• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی صبح، تو کہیں رات کے قدموں میں پھنسی بیٹھی تھی۔ پر مہرالنساء کی کھٹ پٹ نے اُٹھا کے بٹھا دیا۔ ایک اللہ مارے اُس کے جوتے جانے کِس ڈھیٹ قسم کی پلاسٹک سے بنے ہوئے تھے، اوپر سے کمرے کا چوبی فرش بھی بڑا ہی بے مروتا سا تھا۔ اِس چلت پھرت پر کُھل کے ناراضی کا اظہار کرتا تھا۔ جی تو چاہا کہ رضائی پَرے پھینکوں اور اُسے پکڑ کر چھترول کردوں، مگر ’’قہرِدرویش برجان درویش‘‘ والا معاملہ تھا۔ تکیہ کانوں پر رکھ کر رضائی سے منہ ڈھک لیا۔ ابھی گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ ’’اٹھو، نماز پڑھ لو‘‘ کی صدائیں شروع ہوگئیں۔ نماز کے لیے اٹھنا تو تھا ہی، مگر نیند بھی تو پوری ہونی چاہیے تھی کہ صبح سفر پر روانہ ہونا تھا۔ سیما کو بھی تپ چڑھی ہوئی تھی۔ بہرحال، اٹھنا پڑا۔ 

نماز کے بعد رسان سے مہرالنساء کو سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی ’’دیکھو ہم سائیوں، دوستوں اور ساتھیوں کے بارے میں اسلام بڑا حسّاس ہے، تو اس وقت ہم تمہارے ساتھ دُہرے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔‘‘ شُکر اللہ کا کہ اُس نے ہماری باتیں چُپ چپاتے کڑوے یا میٹھے گھونٹ جان کر پی لیں۔ جیسے ایک ہی دن میں ہوٹل کے معاملے میں ہمارا اسٹیٹس بڑھ گیا تھا اور ہم گریڈ بی سے اے میں آگئے تھے، ایسے ہی ناشتے کے ریٹ کا اسٹیٹس بھی بڑھ گیا۔ ہماری پنجابی زبان کی کہاوت کے مطابق ’’اوکیہڑا کِسے نُہوں یا جوائی توں کٹھ سی‘‘ (یعنی ناشتا کون سا کسی بہو اور داماد کے نخرے ٹخروں سے کم تھا) دو یورو اضافی کی اس نے بھی چھلانگ ماری تھی۔ ذہن ضرب، تقسیم کے چکّر ہی سے نہیں نکلتا تھا،11x127=1397 ناشتے میں موجود خشک ٹائپ چیز کو ٹِشو میں لپیٹ کر بیگ میں رکھا کہ گڈّی پر چڑھنا تھا، دیر سویر سب ساتھ تھے۔ سچّی بات ہے، مَیں تو ایسے چوری چکاری، ہیرا پھیری کے کاموں میں بڑی تیزہوں۔ نگران عورتوں کی آنکھ بچا کر دو تین چیزیں پارکرجاتی ہوں۔ سیما نے اناڑی پَن کا ثبوت دیا، جب وہ تین پایئز بیگ میں رکھنے لگی ویٹرس نے دیکھ لیا۔ دُڑکی لگاتے ہوئے قریب آکر بولی، ’’یہ سب آپ کے یہاں کھانے کے لیے ہے۔ ساتھ لے جانے کے لیے نہیں۔‘‘ سیما نے فوراً ہاتھ روک لیا۔ 

اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفق بے ثغور(قسط نمبر3)
غرناطہ کی گلیاں اورپیازہ نیوا

مَیں اُس وقت اپنی پلیٹ بھرنے کے لیے میزوں پر رکھی اشیاء کا جائزہ لینے میں مصروف تھی۔ واپس آئی، پوچھا، تو اِس سانحے کا پتا چلا۔ ’’تم بھی نِری گائودی ہو۔ ابھی میں اُس گوری کو ڈبّا بھرتے دیکھ کر آرہی ہوں، جو اپنے شوہر اور دو بچّوں کے ساتھ سامنے والی میز پر بیٹھی ہے۔ تم سے پُھوٹا بھی نہ گیا کہ یہ چڑھائی صرف ہمارے لیے ہے۔ جاکر اُس کا بیگ تو کھلوائو۔‘‘ سیما شریف عورت ہے، چُپکی ہورہی۔ 

