• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں FATF کے حوالے سے ’’انسداد دہشت گردی ترمیمی بل‘‘ اور ’’اقوام متحدہ سلامتی کونسل ترمیمی بل‘‘ کی اتفاق رائے سے منظوری کو پاکستان کے ’’گرے لسٹ‘‘ سے نکلنے میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا جارہا ہے تاہم FATF کی آڑ میں حکومت ’’اکنامک ٹیررازم ترمیمی بل‘‘ ایوان میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔

منظور ہونے والے مذکورہ بلوں کے علاوہ دیگر دو بلوں کا تعلق قومی احتساب بیورو (نیب) اور ’’اکنامک ٹیررازم‘‘ کے حوالے سے تھا جن پر بحث کیلئے کمیٹی کے اجلاسوں میں اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو شامل نہیں کیا گیا جس سے حکومتی حکمت عملی پر شبہات نے جنم لیا۔

متنازع ’’اکنامک ٹیررازم ترمیمی بل‘‘ کے حوالے سے حکومت کی یہ حکمت عملی تھی کہ FATF بلوں کی آڑ میں اِس بل کو بھی ایوان سے منظور کروالیا جائے تاہم سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بروقت نشاندہی اور پارٹی کے سینئر رہنمائوں کو ’’اکنامک ٹیررازم بل‘‘ کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے پر یہ بل ایوان میں شدید تنقید کا نشانہ بنا۔

مگر حکومتی وزراء اور مشیر گمراہ کن تقریریں کرکے آخری وقت تک کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ ’’اکنامک ٹیررازم بل‘‘ کی منظوری ناگزیر ہے اور FATFکی شرائط میں شامل ہے حالانکہ ’’اکنامک ٹیررازم بل‘‘ کا تعلق FATF سے قطعاً نہیں تھا اور نہ ہی FATF کے کسی ممبر ملک میں ایسے کسی بل کی منظوری کی مثال ملتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا موقف تھا کہ حکومت FATF کے نام پر ایسا کالا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے جو نیب سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا اور FATF کی ریکوائرمنٹس میں اکنامک ٹیررازم اور 90 دن تک کسی کو ’’مسنگ پرسن‘‘ بنانے کی کوئی شق نہیں۔ پیپلزپارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی ’’اکنامک ٹیررازم بل‘‘ پر شدید تحفظات لاحق تھے اور ان کا موقف تھا کہ اس بل کا مقصد حکومت مخالف سیاسی رہنمائوں اور بزنس مینوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا تھا۔

’’اکنامک ٹیررازم‘‘ بل پر بزنس کمیونٹی کو بھی شدید خدشات لاحق تھے۔ گزشتہ دنوں سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے لندن سے وڈیو لنک کے ذریعے ملک کے بزنس کمیونٹی کے نمائندوں، جن کا تعلق ایف پی سی سی آئی، چیمبرز، ایسوسی ایشنز اور وومین چیمبرز سے تھا، سے اپنے خطاب میں ’’اکنامک ٹیررازم بل‘‘کو ’’ڈریکونین بل‘‘ قرار دیا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’’اکنامک ٹیررازم بل‘‘ کے ذریعے بیورو کریٹس کو بزنس مینوں کی گرفتاری کے اختیارات دینا اُنہیں بلیک میل کرنے کے مترادف ہے۔

اس موقع پر بزنس کمیونٹی کے سرکردہ لیڈروں نے اسحاق ڈار صاحب سے درخواست کی کہ مسلم لیگ (ن) ایوان میں ’’اکنامک ٹیررازم بل‘‘ کی مخالفت کرے اور بالآخر مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی شدید مخالفت پر حکومت اپنے ارادوں میں ناکام رہی۔ واضح رہے کہ FATF کی آڑ میں اگر ’’اکنامک ٹیررازم بل‘‘ ایوان میں منظور ہوجاتا تو بیورو کریٹس کو کسی بھی بزنس مین یا شہری کو گرفتار کرکے 90 دن تک اپنی حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل ہوجاتا۔

وزیراعظم پاکستان ماضی میں اپنے غیر ملکی دوروں میں اکثر تقریروں میں پاکستانی بزنس مینوں کو ’’چور‘‘ قرار دیتے رہے ہیں جس سے پاکستانی بزنس مینوں کا بیرون ملک تشخص مجروح ہوا اور غیر ملکی سرمایہ کار اور بزنس مین، پاکستان میں سرمایہ کاری یا کاروبار کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور اب حکومت کا ’’اکنامک ٹیررازم بل‘‘ کی آڑ میں بیورو کریٹس کو بزنس مینوں کی گرفتاری کے اختیارات دینا سمجھ سے بالاتر تھا جس کی منظوری سے ملکی معیشت جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔

مزید تباہی سے دوچار ہوسکتی تھی تاہم مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی بروقت نشاندہی اور قابل تعریف اقدام سے حکومت اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوسکی جو مسلم لیگ (ن) کا قابل ستائش کردار ہے اور اس اقدام پر بزنس کمیونٹی اُن کی مشکور ہے۔

FATF کا پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل رکھنے اور فنانشل سسٹم میں کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے سے پاکستان کو یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ حکومت نے FATF کو مطمئن کرنے کیلئے کچھ اہم اقدامات کئے۔ گزشتہ سال جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی گرفتاری اور اُنہیں عدالت سے 5 سال قید کی سزابھی اِسی سلسلے کی کڑی تھی۔

اسی طرح ایک اہم پیشرفت میں چاروں صوبوں کی انتظامیہ نے بڑی تعداد میں ایسے مدارس کو اپنی تحویل میں لیا جو جماعت الدعوۃ اور جیش محمد کے زیر نگرانی چلائے جاتے تھے جبکہ حال ہی میں ’’انسداد دہشت گردی ترمیمی بل‘‘ اور ’’اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل ترمیمی بل 2020ء‘‘ کی منظوری بھی ایک مثبت قدم ہے ۔

جس سے پاکستان کے فنانشل سسٹم اور بینکنگ نظام میں بہتری آئے گی۔ بھارت کافی عرصے سے پاکستان کو FATF کی ’’بلیک لسٹ‘‘ میں شامل کرانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے تاکہ پاکستان کی معیشت کو عدم استحکام کا شکارکرسکے تاہم ایوان سے حالیہ بلوں کی منظوری کے بعد پاکستان کے ’’گرے لسٹ‘‘ سے نکلنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

ایسے میں جب پاکستان نے ’’گرے لسٹ‘‘ سے نکلنے کے تمام مراحل احسن طریقے سے طے کرلئے ہیں لہٰذااب پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔

تازہ ترین