• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو برس قبل اِنہی دنوں میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ’’ نئے پاکستان‘‘ کے سفر کا آغاز ہوا۔ اِن دو برسوں میں قوم بہت سے تجربات سے گزری، سیاسی قیادت کے بدلتے رنگ دیکھے، تو وعدوں، دعووں، نعروں کے برعکس حقیقتیں سامنے آئیں۔ چوں کہ اب موقع بھی ہے اور دستور بھی، بلکہ ضرورت بھی کہ قوم سے یہ سوال پوچھا جائے کہ’’ نئے پاکستان کا یہ سفر کیسا رہا؟‘‘ لہٰذا ہم نے اِس سروے کا آغاز ناظم آباد 7 نمبر بس اسٹاپ پر کھڑے ایک نوجوان سے کیا، جو دفتر جانے کے لیے بس کا منتظر تھا۔ 

نوجوان نے اپنا نام محسن ہاشمی بتایا ، وہ بچّوں کے لیے ٹافیاں وغیرہ بنانے والی کمپنی کے شعبۂ مالیات سے وابستہ تھا۔ ’’ تو نئے پاکستان کا تجربہ کیسا رہا؟‘‘ اِس سوال پر دِل گرفتہ سے انداز میں جھٹ بولا’’ بس سر! آیندہ کسی کو ووٹ نہیں ڈالوں گا۔‘‘ اُس کی اِس ’’نہیں‘‘ ہی میں اصل جواب پوشیدہ تھا، تاہم پھر بھی بات واضح کرنے کے لیے پوچھ ہی لیا کہ’’ کیا آپ عمران خان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں؟ جو یوں مایوسی کی باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ تو جواباً اُس نے قدرے تلخ لہجے میں کہا، ’’ارے بھئی، کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے؟ ایسا لگتا ہے، جیسے ابھی عمران خان حکومت میں آئے ہی نہیں ہیں…‘‘ ابھی اُس کی بات جاری تھی کہ ہماری آفس وین آگئی، تو ہم معذرت کرکے آگے بڑھ گئے۔ راستے میں سوچا، نوجوان جلد گھبرا جاتے ہیں اور ذرا جذباتی بھی ہوتے ہیں، اِس لیے اُن کی رائے کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا کسی بزرگ سے بات کرنی چاہیے کہ وہ کئی سیاسی ادوار دیکھ چُکے ہوتے ہیں۔ 

بہرحال، کھانے کے وقفے میں دفتر کے سامنے والی گلی میں چلے گئے، جہاں ایک بند دُکان کے باہر بینچ پر کئی بزرگ بیٹھے تھے اور اتفاق سے سیاست ہی اُن کی گفتگو کا موضوع تھی۔ ہم نے سلام کرکے ایک بڑے میاں سے گزارش کی’’ محترم! اگر اجازت ہو، تو حکومت کی کارکردگی سے متعلق کچھ سوالات کرلوں؟‘‘ اِس پر اُنھوں نے مُسکراتے ہوئے کہا’’ کیوں بھئی! کیا اب بات چیت پر بھی کوئی ٹیکس لگ گیا ہے، جو تم یوں گھبرا رہے ہو؟‘‘لیں جی! یہ بزرگوار تو پہلے ہی سے بَھرے بیٹھے ہیں۔’’ آپ نے اپنی عُمر کا ایک بڑا حصّہ پرانے پاکستان میں گزارا اور اب پچھلے دو برس سے نئے پاکستان میں جی رہے ہیں، تو بزرگو! یہ تجربہ کیسا رہا؟‘‘ اِس پر وہ سمجھانے کے انداز میں گویا ہوئے’’ دیکھو میرے بچّے! مَیں بینک کا ریٹائرڈ آفیسر ہوں، اِس لیے اور کچھ نہیں تو مالیاتی معاملات کو تو ضرور کچھ کچھ سمجھتا ہوں۔ پہلی حکومتوں میں بھی حالت کوئی اچھی نہیں تھی اور سچّی بات یہ ہے کہ اُن سے زیادہ توقّعات بھی نہیں تھیں، مگر عمران خان نے بہت مایوس کیا ہے۔ 