تاہم، میں نے کارروائی مکمل کی۔ تین پیٹیز ٹائپ ٹشو پیپر میں لپیٹ کر پرس میں رکھے، اور مزے سے ہنستے ہوئے دونوں کو اپنی زبان میں سُنایا۔ تمہاری ایسی کی تیسی، پردیسی ہیں ہم۔ تمہاری تو گاڑیاں بھی ولایتی لڑکیوں جیسی ہیں، خُوب صُورت، شان دار، طرح دار، مہذب اور ایٹی کیٹس والی۔ کوئی ہماری طرح چیختے شور مچاتے اسٹیشن تھوڑی ہیں، جہاں نان پکوڑے، اُبلے انڈے، سموسے والے کی آوازیں گونجتی ہیں، تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کانوں میں رس سا گھل رہا ہو۔ ہائے کتنا مزہ آتا ہے، ’’چائے گرما گرم۔‘‘ گاڑی میں بیٹھتے ہی پٹارے کھل جاتے ہیں، سفر کرنے کا لُطف دوبالا ہوجاتا ہے۔‘‘

کائونٹر پر چابی دیتے، ٹیکسی منگوانے کا کہتے اور ڈپلومیٹک قسم کی الوداعی مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے دفعتاً سیما نے سامان اسٹور کرنے سے متعلق پوچھا، تو جواب ملا’’فی کس 250یورو فی دن‘‘۔ ’’آجا، میری جان آجا۔ ’’ٹکے کی بڈھی اور آنہ سرمنڈائی‘‘ والی بات ہے یہ تو۔‘‘ ایک فون کال پر ٹیکسی کاآجانا جیسے الٰہ دین کے جن کے حاضر ہوجانے کی طرح تھا۔ جب باہر نکلے، تورُوح تک سرشارہوگئی۔ آسمان گہرا ابَرآلود اور کن من کن من کرتی بوندیں۔ ’’وائو! سہانا سفر اور یہ موسم حسیں۔‘‘ہم تینوں گنگنااٹھیں۔ سارا شہر اِس کن من ،کن من کی موسیقی میں ڈوبا ہوا تھا۔ سڑکیں، اطراف میں تاحدِ نظرجاتی گلیاں، اُن میں چھاتے پکڑے چلتے پھرتے لوگ۔ ماحول کِس قدر رعنائی سے بھرا ہوا تھا۔ ایک نئی دنیا، ایک نئے سفر کی جانب رواں دواں۔ میرے پروردگار زندگی کتنی حسین ہے اور ہمارے اوپر یہ تیری کتنی بڑی عنایت۔

یہاں سے ایک وسیع و عریض ویٹنگ لائونج پہنچے، جہاں انفارمیشن بورڈ پر مختلف ٹرینوں کے اوقات اور ٹرمینل نمبر کی پٹی چل رہی تھی۔سیویلاSvila (اشبیلہ) کے لیے لمبی لائن لگی ہوئی تھی، ہمارا نمبر ابھی کافی اوپر تھا، بینچ پر بیٹھ گئے۔ عورتیں، بچّے، مرد، بوڑھے۔ ہائے اِس ریل گاڑی اور اسٹیشن میں کتنی رومانیت، کتنی فینٹسی اورکتنی ناسٹلجیا والی کیفیت ہے۔ لَبوں پر اپنا دیسی نغمہ تھرکنے لگا تھا ’’نی گڈئیے توں آنی ایں تے جانی ایں، کِناں نوں ملانی ایں تے کیناں نوں وچھوڑنی ایں۔‘‘ سامنے والی لمبی قطار پلک جھپکتے شیشوں کے خود کار دروازوں سے اندر چلی گئی، کائونٹر بند ہوگیا۔ اس وقت میرے اندر اطمینان و سکون کی لہریں رقصاں تھیں۔ وہ پرانا ڈر، خوف، بے چینی اور اضطراب سب عنقا تھے۔ بس خدا کے رنگ دیکھتی تھی۔ زیادہ بھاگنا نہیں پڑا، کچھ دیر بعد کائونٹر وہیں سج گیا، جس کے سامنے ہمارا ڈیرا تھا۔ بڑی نرم خُو قسم کی موٹی تازی عورت نے اُسے سنبھال کرکمان اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔

یہاں زندگی تیز رفتارگھڑی کی سوئیوں کی مانند چلتی ہے، جہاں پورا علاقہ ہمارے ہاں کے پھوٹوہاری، پستہ قامت اور کہیں درمیانی قامت والی پہاڑیوں کی سی صُورت لیے ہوئے تھا۔ تاہم، زیتون کے پیڑوں کا سیلِ رواں کہہ رہا تھاکہ اسپین، زیتون جیسے قیمتی، جنّت کے پھل کا گھر ہے۔ راستے میں تین شہر دیکھنے کو ملے۔ منظّم، ضبط وقیود کے دائروں میں سِمٹے ہوئے۔ ہماری طرح نہیں کہ بے ہنگم آبادی نے فطری حُسن کا ناس مار دیا ہے۔ پنجاب کے لینڈ اسکیپ، تھر اور چولستان کے صحرائی اور پہاڑی علاقوں کا حُسن پاکستان جیسے ملک کو جو رعنائی دیتا ہے، اُس کا ہم خود اپنے ہاتھوں ستیاناس کررہے ہیں۔ ٹرین کا رُکنا بھی ایسا ہی تھا، جیسے ابھی سانس بَھرا ہو اور خارج بھی کردیا ہو۔ میں نے اپنے اورغیروں کے اس تقابلی جائزے میں دردناک قسم کی آہیں سینے سے نکالنے والے عمل پر دو حرف بھیجے۔ اور خود کو ’’جو مل رہا ہے، اُس سے لُطف و شادمانی اُٹھا‘‘ جیسے ترغیبی جملوں سے مائل کرتے ہوئے باہر دیکھا۔ موسم تو ابھی تک حشر ساماں تھا، بارش ہو رہی تھی۔

انتکورا (Antequera)پر اُترے تو اسٹیشن پر جیسے ہُو کا عالم طاری تھا۔ اب ہونّقوں کی طرح کھڑے جائزہ لے رہے ہیں کہ جانا کدھر ہے؟ ایک دو سے رہنمائی چاہی، انہوں نے ساتھ ہی چلنے کا اشارہ دیا۔ برقی زینوں سے ایک بڑے ہال میں داخل ہوکر باہر نکلے، تو وہاں کھڑی بس میں جا بیٹھے۔بس کے گرم ماحول نے تھوڑا سا آسودہ کیا، شیشوں سے باہر دیکھنا شروع کیا۔ سوا گھنٹے کے سفر نے مجھے کیا کچھ نہیں یاد دلایا۔ غرناطہ سے پہلی محبت کا باعث نسیم حجازی تھے۔ اُن کے ناول ’’شاہین اور یوسف بن تاشفین‘‘ اللہ جھوٹ نہ بلوائے، تو کوئی ایک دو بار نہیں، دسَیوں بار پڑھے۔ بدربن مغیرہ ناول کا نہیں، اپنا ہیرو بن گیا تھا۔ اس کے کردار کی وہ فینٹسی، شدّت میں کچھ اضافے کا باعث مستنصر حسین تارڑ بھی ٹھہرا۔ ’’اُندلس میں اجنبی‘‘ ہمیشہ حرزِ جاں بنی رہی۔ جوانی کے یہ عشق اور اب بڑھاپے میں اس معشوقہ سے ملاقات، واہ کیا حُسنِ اتفاق ہے۔ 

اب بھلا آسمان کو محبوبیت سے کیسے نہ دیکھتی کہ وہاں جارہی تھی، جہاں جانے کی سدا سے حسرت تھی۔ چھوٹے سے اس سفری ٹوٹے میں آنکھوں نے زیتون کے علاوہ بھی کھیتوں میں کچھ اُگا ہوا دیکھا، یہ سبزیاں تھیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کے دُورافتادہ شہر بھی اپنے ہونے کا اعلان شان و شوکت سے کرتے ہیں۔ غرناطہ کا مضافات بھی صاف ستھرا اور قرینے سے سجا سنورا سامنے آرہا تھا۔ سڑکیں خُوب صُورت دو رویہ، سہ یا چہار منزلہ عمارتیں کُہنگی یا خستگی کے داغ دھبّوں سے پاک صاف، بارش میں بھیگتے درخت اور لوگوں کے سَروں پر تَنے چھاتے، سب بہت بھلے لگ رہے تھے۔ ہماری محویت کاطلسم اُس وقت ٹوٹا، جب بس ایک احاطے میں داخل ہوئی، جہاں قطاروں میں لگی ٹیکسیاں مسافروں کی منتظر تھیں۔ کہیں کوئی خجل خواری نہیں، کوئی پریشانی نہیں کہ اُترنے کے بعد ٹیکسی ڈھونڈنے کے لیے دوڑنا پڑے۔ ڈرائیور ہمیشہ سامان اُتروانے اور گاڑی میں رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ٹیکسی میں بیٹھتے ہی ہم نے ہوٹل کے نام، پتے والا کاغذ اُس کے آگے کردیا۔ اُس نے موبائل آن کیا، نقشہ سامنے آیا اور بس لمحے بھر کی بات تھی، سر ہِلااور گاڑی چل پڑی۔ شہر تو خُوب صُورتی اور حُسن میں اپنی مثال آپ تھا۔ ماضی اور حال کا غرناطہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ بارش کی صُورت کچھ دھواں دھار قسم کی تھی، بڑی خُوب صُورت گلی تھی۔ جس کے باہر ہوم گرینیڈا(Home Granda) کی تختی آویزاں تھی۔ ڈرائیور نے دروازہ کھولا، تو ہم نے لپک کر اندر جانے کو ترجیح دی۔

