• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دوستو! پچھلے کالم میں ہم لاہور کی مال روڈ پر نصب مختلف مجسموں کے حوالے سے بات کر رہے تھے، اب لاہور میں صرف میو اسکول آف آرٹس (موجودہ نام نیشنل کالج آف آرٹس) کے سامنے پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کی عمارت میں واقع فارمیسی (جس کو ماضی میں شعبۂ بی فارسی بھی کہتے تھے) ڈیپارٹمنٹ کے باہر فٹ پاتھ پر الفریڈ کوپر وولز کا دراز قد مجسمہ رہ گیا ہے۔ اس مجسّمے کو کئی مرتبہ اسٹوڈنٹس کی ایک تنظیم نے توڑنے کی بھی کوشش کی تھی۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے لاہور میں کئی عمارتیں،تعلیمی اور طبی ادارے بنائے ہم نے ان کو بھلا دیا۔ سرگنگا رام نے لاہور میں کئی تاریخی اور خوبصورت فن تعمیر کی حامل عمارتیں بنائیں، آج بھی ان کے اسپتال سے روزانہ سینکڑوںافراد علاج کرانے آتے ہیں خصوصاً خواتین کا لاہور میں سب سے بڑا اسپتال ہے بلکہ سر گنگارام ٹرسٹ آج بھی موجود ہے اور بھارت میں سر گنگا رام اسپتال ہے۔ سر گنگارام کی فیملی کےافراد آج بھی لاہور سر گنگا رام اسپتال کبھی کبھی آتے ہیں اور ان کے ٹرسٹ سے آج بھی کئی مسلمانوں کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ لاہور کے پرانے بابوں کو تو یاد ہو گا کہ فاطمہ جناح میڈیکل کالج کا پہلا نام بالک رام میڈیکل کالج تھا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ سر گنگا رام کے بیٹے کو میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملا تو انہوں نے اپنے بیٹے کے نام پر میڈیکل کالج بنا دیا۔ ابھی بالک رام کی میڈیکل کالج کی پہلی کلاس کا سیکنڈ ایئر تھا تو پاکستان بن گیا اور اس کالج کا نام ڈاکٹر شجاعت علی نے فاطمہ جناح کے نام پر کر دیا۔ ہم نے پروفیسر شاہدہ حیدر کے پاس اس بالک رام میڈیکل کالج کی پہلی کلاس کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر بھی دیکھی ہیں۔ خیر اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ ہمیں یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ ہم نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج کے بانی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شجاعت علی کی بیٹی (سابق پرنسپل) ڈاکٹر بشارت یوسف کا انٹرویو کیا ہے بلکہ ایف جے ایم سی کے دس پرنسپلوں کا انٹرویو کیا ہے۔ کیا عجیب اتفاق اور روایت ہے کہ یہ کالج صرف لڑکیوں کے لئے بنایا گیا تھا مگر اس کے پرنسپل مرد بھی رہے۔ موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عامر زمان ہیں اور اب یہ ادارہ یونیورسٹی بن چکا ہے۔ پروفیسر عامر زمان نہایت سادہ طبیعت اور غریب پرور انسان ہیں اور اس ادارے کو مزید ترقی دے رہے ہیں۔ بات ہو رہی تھی لاہور میں نصب مجسموں کی۔ ڈاکٹر الفریڈ وولز پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے تھے اور سنسکرت کے استاد بھی تھے۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی اور اورنٹیل کالج کو ترقی دینے میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ آج کل یہ مجسمہ درختوں میں چھپا ہوا ہے۔ کوئی اس کو صاف کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ پنجاب یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد اختر بڑے علم دوست انسان ہیں ان سے توقع ہے کہ وہ ڈاکٹر الفریڈ وولز کے مجسّمے کی صفائی کرائیں گے۔

ہم نے مولانا محمد حسین آزاد کا مجسمہ بھی کہیں دیکھا ہے۔ اس سلسلے میں تحقیق کرا رہے ہیں، یاد آ جائے گا کہ ہم نے ان کا مجسمہ کہاں دیکھا تھا۔ ویسے تو بہت کم لاہوریوں کو پتہ ہو گا کہ محمد حسین آزاد کی قبر لاہور میں کربلا گامے شاہ میں ہے۔ بے چارے اختر شیرانی کی قبر بھی میانی صاحب میں واصف علی واصف کے مزار کے قریب بری حالت میں ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) میں ہم نے اپنی جوانی میں کنگ ایڈورڈ کا مجسمہ بھی دیکھا تھا۔ اگلے روز ہماریبات میو اسپتال کے سابق معروف ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز سے ہو رہی تھی، ان کا بھی یہ خیال ہے اور ہمارا بھی کہ غالباً 1973-74تک کنگ ایڈورڈ کا مجسمہ کالج کی خوبصورت کھڑکی کی سیڑھیوں کے قریب نصب تھا جو پتہ نہیں اب کہاں ہے۔ لاہور میں کچھ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جہاں سو برس سے بھی قدیم لکڑی کی سیڑھیاں موجود ہیں جو تاحال زیر استعمال ہیں۔ مجال ہے کہ ان لکڑی کی سیڑھیوں کو ذرا بھی دیمک لگی ہو۔ یہ کام کیا تھا گوروں نے، اگر ہم نے لکڑی کی سیڑھیاں لگائی ہوتیں تو اب تک بے شمار لوگ ان سیڑھیوں سے گر چکے ہوتے اور یہ کئی بار ٹوٹ چکی ہوتیں۔

سب سے خوبصورت لکڑی کی سیڑھیاں بنک آف بنگال کی انتہائی خوبصورت عمارت میں آج بھی زیر استعمال ہیں۔ بنک آف بنگال کی عمارت میں اب یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز کی عمارت ہے۔ اس خوبصورت لال اینٹ کی عمارت پر آئندہ بات کریں گے۔ اس وقت لاہور میوزیم میں کنگ ایڈورڈ اور جارج پنجم کا مجسمہ محفوظ ہے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) میں پروفیسر فیصل مسعود مرحوم ایک ایسے وائس چانسلر آئے تھے جنہیں اس کالج کی ایک ایک اینٹ سے پیار بلکہ عشق تھا۔ انہوں نے اس کی عمارت کے اصل تعمیراتی حسن کو محفوظ کرنے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے کالج کے اولڈ ہال میں میڈیکل کے شعبے سے وابستہ پرانے ماہرین کی پینٹنگز کو بنوا کر لگایا تھا مگر وہ اب اتار دی گئی ہیں۔ اداروں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ پروفیسر ممتاز حسن نے اس کالج کو یونیورسٹی بنایا تھا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سنا ہے کہ ایچیسن کالج میں بھی دو مجسّمے موجود ہیں۔

لاہور کے کئی گرجا گھروں میں بھی مجسّمے ہیں ۔ سیکرڈ ہارٹ کیتھڈرل میں سینٹ انتھنی کا مجسمہ، سینٹ فرانسیس، سینٹ یوسف کے مجسّمے ہیں جبکہ حضرت مریم اور حضرت یسوع مسیح کے بھی مجسّمے رکھے ہوئے ہیں۔ سینٹ جوزف پیرش لاہور کینٹ، سینٹ انتھنی پیرش، مریم بیداغ چرچ، سینٹ جان پیرش اور سینٹ میریز چرچ گلبرگ میں حضرت مریم، حضرت یسوع مسیح اور دیگر سینٹ کے مجسّمے رکھے ہوئے ہیں۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین