماجا کا کردار ادا کررہے ہیں، تو اس حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟

ج: اصل میں اس کردار کےدو رُخ ہیں، ایک پہلو انصاف فراہم کرنے والے کا اور دوسرا انسانیت کا۔یعنی ایک طرف مَیں انسانی کم زوریوں اور ان سے متعلق جدوجہد کو اُجاگر کررہا ہوں، تو دوسری طرف سرکاری ملازم یعنی پراسیکیوٹر ہونے کے ناتے خود پر عاید ذمّے داریاں بھی نبھا رہا ہوں۔ یہ بڑا دِل چسپ کردار ہے، جسے خُوب انجوائے کرتے ہوئے ادا کیا، لیکن یہ طویل المدّتی نہیں ہے۔

س: فیملی کو کتنا وقت دیتے ہیں؟

ج: شوٹنگ کے بعد مَیں زیادہ تر وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارتا ہوں، تاکہ بچّوں کی تعلیم و تربیت پر بَھرپور توجّہ دے سکوں۔ دراصل مَیں اُن لوگوں میں سے ہوں، جو فیملی کے ساتھ وقت گزار کر بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔

س: پسندیدہ فلم یا ڈراما کون سا ہے، جسے بار بار دیکھنے کوجی چاہتا ہو؟

ج:سچّی بات تو یہ ہے کہ مَیں ڈرامےیا فلمیں بار بار نہیں دیکھتا،کیوں کہ دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ہاں البتہ مَیں نے ڈراما ارطغرل غازی کی شوٹنگ کے دوران اپنی پرفارمینس ضرور دیکھی، تاکہ پرفارمینس میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا ڈائیلاگز بولنے میں غلطی ہوگئی ہو، تو آیندہ نہ ہو اور اپنا کردار مزید بہتر طور پر ادا کرسکوں۔

ویسے ایک بات ہے ،اگر پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد مَیں کسی دوسرے پراجیکٹ میں مصروف ہوں اور اچانک وہی پُرانا پراجیکٹ سامنے آجائے تو پھر اسے انجوائے کرتے ہوئے دیکھتاہوں۔

س:پاکستان میں آپ کے بہت فالوورز ہیں اور یہاں تک کہا جارہا ہے کہ اگر آپ پاکستان کے الیکشن میں کھڑے ہوگئے، تو جیت یقینی ہے،تو اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ج:یہ پاکستانی عوام کی ذرّہ نوازی ہے، جنہوں نے مجھ پراس قدر محبّت نچھاور کی۔ ایسی بے لوث محبّت قسمت والوں ہی کو ملتی ہے۔ ویسے پاکستان ہمارا برادر، دوست مُلک ہے۔ اور ہم نے اپنا پورا بچپن، پاکستان کے ساتھ محبّت کے جذبات سے لبریز ہی گزارا یا یوں کہہ لیں کہ ہم اِسی برادرانہ محبّت و چاہت میں پلے بڑھے ہیں۔ 

مَیں نے بہت پہلے ایک جنگی فلم، ’’انا دولو کارتال‘‘ میں کام کیا تھا ،جس میں پاکستانی پائلٹس بھی تھے، تو ہماری پوری ٹیم ان کے ساتھ خُوب گھل مل گئی تھی،جس کا سبب پاکستان کے ساتھ ہم ترکوں کی محبّت ہے۔ ویسے مَیں پاکستان کا بہت بڑا مدّاح ہوں، لیکن یہ واضح کردوں کہ جیسے سیاست، سیاست دانوں کا کام ہے، توبالکل ایسے ہی میرا کام اداکاری کرنا ہے، نہ کہ سیاست میں حصّہ لینا۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ’’ جس کا کام اُسے کو ساجھے‘‘، تو میرا سیاست میں حصّہ لینے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں ہے۔

س: اگر پاکستان کی جانب سے آپ کو کسی ڈرامے یا فلم میں کام کی آفر آئے، تو کیا قبول کرلیں گے؟

ج:جی بالکل ، بہت خوشی ہوگی ،لیکن کام کا فیصلہ ڈرامے یا فلم کا ماحول اور کہانی دیکھ کر ہی کروں گا۔ اگر کردار میری خواہش کے مطابق ہوا تو آفر ضرور قبول کرلوں گا اور خود کو بہت خوش نصیب تصوّر کروں گاکہ اس طرح پاکستانی عوام کی محبّت کا قرض بھی چُکتا ہوجائے گا۔

ج:اپنے کروڑوں مدّاحوں کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: پاکستان سے اتنی محبّت و چاہت ملے گی، کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ بات میرے لیے بےحد فخر کا باعث ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستانی مدّاحوں کے جو پیغامات مِل رہے ہیں، مَیں اُن سے آگاہ ہوں اور آپ سب کی محبّت و چاہت پر دِل سے ممنون بھی ہوں۔

ان شاء اللہ حالات بہتر ہونے پر جلد پاکستان آؤں گا اور پاکستانی عوام کے رُوبرو بھی اپنے پُرخلوص جذبات کا اظہار کروں گا۔نیز، جنگ، سنڈے میگزین کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر پاکستانی عوام کا شکریہ ادا کروں گا کہ جنہوں نے اس طرح اپنی محبّت کے سارے دروازے تُرک قوم پر کھول دیئے ہیں۔

تازہ ترین