یہ ’’ہوم گرینیڈا‘‘ کیسا ہے؟ اس کا کچھ تنقیدی جائزہ لینے سے قبل ہی دو مَردوں نے نام، پتا دریافت کرنا شروع کردیا۔ سوال، جواب سے فارغ ہوکر بشاشت سے ذرا دائیں دیکھا، بائیں طرف نگاہ کی۔ دروازے کے ساتھ مختصر سی ڈیوڑھی، مختصر سا ہی صحن، چمکتی سُرخ اینٹوں والا۔ گہرے فیروزی مائل نیلے صوفے پر بیٹھتے ہی نگاہیں ذرا پَرے میزپر دھرے پھولوں پر پڑیں۔ یوں لگا، جیسے انہوں نے ہنس کر خوش آمدید کہا ہو۔ پھر ہنسی آئی، واہ کیا ہی کہنے ہماری خود فریبی کے۔ پاکستان میں رائج زمینی پیمایش کے حساب سے یہ بمشکل پانچ مرلے کا لگتا تھا۔ چھوٹا سا، مگر بے حد صاف ستھرا، ہری کچور بیلوں اور پودوں میں مُسکراتا ہوا۔ زینہ دیکھ کر گھبراہٹ ہوئی، مگر لفٹ کا جان کر اطمینان بھرا سانس لیا۔سیما کا اضطراب آفس میں بیٹھتے ہی الحمرا کے ٹکٹوں کے لیے جیسے پھٹ پڑا۔ خدا کا شُکر کہ دونوں مرد انگریزی سے آشنا تھے۔ انہوں نے کہا، ’’چار بج رہے ہیں، آن لائن ٹکٹنگ بند ہوجاتی ہے، اِس وقت، کل کوشش ہوگی۔‘‘ بہرحال، ساری دفتری کارروائی نمٹاکر کمرے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کمروں میں گئے کہ دو کمرے مع کچن، کھانے کی میز اور چار عدد کرسیوں سے سجا اپارٹمنٹ ملا تھا۔ 

چلو جی، موجیں ہی موجیں۔ باہر بارش ہورہی تھی، اندر ہم اپنے خوابوں کے شہر غرناطہ کے ایک کمرے میں بیٹھے گرما گرم چائے پی رہے تھے۔ ذرا بارش تھمی، تو باہر نکلے کہ کچھ کھائیں پئیں،مگرگلی پر تنا آسمان ابھی بھی اشتعال میں تھا۔ نکّڑ پر ٹھہر کر منظرکی دل رُبائی پر نگاہ ڈالی۔ سامنے پارک تھا، ہرے کچور درختوں سے بھرا، گھاس کے قطعوں سے سجا، ٹپ ٹپ بوندوں سے ٹپکتا، بارش کا پانی طریقے سلیقے سے سڑک کی ڈھلوانی جگہ سے نالی کی صورت تیز رفتاری سے بہہ رہا تھا۔ Samleronimoنامی یہ علاقہ اب رہایشی نہیں، کمرشل ہے۔ بغل در بغل کُھلتی گلیاں ایسے ہی ہوٹل نما اپارٹمنٹس میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ کبھی یہ متوسّط لوگوں کے گھر تھے۔ فرنٹ پر ریسٹورنٹ اور دُکانیں تھیں۔ سیما اور مہرالنساء فوراً گارمنٹس کی ایک دکان میں جا گُھسیں۔ مَیں باہر کھڑی خوش رنگ مناظر کو اپنے اندر جذب کررہی تھی۔ اِس منظر میں ایک اور دل فریب منظر نے توجّہ کھینچ لی۔ یہ سبز رنگ کی تین ڈبّوں پر مشتمل ’’ہوپ آف اور ہوپ آن‘‘ کی گاڑی تھی، جس کے کھلے ڈبّوں میں سیّاح بیٹھے لطف اٹھاتے تھے۔ ’’بھئی یہ تو بہترین طریقہ ہے شہر کی سیر کا۔‘‘ سرشاری نے نہال کردیا۔ چند قدموں پر ریسٹورنٹ تھا۔ اندر جاکر شوکیسوں میں سجے پیزا کا تنقیدی جائزہ لیا۔ 