اُن کی تقاریر سُن کر ایسا لگتا تھا، جیسے اُن کے اقتدار میں آنے سے’’ خوابوں والا پاکستان‘‘ وجود میں آ جائے گا، لیکن بیٹے! ہمیں تو ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آ رہی ہے۔‘‘ اِس پر قریب بیٹھے ایک اور بزرگ نے گرہ لگائی’’ بھئی! ہمارا تو یہی مشورہ ہے کہ خان صاحب کو’’ وزیرِ اعظم برائے تقاریر‘‘ رکھ لیا جائے اور کام کاج کسی اور کے حوالے کر دئیے جائیں‘‘، اِس پر ایک قہقہہ بلند ہوا اور ہم واپس دفتر لَوٹ آئے۔ 

شام کو کچھ ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے لالو کھیت مارکیٹ جانا ہوا، تو موقع غنیمت جانتے ہوئے کپڑے کے ایک دُکان دار سے پوچھ بیٹھے’’ جناب! کاروبار تو ٹھیک چل رہا ہوگا، ماشاء اللہ ؟‘‘ ہمارے یوں خیر خیریت پوچھنے پر وہ تو ایسے بھڑکے، جیسے بس کسی کے منتظر ہی تھے’’ بہت اچھا چل رہا ہے، بلکہ میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ بھی کوئی دُکان کھول لیں، آج کل دھڑا دھڑ دُکانیں خالی ہو رہی ہیں۔‘‘ ہم نے عرض کیا’’ ہاں جی! پڑھا اور سُنا یہی ہے کہ کورونا سے کاروبار کو بہت نقصان پہنچا ہے۔‘‘ شاید ہمارا تجزیہ کچھ زیادہ پسند نہیں آیا، اِسی لیے تیزی سے بولے’’ کورونا سے پہلے کون سا ہم تھیلے بھر بھر کر روپے لے جا رہے تھے۔ 

جب سے یہ حکومت آئی ہے، کاروباری طبقہ روز پیچھے ہی پیچھے جا رہا ہے۔ یقین نہیں آتا، تو مارکیٹ میں گھوم پِھر کے دیکھ لیں۔‘‘رات کو ایک دوست نے بیٹے کی منگنی کی دعوت پر مدعو کر رکھا تھا، کورونا کے سبب محدود تعداد میں مہمان بُلائے گئے تھے، اِس لیے خُوب گپ شپ کا موقع ملا۔ ایسے مواقع پر ہمارے ہاں پسندیدہ موضوع سیاست ہی ہوتا ہے، سو وہاں بھی تجزیوں اور تبصروں کی بہار تھی۔ 

البتہ، حیرت انگیز طور پر تقریباً تمام افراد کو حکومت سے نالاں ہی پایا۔ تقریباً اس لیے کہا کہ ایک نوجوان اب بھی اِس پر مُصر تھا کہ ’’ عمران خان کی نیّت ٹھیک ہے، مگر اُنھیں ٹیم اچھی نہیں ملی، جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں مل پا رہے۔‘‘اسی طرح ہماری کئی اور نوجوانوں سے بھی بات ہوئی اور اُن کی رائے بھی کم و بیش اِسی طرح کی تھی کہ عمران خان تو بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن اُن کے آس پاس براجمان افراد اُن کا ساتھ نہیں دے رہے۔ اب یہ بات کس قدر وزنی ہے، اس کا تو باآسانی تجزیہ کیا جاسکتا ہے، مگر اِن آراء سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ نوجوان تاحال عمران خان کے رومانس یا اُن کی تقاریر کے سحر سے باہر نہیں نکلے اور وہ کسی اَن ہونی کے منتظر ہیں، جس سے عوام کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔

اگر خواتین کی بات کی جائے، تو پی ٹی آئی شاید وہ واحد جماعت ہے، جسے خواتین کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہوئی،یہاں تک کہ بہت سے مَردوں نے محض اپنے گھر کی خواتین ہی کے اصرار پر اسے ووٹ دیا، لہٰذا خواتین سے بھی یہ جاننا ضروری تھا کہ وہ خود کو’’ نئے پاکستان‘‘ میں کیسا محسوس کر رہی ہیں۔لائٹ ہاؤس پر گھر کے لیے پردوں کی خریداری میں مصروف ایک بڑی عُمر کی خاتون سے اجازت لے کر بات کی، تو اُن کا کہنا تھا’’ سیاست ویاست کا تو مجھے زیادہ علم نہیں، عمران خان اچھا لگتا تھا، اِس لیے پورے گھر نے اُسے ووٹ بھی دیا، لیکن ہر چیز منہگی ہو گئی ہے، ساری اُمیدوں پر پانی پھر گیا۔‘‘ کچھ آگے بڑھے، تو شُو مارکیٹ کے سامنے والی گلی میں مسجد کے برابر کھڑے ٹھیلے سے چند خواتین پھل خرید رہی تھیں۔ ہم بھی جا کر کھڑے ہوگئے۔ ایک خاتون دوسری سے کہہ رہی تھیں’’ ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے۔پچاس روپے والی چیز سو، سوا سو میں مل رہی ہے، توبہ ہے۔‘‘ کچھ پوچھے بغیر ہی رائے مل گئی تھی، سو کسی اور سے بات کرنے کے لیے چل پڑے۔ کچھ قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ گاؤں سے والدہ کا فون آگیا۔ خیر خیریت کے بعد اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئیں، تو نہ جانے کیسے منہگائی کا ذکر چِھڑ گیا۔ بولیں’’ اب تو کچن چلانا مشکل ہوگیا، بہت بے برکتی ہوگئی ہے۔

ہزار کے نوٹ کا تو پتا ہی نہیں چلتا۔ ہر چیز کی قیمتوں کو پَر لگ گئے ہیں، وہ تمہارا عمران خان کیا کر رہا ہے؟‘‘ ہم کیا کہتے، کچھ تسلّیاں اور کچھ سابقہ حکومتوں کو کوسنے دے کر ماں کو مطمئن کردیا اور مائیں تو ویسے بھی بچّوں کی باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین کر ہی لیتی ہیں۔ یہ صرف اِن چند خواتین کی بات نہیں، ہم نے جس سے اور جہاں بات کی، سب ہی کو منہگائی کے ہاتھوں پریشان پایا۔ ندا احسان ایک تعلیم یافتہ گھریلو خاتون ہیں۔ اُن کے شوہر ایک دفتر میں درمیانے درجے کی ملازمت کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا’’ آپ نے پُرانے اور نئے پاکستان کی جو بات کی ہے، اِس حوالے سے صرف اِتنا ہی کہنا چاہوں گی کہ پہلے ٹھیک گزارہ ہو جاتا تھا، مگر اب تو ہر ماہ کے آخر میں اُدھار مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ 

ایسا نہیں ہے کہ ہمارے اخراجات بڑھ گئے ہوں، اب بھی پہلے ہی کی طرح کھاتے پیتے ہیں، لیکن قیمتیں پہلے جیسی نہیں رہیں۔ دودھ پہلے اسّی، نوّے روپے کلو تھا اور اب 120 روپے میں مل رہا ہے۔ آٹا اور چینی دیکھ لیں۔ دالوں اور کوکنگ آئل کی قیمتیں بھی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں؟ اِس صُورتِ حال نے ہمیں ہی کیا، سب کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ اگر کچھ تحقیق کریں، تو اِس منہگائی کی وجہ سے گھر گھر لڑائیاں ہو رہی ہیں کہ شوہر کہتے ہیں، بیویوں نے اخراجات بڑھا دئیے اور بیویاں پریشان ہیں کہ کچن کیسے چلائیں؟‘‘

محمّد جاوید گلشنِ اقبال میں سِوک سینٹر کے قریب رہتے ہیں۔وہ اِن دنوں بے حد پریشان ہیں۔وجہ اُن ہی کی زبانی سنیے’’ ایک ادارے میں چالیس سال سے جاب کر رہا ہوں، مگر اِتنے بُرے حالات کبھی نہیں دیکھے، جو گزشتہ دو برسوں سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پہلے تن خواہ وقت پر مل جایا کرتی تھی، مگر اب دو، دو ماہ نہیں ملتی۔ پھر مسئلہ یہ ہے کہ مالکان کو بھی کچھ کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ اُن کے کاروباری حالات بھی ہمارے سامنے ہیں۔یہ’’ نیا پاکستان‘‘ کم ازکم ملازمت پیشہ افراد کو تو راس نہیں آیا۔‘‘جواں سال محمّد وقاص نے بھی اِس حکومت اور’’ نئے پاکستان‘‘ کے نعرے سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کی تھیں۔ 

وہ ایک پُرجوش سیاسی ورکر کے طور پر جلسے، جلوسوں میں بھی شرکت کرتا رہا، مگر اب وہ اپنی ہی پارٹی کی حکومت سے نالاں ہے۔ ہم نے سبب دریافت کیا، تو بولے’’ ہم کہا کرتے تھے کہ حکومت میں آئے، تو روزگار کے دروازے کھل جائیں گے، لوگ بیرونِ مُلک سے ملازمتوں کے لیے پاکستان آیا کریں گے، مگر اِن دو برسوں میں بے روزگاری کے سیلاب نے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔سچ پوچھیں، تو اب مَیں منہ چُھپاتا پِھرتا ہوں۔ دوست میرا مذاق اُڑاتے ہیں اور میرے پاس اپنے پُرانے موقف کے دفاع کے لیے کچھ نہیں۔ 

دوسروں کا کیا رونا، مَیں خود پچھلے ایک برس سے گھر بیٹھا ہوں کہ اونر نے یہ کہہ کر کمپنی بند کردی’’ جب کام چلے گا، تو بُلالیں گے‘‘ اور ابھی تک کام چلنے کے کوئی آثار نہیں۔‘‘سرکاری یونی ورسٹی کے ایک استاد نے حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر کچھ یوں تبصرہ کیا’’ دیکھیے جناب! مسئلہ نیّتوں کا نہیں، کارکردگی کا ہے، جو اِن دو برسوں میں کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ اب تو یہ ہو رہا ہے کہ جس معاملے پر وزیرِ اعظم نوٹس لیتے ہیں، وہ معاملہ اور زیادہ بگڑ جاتا ہے، لوگوں نے ازراہِ تفنّن یہاں تک کہنا شروع کردیا ہے کہ’’ جنابِ وزیرِ اعظم! اللہ کے لیے کسی ایشو کا نوٹس مت لیجیے۔‘‘ پھر یہ بھی کہ اِن دو برسوں میں حکومت کی کوئی سمت واضح نہیں ہو سکی کہ وہ چاہتی کیا ہے؟ بلکہ بعض سنجیدہ حلقے تو یہ سوال بھی اُٹھانے لگے ہیں کہ’’ کیا مُلک میں واقعی حکومت نام کی کسی چیز کا وجود بھی ہے؟‘‘

بھلا بچّوں کے بغیر سروے کیسے مکمل ہوسکتا ہے؟یہ واحد’’ مخلوق‘‘ ہے، جو حکومت کی زبردست حامی ہے۔ بچّے حکومت سے اِس لیے خوش ہیں کہ اُن کی تقریباً پانچ ماہ سے چھٹیاں ہیں۔ ویسے ہی راہ چلتے ایک بچّے سے حکومت کے بارے میں پوچھا، تو بولا’’ انکل عمران بہت اچھے ہیں، ہم تو بغیر امتحان اگلی کلاس میں آگئے اور اسکول بھی نہیں جانا پڑ رہا۔‘‘ ہم نے کہا’’ بیٹے! یہ حکومت کی وجہ سے نہیں، بلکہ کورونا کے سبب ہوا ہے۔‘‘ تو وہ معصومیت سے بولا’’ انکل! ایک ہی بات ہے۔‘‘

تازہ ترین