• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیشت مستحکم کرنے کی وزیراعظم کی محتاط پالیسیوں کے نتائج آنا شروع ہوگئے

تحریر…محمد شفیق عتیق


معاشی محاذ پر چیزیں تیزی سے حرکت کررہی ہیں کیونکہ وزیراعظم عمران خان خاص طورپرریاستی مشینری کو نئے مواقع کیلئے تیار کررہے ہیں۔ یہ حادثاتی نہیں ہے: حکومت کی معاشی پالیسیوں کاجائزہ لینے سے انکشاف ہوتاہے کہ پاکستان تحریک اںصاف دوسال سے سخت محنت کررہی ہےتاکہ ملک کو معاشی محاذ پر درپیش مسائل بشمول معاشی بحران، قرضوں کا جال، کرنٹ اکائونٹ خسارہ، منی لانڈرنگ، پاورجنریشن اور ہائوسنگ یونٹس کی کمی سے باہر نکالاجائے۔ زراعت، مینو فیکچرنگ، سروسز، ٹیکسیشن اور دیگر شعبوں میں مائیکرواور میکرولیول پر کئی اقدامات دیکھے جاسکتے ہیں۔ میگا واٹر پروجیکٹس، پاور جنریشن، غریبوں کیلئے گھروں کی تعمیراوراحساس سوشل سیکیورٹی پروگرام اور کفایت شعاری مہم پر خاص توجہ دی گئی ہے۔


بنیادی سطح سےشروعات: نو منتخب حکومت کو 2018میں جوحالات ورثے میں ملے تھے، ان میں بے پناہ کرپشن شامل ہے جو ملک کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے مشکل حالات کاسامنا کرنےکافیصلہ کیا اور لگن سےکرپٹ عناصر کااحتساب کرکےصفائی کرنے کاایجنڈا اپنایا۔ جب پی ایم ایل(ن) حکومت نے 2013میں آئی ایم ایف کے ساتھ 6.64ارب دالر کاپروگرام حاصل کیاتومنیجنگ ڈائریکٹرآئی ایم ایف کرسٹائن لگارڈ نے اس وقت کی حکومت کو مشورہ دیاکہ ’’معاشی اور بیرونی سہاروں کے ذریعے برداشت کومضبوط بنانا جاری رکھیں تاکہ مستقبل کے معاشی جھٹکوں کیلئے مناسب طورپر تیاری کی جاسکے۔‘‘بدقسمتی سےپی ایم ایل(ن)آئندہ انتخابات کیلئےتیاری کرتی رہی اورآئی ایم ایف کی نصیحت پرعمل کرنےپرتوجہ نہ دی۔اس کی بجائےاس نےاخراجات جاری رکھےجن کےبل اداکرنےکیلئےملک کوآج بھی مشکلات کاسامناہے۔ لہٰذا 18اگست2018 کوجب عمران خان نےوزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایاتو انھیں اس کےسواکوئی چارہ نہ تھاکہ یاتوفوری طورپرڈیفالٹ ہونےکی اجازت دیں یاایک اور آئی ایم ایف پروگرام لیں جو بیروں قرضوں کےدبائو کو کم کرسکے۔ نئی حکومت کیلئے یہ بہت کڑوی گولی تھی،اور تقریباًایک سال تک انھوں نےمعاشی کریش سے بچنے کیلئے ضروری کیش جمع کرناشروع کیا۔ لیکن پاکستان کے دوستوں کی جانب سے بڑی مدداور داخلی طور پر کیے گئے اقدامات کے باوجود ملک کوپھربھی آئی ایم ایف پیکج کی ضرورت تھی۔


ذمہ داریاں پوری کرنا: آئی ایم ایف پروگرام شروع ہونےکےبعدپاکستان کیلئےآئی ایم ایف نے سہ ماہی پرفارمنس ٹارگٹس طے کیے۔ اس کےباعث کرنٹ اکائونٹ خسارہ انتہائی کم ہوگیا، افراطِ زرکاسونامی ختم ہوااورکم وبیش ڈالر کے مقابلے میں روپیہ164پرمستحکم ہوا۔ سی پیک ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکاہے جس میں زراعت، مینوفیکچرنگ اور سروسز شامل ہیں۔ طویل عرصے سےتاخیر کاشکار واٹرپراجیکٹس شروع ہوچکےہیں۔ ایک انتہائی موزوں فری ٹریڈ معاہدہ چین کے ساتھ طے پاچکاہے جس کے باعث پاکستان کو چینی مارکیٹ تک غیرمثالی رسائی لےگی۔ یورپین یونین اور امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط ہوئے ہیں اور ایکسپورٹ اور امپورٹ میں سرمایہ کاری کےمواقع کےساتھ معیشت بحالی کی جانب گامزن ہے۔


آگےکاراستہ: حقیقی چیلنج مائیکروسطح پرمعاشی اصلاحات میں ترقی کرناہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئےطویل عرصےسےتاخیر کاشکار اصلاحات نہایت اہم ہےلیکن اسے احتساب کےعمل کےساتھ جوڑ دیاگیاہےاورلہٰذا اسے نافذ کرنا بہت مشکل ہے۔سٹیٹس کو کی قوتوں کی جانب سے سخت سیاسی مذاحمت کاسامناہےاور یہ اصلاحات کی کاوشوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ خوش قسمتی سےوزیراعظم عمران خان کسی دبائو کے آگے جھکے نہیں اور حکومت میں اعلیٰ سطح تک معاشی فیصلے لینےمیں کرپشن کے کینسر کو ختم کرنےکیلئےپُرعزم ہیں۔ انھیں پختہ یقین ہےکہ کرپٹ کاموں کی وجہ سےبنا نظام پاکستان کے قرضوں اور معاشی مشکلات کاباعث ہے۔ مزیدبرآں وہ قائل ہیں کہ ریگولیٹری اور فیصلہ سازی کے عوامل کو کمزور، خراب اور اس پر سمجھوتا کیاگیاہےتاکہ کک بیکس، منی لانڈرنگ اور ٹیکس سے بچنےمیں سہولت کاری کی جاسکے۔ حکومت کو فوری طورپرپتہ لگ گیاتھا کہ معیشت کو آزاد کرنے کیلئے سپلائی چین کوڈی ریگولیٹ کرنا ہوگا، عوامل کو سادہ بنانا ہوگا اور مقابلے کی فضاپیداکرناہوگی اور معیشت کی کارٹلائزیشن کی اجازت نہیں دینی ہوگی۔


سلیٹ کی صفائی:ایک بدعنوان نظام پاکستان کیلئے مہلک ہے. یہ پہلے ہی پاکستان کو تباہی کی راہ پر ڈال چکا ہے. اس لئے وزیراعظم نے پاکستان کے عوام سے جو وعدے کئے سسٹم کی اصلاح ان کی کلید ہے. وزیراعظم نےکئی اہم معاملات پر اقتصادی، انتظامی اور فوجداری تحقیقات کا حکم دیا ہے. ان میں سرکاری قرضے، بجلی کے نرخ اور چینی اور گندم کے بحران جیسے معاملات شامل ہیں. ان کا مقصد یہ تھا کہ کرپشن اور فیصلہ سازی میں ربط ختم کیا جائے اور ذمہ داری کا تعین کیا جائے. معیشت کی ڈاکومنٹیشن آمدنی پیدا کرنے کے محاذ پر ایف بی آر نے ٹیکس نیٹ بڑھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اور ٹیکس وصولی بڑھائی ہے. جبکہ وزیراعظم نے ایف بی آر اور قومی ٹیکس ایڈمنسٹریشن کی اصلاح کی اصلاح کا بڑاچیلنج قبول کیا ہے. غیر مقبول لیکن ضروری اصلاحات کے ذریعے دستاویزی بنانے اور ایک نیا ٹیکس کلچر پیدا کرنے کیلئے بے ضابطہ اکانومی کو تیزی سے باضابطہ اکانومی میں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے. حکومت، تاجر اور کاروبار ی برادری ایک ایسے مناسب ٹیکس سسٹم پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں جو منصفانہ ہو اور ملک کی ترقیاتی ضرورتیں پوری کرے. کووڈ19 پر فتح کووڈ 19 کی وبا نے پاکستان میں شہری معیشت کو بری طرح متاثر کیا. مینوفیکچرنگ اور سپلائی کے سلسلے کو شٹ ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا. حکومت نے اس سلسلے میںNCOC کے قیام، اسے سازوسامان سے لیس کرنے اور اس کے ذریعے ملک بھر میں صحت کی سہولتیں پہنچانے کےموثر اقدامات کئے. دوسری طرف اس نے متاثرہ غریب خاندانوں کو بھوک اور ناداری سے بچانے کیلئے اربوں روپے نقد ان تک پہنچائے. سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اور موثر نگرانی سے منفی اقتصادی اثرات سے بچایا گیا. اقتصادی نقصانات سے بچنے کیلئے وزیراعظم نے جہاں جی سیون ملکوں سے قرضوں میں رعایت حاصل کی وہاں ترقی پزیر ملکوں کیلئے قرضوں کی ری سٹرکچنگ اور ریلیف کیلئے عالمی اتفاق پیدا کرنے میں پہل کی. وبا سے پیدا ہونے والی بے روزگاری کے تدارک کیلئے حکومت نے کنسٹرکشن اور ہاؤسنگ کے شعبوں کو مراعات دیں تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں. مستقبل کیلئے عزائم اس سارے تجربے کے ساتھ پاکستان اب مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے تیار ہے. اب بھی خود وزیراعظم کی سربراہی میں ہفتہ وار اجلاس جاری ہیں کہ تعمیراتی صنعت کو کوئی ریگولیٹری مشکلات پیش ہوں تو وہ دور کی جائیں.اس کے نتیجے میں اس شعبے کو حالیہ پانچ ہفتے میں پچھلے پچاس سالوں سے زیادہ سہولتیں حاصلِ رہی ہیں. ان اصلاحات کو ادارتی شکل دی گئی ہے. ہر سطح پر خود کار نظام سے منظوری دی جارہی ہے. سٹیٹ بنک سے ماگیج فنانس کا بھی انتظام کیا گیا ہے. ڈولپمنٹ سائٹس پر یوٹیلٹیز کی فراہمی، REITs فنانسنگ کی بحالی، ٹیکس معقول بنانے، لو کاسٹ ہاؤسنگ کیلئے مراعات جیسے اقدامات سے یہ سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے. وزیراعظم کی قیادت میں فاسٹ ٹریک اصلاحات کا یہ ماڈل جس میں وفاقی اور صوبائی دونوں سطح کی انتظامیہ کو شامل کیا گیا اب مینوفیکچرنگ، سروسز، زراعت اور نالج اکانومی جیسے شعبوں میں بھی بروئے کار لایا جائے گا. ہوم ورک کرلیا گیا ہے اور اصلاحات کے پیکیج تیار ہیں. تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نئی عالمی صورت حال میں، جبکہ پروڈکشن کے مراکز تبدیل ہوگئے ہیں، پاکستان علاقے کے ملکوں سے مقابلہ کرکے نئے مواقع سے فائدہ اٹھاسکتا ہے. وزیر اعظم پاکستان کا امیج بہتر بنانے اور سرمایہ کاری، پیداوار میں اس کی انٹر نیشنل رینکنگ اوپر لے جانے کیلئے نہایت سرگرم ہیں۔

تازہ ترین