تازہ تازہ ویجی ٹیبل پیزا اور سامنے اورنج جوس کی بڑی سی مشین دیکھ کر تین جوس کا بھی آرڈر دے دیا۔ پیزا کے ساتھ جوس بھی مزے کا تھا۔ 10یورو بل کا حساب وہیں میز پر ہی سینٹ اور یورو میں ہوگیا۔اب کائونٹر پر کھڑے لڑکے سے پوچھا کہ اس وقت ہم کہاں جاسکتے ہیں؟ ’’پیازہ نیوا، یہاں قریب ہی ہے۔‘‘ لڑکے نے نقشہ کھول کر ہمارے سامنے کیا۔یہ اسپینش میں تھا۔ تاہم اُس نے اُس جگہ کو سرکل کیا، جہاں ہم کھڑے تھے۔غرناطہ کا قدیم ترین مرکزی حصّہ تاریخی عمارتوں اور عظیم وَرثے سے سجا ہوا تھا، جس پر کسی جدّی پشتی شہزادے کا گمان ہوتا تھا۔ شُکر ہے، عربی نام غرناطہ کا بگاڑ بس تھوڑا سا ہی ہوا۔ ہسپانوی گرنطہ (Garnata) کہتے ہیں اور جب ہم اُس گلی سے گزرے، جس کے آخری کونے پر نیو اسکوائر شہر کا مرکزی حصّہ تھا، تو مَیں گویا تاریخ کے بہائو میں بہہ رہی تھی۔غرناطہ کا سقوط ایسے ہی نہیں ہوا تھا کہ اِسے مسلمانوں کی نالائقی، نااہلی اور عیاشیوں کے زمرے میں ڈال دیا جائے۔ یہ عیسائیوں کی منظم، متحد اور مسلسل فوجی مہمات کا نتیجہ تھا۔ مجھے ڈاکٹر عُمر عادل کی بات یاد آئی تھی،’’بہتر رہے گا غرناطہ کو اس کے الگ الگ ٹکڑوں میں دیکھو۔‘‘

نیواپلازا ہمارے سامنے تھا۔ دل کش مناظر کے جُھرمٹ میں ڈوبا ہوا۔ ذرا سے فاصلے پر پلازا سانتااینا بھی نظرآیا تھا۔ہم نے وہاں بیٹھنے، مناظر سے آنکھیں سینکنے اور کافی سے دل بہلانے کو ترجیح دی۔ پھر اُٹھے، بس پر چڑھے اور پلازا دی ازابیل جا اُترے۔پلازا دی ازابیل میں، گو کہنے کو خُوب صُورت بالکونیوں اور جدید رنگ عمارتوں کے ساتھ پلازے کی کشادگی، پھولوں اور پودوں کا حُسن بہت وافر مقدار میں دیکھنے کو ملتا ہے، مگراِس پلازے کی سب سے بڑی خُوب صُورتی اور رعنائی ایک قد آور مجسّمہ ہے۔ اسکوائر میں داخل ہوتے ہی یہ سب سے پہلے نظروں کو اپنے حصار میں لیتا ہے۔ رومن کیتھولک عقیدے کی حامل ملکہ کا مجسّمہ، جو تاریخ میں ازابیلا کے نام سے جانی جاتی ہے، گرینائٹ کے بلند و بالا پیڈسٹل پر دھرا ہے، سامنے شہرئہ آفاق سمندروں کا مسافر، کولمبس کھڑا فرمان حاصل کررہا ہے۔ مجسّمہ ساز کا کمال دیکھیے کہ اُس نے تاریخ کے جس عظیم فیصلے کوگرفت میں لینے کی کوشش کی، اس میں پوری طرح کام یاب رہا۔ ازبیلا اُس عظیم ملاح سے کہہ رہی ہے کہ وہ اس کی اِس مہم کے اخراجات کا سارا بوجھ اُٹھائے گی۔ یہ پلازا ازبیلا، کولمبس اسکوائر بھی کہلاتا ہے۔

اس وقت آٹھ بج رہے تھے۔ فضا میں خنکی بَھری ہوئی تھی اور رُکی ہوئی بارش بھی چپکے چپکے پیغام دے رہی تھی کہ اُٹھ جائو، مجھے تو آج ساری رات برسنا ہے، بس تم پردیسیوں کے ٹھکانے پر پہنچنے کی منتظر ہوں۔ اور سچ مچ ایساہی ہوا کہ جونہی ہم واپس آئے۔ مینہ برسنا شروع ہوگیا اور پھر ساری رات برستا رہا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین