پاکستان کو بنے 73سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہماری بدقسمتی یا خوش قسمتی دیکھیں کہ ہم آج بھی یہ آفر دہرا رہے ہیں کہ آئیے پاکستان بناتے ہیں۔ یہ نعرہ 73سال بعد ایمل ولی خان نہیں دے رہا بلکہ یہ آفر پاکستان بننے کے ساتھ ہی باچا خان نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں دے دی تھی۔ اُس آفر کو قبول کرنے کی بجائے پاکستان کی مخصوص لابی نے سانحہ بابڑہ میں نہتے پشتونوں اور خدائی خدمتگاروں کو شہید کروایا بلکہ باچا خان کو خان عبدالولی خان کے ساتھ چھ سال کیلئے پابند سلاسل بھی کردیا۔ اس وقت اُن پر الزام لگایا گیا کہ باچا خان نے فقیر ایپی کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ کرنے کی سازش کی ہے۔ چھ سال بعد باچا خان تو جیل سے باہر آگئے لیکن پاکستان پر حملے کا الزام ان پر کوئی ثابت نہ کرسکا۔
یہ سلسلہ چلتے چلتے جب خان عبدالولی خان تک آپہنچا تو ولی خان نے سقوط ڈھاکہ کے وقت پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کی بھی کوشش کی۔ اس وقت ایک بار پھر وہی روایت دہرائی گئی اور ریاست پاکستان کے اُن چند عناصر نے نہ صرف ولی خان کو جیل میں ڈالا بلکہ بیک وقت ولی خان کے والد محترم باچا خان اور اُن کے نوجوان بیٹے اسفندیار ولی خان کو بھی پابند سلاسل کردیا۔1971ء میں جب پاکستان دولخت ہونیوالا تھا تو کوئی لیڈر یہ ہمت نہ کرسکا کہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) جا کر وہاں کے نمائندوں سے بات کرسکے۔ لیکن ولی خان نے تمام خطرات کے باوجود مشرقی پاکستان جا کر اس ملک کو بنانے اور ایک رکھنے کی بات کی۔ تاریخ کے طالبعلم جانتے ہوں گے کہ اس وقت شیخ مجیب الرحمان نے ولی خان کو یہی کہا تھا کہ یہ ملک پاکستان ہم نے بنایا تھا، آپ لوگوں نے تو اسکی مخالفت کی تھی اور آج آپ اس ملک کو بچانے کی بات کررہے ہیں؟ تو ولی خان کا جواب یہی تھا کہ 'ہم اس وقت بھی تقسیم کے خلاف تھے اور آج بھی تقسیم کے خلاف ہیں۔ یہ پاکستان بنانے کی بات تھی لیکن بدلے میں ہر وقت غداری، غیرملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائے گئے ۔ 1973ء میں جب آئین پاکستان بن رہا تھا تو خان عبدالولی خان اپوزیشن لیڈر تھے۔ اگر وہ چاہتے تو اس آئین کو کبھی بھی متفقہ طور پر منظور نہیں کروایا جاسکتا تھا لیکن انہوں نے اس ملک کو بنانے کی بات کی۔ اسی آئین پر ولی خان نے اپنے ہی پشتون بھائیوں کو ناراض بھی کر لیا لیکن انکی دوراندیشی دیکھ لیں کہ انہوں نے اس ملک میں تمام چھوٹی قومیتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے تمام محکوم و مظلوم قومیتوں کی جنگ لڑی اور کامیابی حاصل کی۔ اسی تسلسل کے ساتھ ہمارے موجودہ قائد اسفندیارولی خان بھی کھڑے رہے۔اس ملک کی پارلیمانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو 90 کی دہائی میں جب دہشت گردی اور انتہاپسندی کو بڑھاوا دیا جارہا تھا تو اسفندیارولی خان ہی تھے جنہوں نے ببانگ دہل پارلیمنٹ میں کہا کہ یہ آگ بھڑکنے والی ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ اس وقت اس عمل کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور ہم نے خود اپنے آپ کو اس آگ میں دھکیل دیا۔ نائن الیون کے بعد پوری دنیا میں نئے بلاکس بن گئے، افغانستان کے بارے میں ہماری پالیسی یک دم 180ڈگری پر تبدیل ہوگئی اور امریکا کے اتحادی بن گئے۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر اس وقت جمہوری حکومت ہوتی تو شاید اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا جو نقصان ہم نے 2001ء سے 2008ء کے دوران اٹھایا۔ ان فیصلوںکا خمیازہ 2008ء سے 2013ء کے دور حکومت میں ہم بھگت چکے ہیں اور اس ملک میں امن کی خاطر اپنے لیڈران اور کارکنان کی قربانیاں دیںلیکن دہشتگردوں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
اپنے حقوق کی جنگ میں آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر اس ملک کے تمام صوبوں اور عوام کو اٹھارویں آئینی ترمیم دے کر اسفندیار ولی خان نے پاکستان کو مزید مضبوط کردیا، لیکن اس کے بدلے ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ پختونوں کے سروں کا سودا کیا۔ جس طرح اُن چند کرداروں نے آج تک باچا خان اور ولی خان پر غداری کا الزام ثابت نہیں کیا اسی طرح سات آٹھ سال گزرنے کے باوجود اسفندیار ولی خان پر بھی لگایا جانے والا کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا ۔
آج باچا خان کی چوتھی نسل سیاست میں ہے،آج بھی باچا خان کا خاندان اُن چند مخصوص افراد کی وجہ سے غداری کے الزامات اور فتوئوں کی زد میں ہے، باچا خان کی سوچ و فکر کے ایک ادنیٰ کارکن اور بحیثیت سیاسی جانشین آج میں ایک بار پھر ریاست پاکستان کو آفر دیتا ہوں کہ '’’آئیے پاکستان بناتے ہیں‘‘۔ یہ پاکستان وہ پاکستان ہوگا جہاں عوامی مینڈیٹ کا احترام ہو، جہاں عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہوں، وہ پاکستان جہاں حقیقی معنوں میں آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی ہو۔جہاں میڈیا اور عدلیہ آزاد ہو، جہاں ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔ وہ پاکستان جس میں انتہاپسندی اور دہشتگردی کیلئے کوئی جگہ نہ ہو۔ یہ پاکستان ایک ترقی یافتہ پاکستان ہوگا جس میں تمام اکائیوں کو اپنے حقوق حاصل ہوں گے، اپنے وسائل پر اختیار ہوگا۔
آج اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اس خطے کی آزادی کیلئے تحریک پاکستان سے زیادہ اور نتیجہ خیز کردار تحریک آزادی کے ہیروز نے ادا کیا تھا۔ تحریک آزادی نہ ہوتی تو شاید تحریک پاکستان جنم نہ لیتی۔آج اس امتیاز کو ختم کرنا ہوگا اور جس طرح تحریک پاکستان کے کرداروں کو پذیرائی ملتی ہے یا نصابی کتب میں جگہ دی گئی ہے، اس سے بڑھ کر تحریک آزادی کے ہیروز سے اپنی آنیوالی نسل کو روشناس کرانے کو ترجیح دینا ہوگی۔میں اپنے خاندان اور ایک سیاسی تسلسل کی چوتھی نسل کے جانشین کے طور پر آج بھی اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی آفر کے ساتھ دامن دل کشادہ کیے کھڑا ہوں کہ ’’آئیے پاکستان بناتے ہیں‘‘۔